جماعت بندى كى شرعى حيثيت

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی ادیان و مسالک

دعوت وتبلیغ اور دیگر دینی ضروریات کی تکمیل کے لیے جماعت بندی عصر حاضر کا ایک نیا مسئلہ ہے جو تقریبا انیسویں اور بیسویں صدی میں ظہور پذیر ہوا ہے۔ ماضی میں ایسی جماعت بندی کا تصور رائج اور عام نہیں تھا۔ بنا بریں عصر حاضر کے ایک نئے شرعی مسئلہ کی حیثیت سے جب ہم اس کے جواز یا عدم جواز کی بات کرتے ہیں تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ جماعت بندی کی شرعی حیثیت ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے کئی پہلو ہیں۔ بعض پہلوؤں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ شرعا اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ ایک مستحسن عمل ہے جبکہ دیگر چند پہلو ایسے بھی ہیں جن کو دیکھا جائے تو جماعت بندی نہ صرف یہ کہ نقصان دہ نظر آتی ہے بلکہ شرعا اسے معیوب سمجھنا اور قابل احتراز عمل تصور کرنا عین شرعی تقاضوں کے مطابق نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے متعدد پہلو رکھنے والے ایسے نئے مسائل میں مجتہد اہل علم کے درمیان اختلاف رائے کا واقع ہونا ایک فطری امر ہے اور عملا مذکورہ بالا مسئلہ میں ایسا ہوا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر میں جبکہ مسلمانوں کے درمیان جماعتوں کی کثرت بھی ہے ہمیں ان جماعتوں کے جواز یا عدم جواز کے سلسلے میں متنوع فتاوی ملتے ہیں جن میں بسااوقات بظاہر ٹکراؤ بھی نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایک عالم سے جب فتوی پوچھا جاتا ہے تو عالم سائل کے علاقہ اور اس کی شخصیت کو نیز اس علاقہ میں پائی جانے والی جماعتوں کے عملی کردار کو سامنے رکھ کر شرعی اصولوں کے مطابق فتوی دیتا ہے۔ فتوی کا باب بہت وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ اس باب میں جس قسم کی شرعی مصلحتوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ان کو جانے اور سمجھے بنا اس مسئلہ میں نہ صحیح شرعی موقف اختیار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس باب میں اہل علم کے فتاوی کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک صحیح اور انتہائی معقول فتوی بھی اس وقت ایک گپ لگتا ہے جب اس فتوی کو مفتی کی منشا اور جن شرعی پہلووں اور مصلحتوں کو اس نے ملحوظ رکھا ہے ان سے جدا کرکے دیکھا جائے۔
زیر نظر مختصر تحریر میں اسی حساس اور وقت کے ایک نازک مسئلہ کو ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ اس سلسلہ میں کوئی واضح موقف طے ہو اور علی وجہ البصیرۃ دعوت إلی اللہ کا کام کرنے کی جانب ایک مثبت قدم اور بڑھے۔
وحدت اسلامی اور اس کے بعض اہم تقاضے
جماعت بندی کے سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ یاد رکھنی چاہیے کہ دین اسلام میں مسلمانوں کی وحدت اور ان کے باہمی اتحاد کو ایک بنیادی اصول کی حیثیت حاصل ہے۔ اخوت اسلامی اور آپسی بھائی چارہ شریعت اسلامیہ کا طرہ امتیاز ہے۔ مسلمانوں کی وحدت اور ان کا آپسی میل جول شریعت اسلامیہ کا وہ انتہائی اہم رکن رکین ہے جس پر متعدد احکام پر عمل پیرا ہونا موقوف ہوتا ہے۔ احکام اسلام کے ذخیرہ میں ایسی بے شمار تعلیمات موجود ہیں کہ اسلامی وحدت کے بغیر ان احکام پر شرعا مطلوبہ شکل میں عمل پیرا ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے قرآن کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دینے کے ساتھ ہی ساتھ اسلامی اخوت ووحدت کی اس عظیم نعمت کی یاد دہانی بھی فرمائی اور جاہلیت میں افتراق وانتشار کے ساتھ جینے والے معاشرہ کو اسلام کے ذریعے جس طرح باہم شیر وشکر کردیا اس کی حفاظت کی ترغیب دلائی۔ ارشاد ہوا: {واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا وذکروا نعمت اللہ علیکم إذ کنتم أعداء فألف بین قلوبکم فأصبحتم بنعمتہ إخوانا وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فأنقذکم منھا کذلک یبین اللہ لکم آیٰتہ لعلکم تھتدون}
