ہے یہ دستورِ جفا، اِس کے سوا کچھ بھی نہیں
“اُس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطا کچھ بھی نہیں”
اب گلوں کو بھی تبسم کی اجازت نہ رہی
گلشنِ دہر میں بلبل کی صدا کچھ بھی نہیں
اب تو مظلوم ہی ظالم ہے عدالت میں تری
تیرے دربار میں قاتل کی سزا کچھ بھی نہیں
میری آواز، مرا درد، مری ٹیس بھی سن!
کیا تری بزم میں شاعر کی نوا کچھ بھی نہیں
ہم نے خوں دے کے سنوارا ہے وطن کو اپنے
جو کیا ہم نے کیا، اُس نے کیا کچھ بھی نہیں
یہ جو باطل کی اکڑ دیکھ رہے ہو یارو!
پہلے بھی بات تھی یہ، آج نیا کچھ بھی نہیں
وہ مرا نام مٹانے پہ تُلا ہے کب سے
کہہ دو گر میں نہ رہا، اُس کی بقا کچھ بھی نہیں
وہ مرا نام پتہ پوچھ رہا ہے مجھ سے
میرے اِس شہر میں ہے جس کا پتہ کچھ بھی نہیں
رونقِ بزمِ جہاں ڈھونڈنے والو سن لو!
یہ جہاں کفر کی جنت کے سوا کچھ بھی نہیں
مسلکِ عشق ترا ہم نہیں پوچھیں گے اے گلؔ
لفظ ہی لفظ ہے، غَمزہ نہ ادا کچھ بھی نہیں
آپ کے تبصرے