عموماً یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ حق اور سچ مترادف الفاظ ہیں، جب کہ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ سچ کہتے ہیں؛ کسی بات کو بغیر لگی لپٹی کے جوں کا توں پیش کر دینا، جب کہ حق کہتے ہیں؛ کسی درست بات کو درست وقت اور درست جگہ پر درست انداز میں پیش کرنا۔ گویا حق سچ سے مرتبہ و منزلت میں بہت بلند ہے، ہر حق سچ ہوتا ہے لیکن ہر سچ ضروری نہیں ہے کہ وہ حق بھی ہو، لہذا دونوں کے مابین عموم خصوص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ نے ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے کو افضل جہاد سے تعبیر کیا ہے نہ کہ کلمۂ صدق کہنے کو: ”أفضلُ الجهادِ كلِمةُ حقٍّ عِندَ سُلطانٍ جائِرٍ“ (صحيح الجامع:١١٠٠)
اسی طرح دوسری حدیث میں کلمۂ عدل کا لفظ مستعمل ہے: ”أفضَلُ الجِهادِ كلمةُ عَدْلٍ عند سُلطانٍ جائرٍ – أو أميرٍ جائرٍ.“ (صحيح أبي داود: ٤٣٤٤)
مطلوب و مقصود اس سے یہ ہے کہ درست بات درست وقت اور درست جگہ پر بہترین انداز میں مضبوط و محکم دلائل کے ساتھ ظالم حکمرانوں کے گوش گزار کرنا اور انھیں ان کی دستبُرد کا احساس دلانا افضل جہاد ہے۔ (واضح ہو کہ اسلام میں جہاد کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ ظلم و ستم کی بیخ کنی ہو، پھر اگر کسی کے بہترین انداز اور مضبوط و محکم دلائل سے ایک ظالم حکمران اپنی دستبُرد سے دستبردار ہو جائے تو اسے افضل جہاد کیوں کر نہ کہا جاتا؟)
جب اللہ تعالی نے موسی و ہارون علیہما السلام کو انا ربکم الاعلی کا دعویٰ کرنے والے، بنی اسرائیل کو غلام بنانے والے اور بچوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کرنے والے فرعون کی طرف بھیجا تو ان دونوں مقدس ہستیوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: ”فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى“ (طه: ٤٤) کہ تم دونوں اس سے نرم گفتگو کرنا، ممکن ہے کہ وہ نصیحت قبول کرے اور (اللہ سے) ڈرنے لگے۔
اگر آپ موسی علیہ السلام اور فرعون کے درمیان اس مکالمے کو دیکھنا چاہتے ہیں تو سورۂ شعراء کے دوسرے رکوع سے پڑھتے جائیے، کیا ہی درست وقت اور درست جگہ ہے مکالمے کے لیے، کیا ہی بہترین انداز ہے موسی علیہ السلام کا، کتنے مضبوط و محکم دلائل ہیں ان کے کہ فرعون مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔
اور اگر حق کے بجائے صرف سچ کہنے پر انرجی صرف کی جائے، کون سی بات کہنا ہے، کب کہنا ہے، کس سے کہنا ہے، کس طرح کہنا ہے، ان تمام چیزوں کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا جائے تو لامحالہ سچ اپنا مقام کھو دے گا اور مشتبہ کے درجے میں داخل ہوجائے گا۔ مثلاً کوئی شخص غصہ کر رہا ہے اور آپ اس سے کہیں کہ آپ غصہ بہت کرتے ہیں تو اس کا آگ بگولا ہونا ایک فطری امر ہے اس لیے کہ بات تو آپ نے سچ کہی لیکن وقت کا انتخاب آپ نے غلط کیا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص لوگوں کے جمگھٹے میں ہو اور آپ کو اس کی کوئی برائی معلوم ہو، آپ لگے فوراً اسے نصیحت کرنے اور اس کی برائی سے روکنے تو گو کہ بات آپ نے سچ کہی لیکن موقعہ و محل اس کا متحمل نہیں تھا۔ اسی طرح آپ کسی کو نصیحت کر رہے ہیں لیکن آپ کی آواز کرخت ہے اور مخاطب کو آپ کی بات نصیحت کم اور ڈانٹ پھٹکار زیادہ لگ رہی ہے تو گو کہ آپ کی بات درست تھی، آپ کی نیت بھی درست تھی لیکن آپ کا انداز، آپ کا طرزِ بیان درست نہیں تھا۔ اسی طرح آپ اپنے بچوں کو برائی سے روک رہے ہیں، اپنی عورتوں کو پردے کا حکم دے رہے ہیں، مہنگے مہنگے پرفیوم کا استعمال کرکے تبرج کا اظہار کرتے ہوئے باہر جانے سے منع کر رہے ہیں، اپنے رشتہ داروں کو منکرات سے منع کر رہے ہیں لیکن آپ قرآن سے کوئی آیت نقل کررہے ہیں اور نہ احادیث سے، تو جان لیجیے کہ آپ کی باتیں رائیگاں جائیں گی کیونکہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں نئی نسل اور نئی جنریشن محض آپ کی باتوں سے مقہور و مرعوب نہیں ہوسکتی، جب تک کہ آپ مضبوط و محکم دلیلوں سے ثابت نہ کردیں کہ آپ جن چیزوں کا انھیں حکم دے رہے ہیں وہ فطرت کے عین مطابق ہے۔
گویا سچ کو آپ حق کے مرتبے تک پہنچاسکتے ہیں اپنے انداز سے، اپنے طرزِ بیان سے، اپنے مضبوط و محکم دلائل سے، درست وقت اور درست جگہ کا انتخاب کرکے۔ اور اسی سچ کو آپ لوگوں کے درمیان مشتبہ بھی بناسکتے ہیں اس کو بے موقع و محل کہہ کر، طرزِ بیان، انداز اور دلائل میں مضبوطی دکھلانے کی بجائے اپنی آواز میں مضبوطی اور کرخت پیدا کرکے، اس لیے کہ ”إنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ“ (لقمان؛ ۱۹)
ما شاء الله. بہت خوب. سچ اور حق پر بہت ہی بليغ گفتگو آپ نے فرمائی. کچھ أيسا ہی معاملہ اچھی بات اور حق بات کے ساتھ بھی ہے. ہر اچّھی بات حق نہیں ہو سکتی کیونکہ اچھی بات کا معيار انسانی عقل ہے جو مختلف مقامات، مختلف تہذیبوں مختلف ملکوں ، مختلف ثقافتوں، مختلف تعليمى بیک گراؤنڈ میں مختلف ہو سکتی ہے. جب کہ حق كا ايك ہی معيار ہے اور وہ ہے قرآن و سنت سے مطابقت. بهارت وپاکستان اور تمام ملكوں میں رائج تمام بدعتوں کو اچھی باتوں ہی کے ذریعہ پھیلايا گیا ہے. بدعات وخرافات کا… Read more »