ترجمہ: اللہ تعالی کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی۔ پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمھیں بچالیا۔ اللہ تعالی اسی طرح تمھارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ (آل عمران ض:۱۰۳)
وحدت اسلامی کی ان بنیادوں کو مضبوط کر نے کے ساتھ ساتھ وہ تمام باتیں جو امت کے اندر افتراق وانتشار کا سبب بن سکتی تھیں اور گروہ بندی کو جنم دے سکتی تھیں ان کا خاتمہ کیا اور ان اسباب پر روک لگائی جو تفرقہ کی ہوا چلا سکتی تھیں اور مسلمانوں کو باہم جماعتوں اور ٹکڑیوں میں بانٹ سکتی تھیں۔ رنگ ونسل اور حسب ونسب سے لے کر علاقائی وقبائلی عصبیتوں تک سبھی کے بت پاش پاش کردیے اور مسلمانوں کو یہ پیغام دیا: (وکونوا عباداللہ إخوانا) تم مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ (متفق علیہ من حدیث أبی ہریرۃ)
سماج میں اختلاف اگر انسانی مزاج کے تفاوت اور طبیعتوں کی افتاد کی وجہ سے ہو اور بات بڑھ جائے تب بھی اس بھائی چارہ کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے بڑی ہی مفصل تعلیمات اور منظم ہدایات عطا فرمائیں اور نہ صرف یہ کہ تفرقہ کی تمام بنیادوں کا جڑ سے خاتمہ کیا بلکہ آئندہ یہ انسانی معاشرہ پھر اسی انتشار کی طرف لوٹ نہ جائے اس کے سد باب کے لیے بڑی مفصل رہنمائی دی ہے جس کا ایک ہلکا سا نمونہ سورہ حجرات کی آیتوں میں ہمیں ملتا ہے۔ ارشاد ہوا: {وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فأصلحوا بینہما فإن بغت إحداھما علی الأخری فقاتلوا التي تبغي حتی تفيء إلی أمر اللہ فإن فاءت فأصلحوا بینہما بالعدل وأقسطوا إن اللہ یحب المقسطین إنما المؤمنون إخوۃ فأصلحوا بین أخویکم واتقوا اللہ لعلکم ترحمون}
ترجمہ: اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرادیا کرو پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم اس گروہ سے جو زیادتی کرے لڑو، یہاں تک کہ وہ اللہ کی طرف لوٹ آئے۔ اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرادو اور عدل کرو بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (الحجرات:۹)
بنا بریں اسلام کی نظر میں بنیادی طور پر تمام مسلمان ایک جماعت ہیں جن کا رب اور معبود ایک ہے، رسول ایک ہے، قبلہ ایک ہے، کتاب ہدایت ایک ہے لہذا ان کے درمیان کوئی چیز اختلاف پیدا نہ ہونے دے۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے: (مثل المؤمنین في توادھم وتراحمھم وتعاطفھم مثل الجسد الواحد إذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمی)
ترجمہ: مومنوں کے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے، ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ترس کھانے میں ان کی مثال ایک جسم کی ہے کہ جس کے ایک عضو کو شکایت لاحق ہو تو سارا جسم بخار میں تپتا رات گزارتا ہے۔ (متفق علیہ)
اور اس وحدت واخوت میں اگر کوئی شرعی نام یا حوالہ بھی دراڑ ڈالنے کا سبب بن جائے تو شریعت اسلامیہ کی نظر میں وہ شرعی نہیں كم از كم اس سياق ميں ايک جاہلی حوالہ بن جائے گا۔ غزوہ بنی المصطلق کے موقعہ پر ایک انصاری ومہاجر کے درمیان ان بن ہوگئی، انصاری نے انصار کو مدد کے لیے پکارا اور مہاجر نے اپنے مہاجر بھائیوں کو آواز دے لی۔ قریب تھا کہ دونوں فریق باہم لڑ پڑتے کہ نبیﷺ کو خبر ہوئی۔ آپ اپنے خیمے سے اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور آکر دونوں کو سنبھالا اور نصیحت فرمائی (ما بال دعوی الجاھلیۃ؟)ترجمہ: کیا بات ہے؟ تم جاہلیت کے نعرے لگانے لگے؟(دعوھا فإنھا منتنہ) ان نعروں کو ترک کردو کہ یہ بڑے بدبودار ہیں۔ (متفق علیہ من حدیث جابر)
