خدا کا شکر ہے گرد وغبار سے نکلا
زمین عشق! ترے کاروبار سے نکلا
جو اب اجالا ہوا ہے تو ہوش آیا ہے
میں بادلوں کے شگفتہ خمار سے نکلا
مگر یہ فکر مجھے اب بھی کھائے جاتی ہے
صدائے دل کا جنازہ ستار سے نکلا
کہ جیسے رُمحِ رُدَینی اذیتوں کی فضا
جگر کے پار مرے دل کے پار سے نکلا
شفق کی سرخ رداؤں میں جھانک کر سوچوں
یہ رنگ روپ مرے ہی شعار سے نکلا
ورق ورق پہ وہی خار وخس کا سناٹا
گلاب کا وہ تصور، شمار سے نکلا
یہ کیا ہوا کہ محبت کا ساتھ چھوٹ گیا
کھلا تھا گل نہ ابھی کہ بہار سے نکلا
وہ جس کے ساتھ محبت کی مجلسیں تھیں بہت
وہ ہم نفس بھی حد اعتبار سے نکلا
بلند وبانگ سے دعووں پہ آرہی ہے ہنسی
ترا قرار دل بے قرار سے نکلا
مجھے یہ غم ہے جو حرف چمن سجایا تھا
وہ تیرے نفس کہن کے حصار سے نکلا
ترے سلوک سے یہ فائدہ بھی پہنچا ہے
میں اب کے رحم و محبت کے بار سے نکلا
وسیم اب وہی نقش بہار کہلایا
وہ خار کل جو گلوں کی قطار سے نکلا
آپ کے تبصرے