علم ایک گوہر نایاب ہے جس کی تحصیل سے ایک انسان کامیابی و کامرانی کے منازل طے کرتا ہے، جس کو قرآن حکیم نے بہ ایں الفاظ بیان کیا ہے:
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ(المجادلہ:۱۱)اللہ تعالی اہل ایمان اور اہل علم کے درجات کو بلند کرتا ہے۔
تحصیل علم کے مختلف ذرائع و اسباب ہیں، جیسے؛ سماعت، بصارت اور قرات، اسی لفظ قرات کے ذریعہ اللہ رب العزت نے اکتساب علم کو فرض قرار دیا ہے، اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
إقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ -خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ- اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ- الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ- عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ(العلق:۱-۵)
قرات کے مختلف انواع ہیں، انھی انواع میں سے ایک نوع مطالعہ ہے، جسے ’کتب بینی‘ بھی کہتے ہیں۔
مطالعہ تحصیل علم کا ایک اہم ذریعہ ہے، یہ ایک انسان کے عقل و شعور کو جلا بخشتا ہے، اسے زیرک بناتا ہے، اس کی استعداد اور صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے، اسے سابقہ امتوں کے احوال سے آگاہی فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ان کی اچھی عادتوں کو اپنائے اور بری عادتوں سے اجتناب کرے اور عبرت حاصل کرے۔
وسیع و دقیق مطالعہ کے بغیر انسان کا ذہن ادراک کی اس سطح تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا جہاں سے وہ مفید و مضر، کھورے و کھوٹے اور اعلی و ادنی کے مابین فرق کو سمجھ سکے۔
مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں طالب علم کو علم و دانش کی دہلیز تک لا کر کھڑا تو کر دیتی ہیں لیکن تحصیلِ علم کا اصل سفر اس کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔
ایک استاد آپ کو کامیابی و کامرانی کی شاہراہ کی طرف رہنمائی تو کر سکتا ہے لیکن اس شاہراہ پر چلنے کی ذمہ داری آپ کی ہے، وہ آپ کو صلاحیتوں کے استعمال کے طریقے تو بتلا سکتا ہے لیکن ان طریقوں کو اپنانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی طالب علم کامیاب بننے کی آرزو رکھتا ہو، لیکن صرف کلاس کے درس کو کافی سمجھتا ہو، اسی پر انحصار و اکتفا کرتا ہو اور مطالعہ و کتب بینی کی چنداں ضرورت محسوس نہ کرتا ہو تو اس کی مثال ’كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ‘ کی طرح ہے، کامیاب بننے کی اس کی آرزو ’كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا‘ کی سی ہے۔
لہذا کتابوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں اس لیے کہ یہ کتابیں آپ کے دکھ درد کی بہترین ساتھی ہیں، یہ آپ کو علوم و فنون سکھاتی ہیں، حکمت و دانائی فراہم کرتی ہیں، کامیابی و کامرانی سے ہم کنار کرتی ہیں، آپ کے اذہان و قلوب کو منور کرتی ہیں، آپ کی فطرت و سرشت کو سنوارتی ہیں، آپ کو آداب اور سلیقے سکھاتی ہیں، آپ کو شرف و فضیلت کے زیور سے آراستہ کرتی ہیں، یہ آپ کی کسمپرسی و درماندگی میں غم خوار و غم گسار ہیں؎
وَخَيْرُ جَلِيْسِ الْمَرْءِ كُتْبٌ تُفِيْدُهُ
عُلُومًا وَآدَابًا، كَعَقْلٍ مُؤَيَّدِ
متنبی نے کہا تھا:
أعز مَكَانٍ في الدُّنَى سَرْجُ سَابِحٍ
وَخَيْرُ جَلِيْسٍ في الزَّمانِ كِتابُ
عبد اللہ بن المعتز نے کہا تھا:
جَعَلْتُ كُتُبِي أَنِيسِي
مِن دُونِ كُلِّ أَنِيسِ
لأَنَّنِي لَسْتُ أَرْضَى
إلاَّ بِكُلِّ نَفِيسِ
احمد شوقی نے کہا تھا:
أَنا مَن بَدَّلَ بِالكُتبِ الصِحابا