مذکورہ بالا باتوں کا سیدھا اور واضح مفہوم یہ ہے کہ مسلمان خود ایک جماعت ہیں، ان میں مزید کسی جماعت بندی کا تصور اس بنیادی تعلیم کے منافی ہے۔ نصوص شریعت میں جماعت کا جو تذکرہ وارد ہے اہل علم نے اس کے متعین طور پر دو ہی مفہوم بیان کیے ہیں:
(۱) اہل حق جو اہل باطل یعنی اہل بدعت کے بالمقابل کہا جاتا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسی مفہوم میں کہا تھا (الجماعۃ ما وافق الحق وإن کنت وحدک) (شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ للالکائی) اسی مفہوم میں پیارے نبیﷺ نے تہتر فرقوں والی روایت میں نجات پانے والے ایک فرقہ کو الجماعۃ کا نام دیا۔ (أبوداود عن معاویۃ بإسناد حسن)
(۲) ایک امیر یا حکمران پر متفق مسلمانوں کی اجتماعیت۔ اسی مفہوم میں پیارے نبیﷺ نے فرمایا (من فارق الجماعۃ شبرافمات إلا مات میتۃ جاھلیۃ) (متفق علیہ عن ابن عباس)
مذکورہ بالا دونوں مفاہیم میں سے پہلے معنی میں جماعت ہمیشہ قائم رہے گی، زمان ومکان کے تغیرات اس کا خاتمہ نہیں کرسکتے۔ (لاتزال طائفۃ من أمتي علی الحق ظاھرین لایضرھم من خذلہم ولا من خالفہم حتی یأتي أمر اللہ وھم کذلک) (متفق علیہ من حدیث ثوبان وغیرہ)
لہذا اس جماعت سے وابستگی عین سعادت ہے اور اس سے علیحدگی سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔
جماعت اپنے دوسرے مفہوم میں کبھی موجود ہو بھی سکتی ہے اور کبھی نہیں بھی جیسا کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں ہے (۔۔۔۔قال: تلزم جماعۃ المسلمین وإمامہم فقلت: فإن لم تکن لہم جماعۃ ولا إمام؟ قال: فاعتزل تلک الفرق کلہا ولو أن تعض علی أصل شجرۃ حتی یدرکک الموت وأنت علی ذلک) (مسلم)
مسلمانوں کی ایسی اجتماعیت ہو جن کا امام یا حاکم ایک ہو تو وہی جماعت ہے اور اس سے الگ ہونا شرعا ممنوع ہے۔ اور اگر ایسی اجتماعیت نہ ہو تو پھر کوئی گروہ یا تنظیم وہ حیثیت نہیں حاصل کرسکتی جو اس اجتماعیت کو حاصل ہے اور نہ ایسی کسی جماعت کا امیر یا ذمہ دار حاکم شرعی کا قائم مقام متصور ہوگا اور نہ ہی جماعت واجتماعیت سے متعلق احادیث و احکام ایسے کسی تنظیمی ڈھانچے پرمنطبق کیے جائیں گے۔
اسلامی اخوت ووحدت کا یہ تصور ہی در اصل جماعت ہے اور جماعت کی روح ہے۔ اس جماعت کے اندر مزید کسی جماعت بندی کی گنجائش پیدا کرنا دراصل اجتماعیت کے نام پر اجتماعیت کے ذریعے اجتماعیت کا نقصان کرنا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسلمانوں کی اس اخوت وبھائی چارہ کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے ترتیب وتنظیم کے باب سے یا تقسیم کار کی نیت سے یا باہمی تعاون کے مقصد سے کیا کسی بھی قسم کی جماعت بندی کی گنجائش نہیں نکلتی؟ کیا جماعت بندی مطلقا حرام ہے؟ اس جواب کی تفصیل درج ذیل ہے جسے ہم دو حصوں میں الگ الگ بیان کرنے جارہے ہیں تاکہ صورت حال بھی واضح ہو اور حکم شرعی بھی۔
اسلامی حکومت میں جماعت بندی کی شرعی حیثیت:
مسلمان ایک جماعت ہیں جن کو قلبا وقالبا ایک جماعت ہی رہنا چاہیے اور ایک ہی حکمران کے ماتحت رہنا چاہیے۔ کسی بھی مسلم ملک میں یہ حکمران کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بذات خود یا اپنے مامور کردہ کارندوں کے ذریعہ جہاد، قضاء، دعوت وتبلیغ، انتظام وانصرام اور دیگر امور مملکت چلائے، خیر کو بڑھانے اور شر کے خاتمہ یا اس کو گھٹانے کے سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرے کیونکہ اس کا منصب ہی دراصل (حراسۃ الدین وسیاسۃ الدنیا بہ)
