ستم گر! قتل کر دے، مجھ کو تڑپانے سے کیا ہوگا؟

عبدالقادر منیر کٹیہاری شعروسخن

ستم گر! قتل کر دے، مجھ کو تڑپانے سے کیا ہوگا؟

یوں تیرا فائدہ تا عمر رلوانے سے کیا ہوگا؟


ہمیں تو تشنگی ہے قلزم آشامی کی اے ساقی!

ہمارا، تیرے قطرہ بخش پیمانے سے کیا ہوگا!


بہار آئے گی جب تو پھول کھل جائیں گے خود، بلبل!

خزاں میں تیرے رونے اور چلانے سے کیا ہوگا!


ہے کام اندیشہ سود وزیاں تو عقل والوں کا

یہ جھنجھٹ پالنا مجھ جیسے دیوانے سے کیا ہوگا!


جو فرماتے ہیں اے واعظ! کبھی کرکے بھی دکھلاتے!

عمل سے عاری رہ کر وعظ فرمانے سے کیا ہوگا!


گہن لگ جائے گا سورج کے چہرے کو، ٹھہر، مت جا

پتہ ہے؟ مہ جبیں! چھت پر ترے جانے سے کیا ہوگا؟


میں جب تک تھا تو سنورے تھے، نہیں ہوں میں تو برہم ہیں
نہ کہنا میرے گیسو کا ترے شانے سے کیا ہوگا؟


جگر جب خون ہوتا ہے تو کوئی شعر بنتا ہے

عروض وبحر کے دفتر بھی رٹ جانے سے کیا ہوگا


جو دانہ پروری جانو تو اک دانہ ہی خرمن ہو

منیر بے ہنر کہتا ہے اک دانے سے کیا ہوگا؟

آپ کے تبصرے

3000