پیچ و خم، حسن و ادا، مہر و وفا کچھ بھی نہیں

کشفی بریلوی شعروسخن

پیچ و خم، حسن و ادا، مہر و وفا کچھ بھی نہیں

لوگ کہتے ہیں محبت میں رہا کچھ بھی نہیں


ہم نے دہلیز پہ پلکوں کو بچھا رکھا ہے

جانے کس وقت وہ آجائے پتا کچھ بھی نہیں


اس نے مانگا ہے محبت کا حسیں تاج محل

اور مرے پاس مرے دل کے سوا کچھ بھی نہیں


کارواں لُٹ گیا اور لوگ ہوئے ہیں زخمی

رہبر قوم یہ کہتا ہے ہوا کچھ بھی نہیں


آج کے دور میں انصاف کہاں ملتا ہے

اس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطا کچھ بھی نہیں


دسترس میں سبھی دشمن تھے مگر دیکھو ادا

اتنی پاکیزہ سزا دی کہ کہا کچھ بھی نہیں

آپ کے تبصرے

3000