ممبئی کی بارش

کاشف شکیل شعروسخن


جان من! سنو جاناں!
ممبئی میں بارش ہے
آسمان کے آنسو
دھو رہے ہیں دنیا کے
ان گلابی گالوں کو
جن پہ گرمیوں کی شام
دھول کا بسیرا تھا
زلف تھی پراگندہ اور چہرہ پژمردہ
اس برستی بارش نے دھول کی سبھی پرتیں
بھیج دیں سمندر کو
اپنے اشک برسا کر
بھوکی پیاسی دھرتی کو سیر کردیا شاید
جان‌جاں! سنو جاناں!
ممبئی کی بارش میں
ہر گلی محلے میں
پارکوں میں، ساحل پر
اور جوہو چوپاٹی
عشق ہی برستا ہے
لونا والا، کھنڈالا
راز دار بنتے ہیں
ہر نئی محبت کے
اور پریم کا ساگر
یعنی عشق کا زمزم
پھوٹتا یہیں سے ہے۔
کیا کہا! نہیں سمجھی
میری بات کا مطلب!؟
اتنا زیادہ بھولا پن
مت دکھاؤ رشک حسن
میرا بس یہ کہنا ہے
اپنے گاؤں سے پہلی
ریل کا ٹکٹ لے کر
ممبئی چلی آؤ
اس برستی بارش میں
ایسا وصل ہوجائے
گرم گرم سانسوں سے
پانی‌ سارا جل جائے
اس برستی بارش کو
آب زر سمجھ کر کے
الفت و محبت کی
داستان لکھتے ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000