کس جرم کی ملی ہے سزا یاد آ گیا

کشفی بریلوی شعروسخن

کس جرم کی ملی ہے سزا یاد آ گیا

برسوں سے کیوں خفا ہے خدا یاد آ گیا


رہتے ہیں ہر گھڑی وہ خفا، یاد آ گیا

ان کا طریق مہر و وفا یاد آ گیا


پڑھنے کے بعد آج بھی قرآن غور سے

کیسا سرور مجھ کو ملا یاد آ گیا


معلوم جب ہوا کہ ہمیں چاہتے ہیں وہ

اپنی عبادتوں کا صلا یاد آ گیا


تنہائیوں کے گھر میں مجھے قید کر کے وہ

اب کیا کرے گا مجھ سے وفا یاد آ گیا


آیا ہوں رب کے پاس تو پوچھے ہے ہر کوئی

“کیا بات ہوگئی جو خدا یاد آ گیا”


ہم بھی کسی زمانے میں اُس کے رفیق تھے

اس بے وفا کو کیسے بھلا یاد آ گیا

آپ کے تبصرے

3000