مصرعہ طرح: بھول کو بزرگوں کی بھول ہی کہا جائے

کشفی بریلوی شعروسخن

داستان لکھنے کو جب کبھی کہا جائے

ظلم کو بہر صورت ظلم ہی لکھا جائے


تربیت یہ کہتی ہے میری اے جہاں والو!

“بھول کو بزرگوں کی بھول ہی کہا جائے”


بعد میں تاسف سے فائدہ نہیں کوئی

کام جو بھی کرنا ہو سوچ کر کیا جائے


وقت کی نگاہوں میں اعتبار قائم ہو

زندگی کی راہوں میں اس طرح چلا جائے


تیرگی کی راہوں میں روشنی بہت کم ہے

کیوں نہ بڑھ کے اے لوگو! دل جلا دیا جائے


اہل بزم تابش کے فیض سے غزل کہہ دی

شکر کیسے اے کشفی اب ادا کیا جائے

آپ کے تبصرے

3000