ہر اک اپنے انجام سے باخبر ہے
کسی کو یہاں خوف ہے اور نہ ڈرہے
عجب ہیں مسافر عجب رہ گزر ہے
“ازل سے ابد تک سفر ہی سفر ہے”
گزرتے ہیں ہر روز ہم امتحاں سے
جہاں میں یہی قصۂ خشک و تر ہے
سکون اس کو کل بھی نہیں تھا میسر
غریب آدمی آج بھی در بدر ہے
جمعرات یا جمعہ سب ایک سے ہیں
کہاں اب کوئی فرقِ شام وسحر ہے
سبھی کان اور آنکھ والے ہیں لیکن
کوئی بے خبر ہے کوئی با خبر ہے
گنواؤ نہ نفرت میں تم زندگی کو
خدا کی قسم یہ بہت مختصر ہے
جہاں تک نہیں ہے رسائی ہماری
وہیں کے لیے مستقل دردِ سر ہے
نہیں ہے عمل کوئی جھولی میں تیری
تری ہر نصیحت بہت بے اثر ہے
خدا ہی محافظ ہے اب قافلے کا
سحر جو ہے رہ زن وہی راہ بر ہے
آپ کے تبصرے