لَم أَجِد لي وافِيًا إِلا الكِتابا
صاحِبٌ إِنْ عِبتَهُ أَو لَم تَعِبْ
لَيسَ بِالواجِدِ لِلصاحِبِ عابا
كُلَّما أَخلَقتُهُ جَدَّدَني
وَكَساني مِن حِلى الفَضلِ ثِيابا
اسی طرح ایک شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:
نِعْمَ الأَنِيسُ إذَا خَلَوْتَ كِتَابُ
تَلْهُو بِهِ إنْ خَانَكَ الأَصْحَاب
لاَ مُفْشِيًا سِرًّا إذَا اسْتَوْدَعْتَهُ
وَتَنَالُ مِنْهُ حِكْمَةً وَصَوَاب
طالبان علوم و نبوت! آپ ذرا اپنے اسلاف کو دیکھیں، وہ کتب بینی میں کس قدر غرق رہا کرتے تھے۔
امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے عرض کیا گیا:
يا أبا عبد الرحمن، لو خرجت فجلست مع أصحابك؟
تو انھوں نے فرمایا:
إني إذا كنت في المنزل جالست أصحاب محمد ﷺ (يعني النظر في الكتب)
امام زہری رحمہ اللہ کتب بینی میں اتنے زیادہ محو رہتے تھے کہ ان کی بیوی نے جھلا کر یہاں تک کہہ دیا کہ:
والله إن هذه الكتب أشدُّ عليَّ من ثلاث ضرائر( اللہ کی قسم! یہ کتابیں میرے لیے تین سوتنوں سے زیادہ باعث گراں ہیں)
حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے بارے میں ملتا ہے کہ :
يمشي وفي يده جزء يطالعه( وہ چلتے تھے اور ان کے ہاتھ میں کتاب کا ایک نسخہ ہوتا، جس کا وہ مطالعہ کرتے تھے)
مولانا ابو الکلام آزادؔ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’غبار خاطر‘ میں اپنے شوق مطالعہ کو بہ ایں الفاظ بیان فرماتے ہیں:
’’میرے تخیل میں عیش زندگی کا سب سے بہترین تصور کیا ہو سکتا ہے؟ جاڑے کا موسم ہو اور جاڑا بھی قریب قریب درجۂ انجماد کا، رات کا وقت ہو، آتش دان میں اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں، میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں۔‘‘
’آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی‘میں ان کی یہ بات مرقوم ہے:
’’چنانچہ میں اپنے بستر کے نیچے کتابیں رکھتا اور موم بتی جلا کے مطالعہ کرنے لگتا، اگر دن کو مطالعہ کرتا رہا، تو درسی کتابوں کا شب کو مطالعہ کرتا، اکثر ایک ایک دو دو بجے تک مشغولیت رہتی۔‘‘
’’حیات جاوید ایک ہزار صفحے میں ختم ہوتی ہے، میں نے دو شب میں ختم کر ڈالی تھی۔‘‘
علامہ البانی رحمہ اللہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ڈرائیونگ کرتے وقت بھی اپنے پاس کتاب رکھتے تھے اور جوں ہی کہیں موقع ملتا، مطالعہ میں محو ہو جاتے؎
فَتَشَبّهوا إِن لَم تَكُونوا مِثلَهُم
إِنَّ التَّشَبّه بِالكِرامِ فَلاحُ
آج ہمارے پاس صحت و تندرستی ہے، وقت و فرصت ہے، نسخے کی صورت میں نہ سہی لیکن پی ڈی ایف کی شکل میں کتابوں تک ہمیں مکمل رسائی حاصل ہے، بہ ایں ہمہ ہم مطالعہ سے کوسوں دور ہیں، ہم اپنے قیمتی اوقات سوشل میڈیا پر ضائع کر رہے ہیں، لایعنی کاموں میں اپنی انرجی صرف کر رہے ہیں اور ریجھے بیٹھے ہیں:
نِعْمَتانِ مَغْبُونٌ فِيهِما كَثِيرٌ مِنَ النّاسِ: الصِّحَّةُ والفَراغُ (صحيح البخاری:۶۴۱۲) دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے تئیں لوگوں کی ایک کثیر تعداد دھوکے کا شکار ہے، صحت و تندرستی اور فراغ بالی۔
درسی و غیر درسی کتابیں تو کجا آج ہم نے کتاب اللہ کے ساتھ کیسا رشتہ استوار کر رکھا ہے، ہم میں سے اکثر تو اسے پڑھتے ہی نہیں، اور اگر پڑھتے ہیں تو سمجھتے نہیں، اور اگر سمجھتے ہیں تو اس پر عمل پیرا نہیں؎
لمثل هذا يذوب القلب من كمد
إن كان فى القلب إسلام وإيمان
ماشاء اللہ
بارك الله فى علمك
مطالعہ کی اہمیت اس پر ترغیب دلانے کے لیے یہ تحریر آئینہ شفاف ہے