الفاظ کے میزان میں

محمد مظہر الاعظمی تعلیم و تربیت

ایک شخص کی زبان سے نکلنے والے الفاظ بظاہر صرف الفاظ ہوتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ اس شخص کی بالکل سچی نمائندگی کرتے ہیں اور فکرو مزاج کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ ان الفاظ کے آئینہ میں پندار کی صلابت اور شگفتگی صاف دکھلائی دیتی ہے بلکہ اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو پس منظر اور بیک گراؤنڈ بھی صاف دکھلائی دے گا اور یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ آدمی کس مزاج اور قماش کا ہے۔
اس زمانہ میں قائدین کے بیانات دیکھیے اور اگر آپ کو معلوم نہ ہو کہ کس پارٹی سے لنک ہے تو صرف بیان اور بیان کے الفاظ آپ کو بلا کسی تردد کے پارٹی کی نشاندہی کرا دیں گے اور پھر آپ اس کی پوری شخصیت کے متعلق اپنی رائے قائم کرلیں گے جو رائے اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہی کی بنیاد پر ہوگی اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں صحیح ہوگی۔
یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صرف قائدین کے بیانات اور ان کے الفاظ ہی ان کی ذات و صفات کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ یہ بات ہمارے سماج کے ہر فرد پر منطبق اور چسپاں ہوتی ہے اور آپ سماج کے ہر فرد کو الفاظ و معانی کے میزان میں تول سکتے ہیں اور ایک مستحکم رائے قائم کرسکتے ہیں بلکہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عام آدمی بھی الفاظ و معانی کے ترازو میں ہی افراد معاشرہ کو تولتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ تول کر ایک رائے تو قائم کرلیتا ہے مگر باد سموم کی زہریلی فضا میں اظہار رائے کی ہمت وجسارت نہیں کر پاتا۔ مگر اسے یہ بھی یقین ہے کہ آج نہیں کل فضا تو صاف ہوگی اور پھر آدمی آزادی اظہار رائے کا بھر پور استعمال کرے گا، اس یقین کو لاک ڈاؤن نے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے فضا کی نظافت و پاکیزگی نے اور مستحکم کردیا کہ جب پوری دنیا کی فضا بیک وقت اپنی فطری پاکیزگی کی طرف لوٹ سکتی ہے تو پھر ایک محدود علاقہ کی فضائی آلودگی کو ختم ہونے میں کتنی دیر لگے گی۔
الفاظ و معانی کے میزان میں شخصیات کو تولنے کا مزاج ہمیشہ رہا ہے، بازار عکاظ کو کون نہیں جانتا کہ شعراء اپنے اپنے قصیدوں کے میزان میں تولے جاتے اور برتری حاصل کرنے والے کے قصیدے کو خانہ کعبہ کی دیوار میں آویزاں ہونے کا شرف حاصل ہوتا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں کس قدر تکلیفیں برداشت کیں، لہولہان ہوئے مگر آپ کی زبان سے ایسے حالات میں بھی جو الفاظ نکلے وہ الفاظ آپ کی عظمت کا پتہ دیتے ہیں کیوں کہ برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس میں ہوتا ہے، آپ زہر بھرے برتن سے ٹپکنے والے زہر کو آب حیات کہہ کر بہت دیر تک بے وقوف نہیں بنا سکتے، خاموشی کا مطلب ہمیشہ اعتراف نہیں ہوتا۔ اس لیے عام بات چیت یا تحریر میں الفاظ کے انتخاب پر توجہ درکار ہے کیوں کہ وہ شخصیت کی صحیح اور سچی نمائندگی کرتے ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000