نبی ﷺ کے زمانے میں امیہ بن ابی الصلت نامی ایک شاعر تھا، جو تاجر تھا، ملکوں کی سیر کرتا تھا، صحیح دین کی جستجو میں سرگرداں رہتا تھا، اہل کتاب سے اس کے روابط تھے، ان کے ذریعے اس نے سن رکھا تھا کہ ایک نبی آنے والے ہیں، چنانچہ وہ نبی بننے کی خواہش کرنے لگا، اپنی سرشت کو اس نے بدلنا شروع کر دیا، شراب نوشی چھوڑ دی، ٹاٹ پہننے لگا، زاہدوں کی سی زندگی گزارنے لگا اور نبی بننے کی خواہش و امید لیے شب و روز گزارنے لگا، ملّتِ ابراہیمی کے متعلق اس کا نظریہ تھا کہ
كل دين يوم القيامة عند الله
إلا دين الحنيفة زور
قیامت کے دن اللہ کے نزدیک ملّتِ ابراہیمی کے سوا تمام ادیان باطل ہوں گے۔
لیکن جب اس کی خواہش کے بر عکس نبی ﷺ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا اور اس کی امید بر نہیں آئی تو آپ سے حسد کرنے لگا، آپ پر ایمان نہیں لایا اور کہا کہ ”مجھے تو امید تھی کہ نبوت مجھے ملے گی“۔ جس دینِ حق کی جستجو میں سرگرداں تھا اسی دین کی مخالفت کرنے میں تیز گام ہو گیا، جس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ وَﻟَﻮْ ﺷِﺌْﻨَﺎ ﻟَﺮَﻓَﻌْﻨَﺎﻩُ ﺑِﻬَﺎ ﻭَﻟَﻜِﻨَّﻪُ ﺃَﺧْﻠَﺪَ ﺇِﻟَﻰ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ﻭَﺍﺗَّﺒَﻊَ ﻫَﻮَﺍﻩُ ﻓَﻤَﺜَﻠُﻪُ ﻛَﻤَﺜَﻞِ ﺍﻟْﻜَﻠْﺐِ ﺇِﻥْ ﺗَﺤْﻤِﻞْ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻳَﻠْﻬَﺚْ ﺃَﻭْ ﺗَﺘْﺮُﻛْﻪُ ﻳَﻠْﻬَﺚْ ﺫَﻟِﻚَ ﻣَﺜَﻞُ ﺍﻟْﻘَﻮْﻡِ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻛَﺬَّﺑُﻮﺍ ﺑِﺂﻳَﺎﺗِﻨَﺎ فَاقْصُصْ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرَوْنَ(الأعراف:۱۷۵۔۱۷۶)
اے پیغمبر! لوگوں کو اس شخص کی سرگزشت سنا دو جسے ہم نے حق و باطل میں فرق و امتیاز پیدا کرنے والی اپنی نشانیاں عطا فرمائی تھیں لیکن اس نے ان نشانیوں کے خلعت کو اتار پھینکا نتیجہ یہ نکلا کہ شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں سے ہو گیا، اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں کے ذریعے اسے بلندی عطا فرماتے لیکن وہ پستی کی طرف جھکا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی، اس کی مثال اس کتّے کی سی ہوئی کہ اگر آپ اس پر بار ڈالیں جب بھی وہ ہانپے گا، چھوڑ دیں تب بھی ہانپے گا، یہ مثال ان لوگوں کی ہے جو ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں، آپ قرآن کے قصے لوگوں سے بیان کریے، شاید کہ لوگ ان میں غور و فکر کریں اور اعمال کے نتائج سے عبرت حاصل کریں۔
ان آیاتِ کریمہ میں غور کرنے سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ علم ہوتا ہے وہ تمام تر اللہ کا عطا کردہ ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ اس کا علم اللہ کی تمام حکمتوں کا احاطہ کر لے۔ اگر کوئی انسان اپنے علم کے مطابق عمل نہ کرے، بل کہ محض اپنے علم کی وجہ سے شہرت و ناموری کا خواست گار و طلب گار ہو، تو پھر ادراکِ حق کی جو توفیق اسے اللہ کی جانب سے ملی ہوتی ہے وہ یک قلم ضائع ہوجاتی ہے، وہ خود کو کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ تصوّر کرے،اس کے پیرووں کا حلقہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، وہ اس کے نام کے آگے اور پیچھے ”شیخ الاسلام ،علامہ، سید، حسینی“جیسے کتنے ہی سابقے اور لاحقے کیوں نہ لگائیں، مگر درحقیقت ایسا شخص نہ تو شیخ الاسلام ہو سکتا ہے، نہ سید القوم بن سکتا ہے، نہ حسین کے کردار کا حامل ہو سکتا ہے، بل کہ ایسا شخص ”علامہ“ تو کیا ”عالم“ کہلانے کا بھی مستحق نہیں ہے۔
ولقّبوا رجلا لو عاش أولُهم
ما كان يرضي به للقصر بوّابا
ایسے شخص کے پیچھے ایک شیطان لگ جاتا ہے، جو اسے اس وقت تک نہیں چھوڑتا، تا آں کہ وہ ناکام و نامراد نہ ہو جائے۔ اور یہ تمام تر اس کی کوتاہ بینی و کوتاہ دستی کا ثمرہ و نتیجہ ہوتا ہے، کیوں کہ اس نے دنیاوی جاہ و حشمت اور ناموری و شہرت کی خواہش کی اوراس کو پانے کے لیے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی شروع کر دی، ثابت شدہ حقائق سے انکار کرنے لگا، نفوس قدسیہ پر زبان درازی کرنی شروع کردی، درپردہ ”رضي الله عنهم ورضوا عنه“ کا انکار کر بیٹھا۔ اللہ نے کتے کی جو مثال دی ہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ آپ ایسے مذموم صفت شخص سے تعرّض کریں یا نہ کریں، یہ ہفوات و لغویات ضرور الاپے گا اور اپنی مفسدانہ خصلت کا مظاہرہ ضرور کرے گا، کیوں کہ ثابت شدہ حقائق کا انکار اس کی سرشت کا خاصہ اور سچائی کی مخالفت اس کی فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔ ”تقیہ“کے مکھوٹے میں یہ اگر چہ اپنی رافضیت چھپانے کی کوشش کرے لیکن اس کی مفسدانہ فطرت اسے ضرور آشکارا کر دیتی ہے۔
ومهما تكن عند امرئ من خليقة
وإن خالها تخفى على الناس تعلم
صحابہ کرام میں سے کسی ایک کے خلاف بھی زبان درازی کرنا، اس کے خلاف دلوں میں بغض و عناد اور کینہ کپٹ پالنا رافضیت کی علامت ہے۔ اور جس کے دل میں رافضیت کی بیج پنپ رہی ہو وہاں سے سچائی کی کونپلیں نکلنی محال ہے۔
وقد ينبت المرعى على دمن الثرى
وتبقى حزازات النفوس كما هيا
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