یعنی دین کی حفاظت کرنا اور اس دین کے مطابق دنیا کے نظام کو چلاناہے۔ وہ حکمران اگر چاہے تو کسی فرد یا جماعت سے اس کار جہاں بانی میں مدد لے یا انھیں کسی بھی اجتماعی کاز کو انجام دینے کی اجازت دے تو پھر ایسے فرد یا جماعت کا تعاون کے باب سے وجود بھی اور ان کے وجود کا جواز بھی شرعا ثابت شدہ حقیقت ہوگی۔ اور اگر حکمران ان ذمہ داریوں میں سے کسی بھی ذمہ داری میں کوتاہی کرے یا سرے سے اس ذمہ داری کی طرف توجہ ہی نہ دے تو پھر عوام اور علماء کے سامنے یہ راستہ کھلا ہے کہ وہ اس حکمران کو نصیحت کریں، اسے اس کی ذمہ داری یاد دلائیں لیکن انھیں اس کی اجازت ہرگز نہیں ہوگی کہ وہ فرد یا جماعت مذکورہ ذمہ داری کو خود اپنے ہاتھ میں لے اور خود زبان حال سے کہے تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی۔ ایسا کوئی بھی اقدام وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے مگر انارکی وانتشار اور پھر جان ومال کے تحفظ کے سلسلے میں بلکہ عزت وناموس کی حفاظت کے سلسلے میں وہ ہاہاکار مچے گی کہ الأمان والحفیظ۔ جو کام اصولا ایک حکمران کی ذمہ داری میں آتے ہیں انھیں حکمران کے انجام نہ دینے پر ایک فرد یا جماعت کا اپنے ہاتھ میں لے لینا بظاہر ایک اچھا کام نظر آتا ہے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے مگر انجام کار ایسی کسی بھی جماعت کا وجود مسلم اجتماعیت کے دیرپا مفاد میں نہیں ہے۔
مسلم ممالک میں بپا ہوئی تنظیموں کا سفر دیکھیں، ابھی ان کا سفر جاری ہے، ابھی وہ اپنی منزل کو پا نہیں سکی ہیں مگر صورت حال یہ ہے کہ ابتدائی خیر کے بعد عالم اسلام میں ان تنظیموں کے ذریعے پیدا شدہ مسائل اور پیش آمدہ نقصانات کا سنجیدہ جائزہ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ایسی جماعت بندی اپنے دوررس نتائج کے تناظر میں کوئی مستحسن چیز نہیں ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں افغان جہاد کے موقعہ پر روس کے خلاف ان تنظیموں کی کارکردگی اور ان کے اثر سے کون واقف نہیں؟ لیکن ایک روس کے بھاگنے کے ساتھ ان تنظیموں نے جس طرح آپس میں ایک نئی جنگ چھیڑدی وہ ابھی دو دہائی قبل کی کہانی ہے۔ کتنی تنظیمیں ہیں جو امت کا مستقبل سنوارنے اور اس کے مستقبل کی ضمانت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں مگر بہت جلد ان کا رخ بدل گیا اور معاشرہ میں خیر کے نقیب بننے کے زعم میں انھوں نے معاشرہ کے امن وسکون میں ایسی نقب لگائی کہ اب اس کی بھر پائی اپنے آپ میں ایک بڑا کام ہے۔ دعوی یہ تھا کہ حکمران خیر کی راہ میں رکاوٹ ہیں یا خیر کی ترویج نہیں کررہے ہیں جو ہم کر دکھائیں گے۔ انجام یہ نکلا کہ وہ حکمران پھر بھی اس حیثیت سے بھلے تھے کہ وہ خیر نہیں لائے تو نہیں لائے کم ازکم وہ شر تو نہ تھا جو خیر کے علمبردار ان تنظیموں نے بپا کیا۔ عرب بہاریہ نے عالم اسلام سے کیا لیا اور کیا دیا؟ اس کا سنجیدہ جواب اس حقیقت کو آشکارہ کر دے گا؎
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کہا کرتے تھے:
إذا رأیت قوما یتناجون في دینھم بشيء دون العامۃ فاعلم أنھم علی تأسیس ضلالۃ (شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ للا لکائي: ۲۵۱)

ترجمانی: جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ عام مسلمانوں سے ہٹ کر خفیہ سرگرمی دکھلا رہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ کسی گمراہی کی بنیاد رکھنے جارہا ہے۔
الافتئات علی الحاکم یعنی حاکم کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہے وہ کتنا ہی اچھے کاز کے لیے کیوں نہ ہو شرعا غلط اور دخل درمعقولات کی بدترین شکل ہے۔
اسی حقیقت کی وضاحت کے لیے مختلف اہل علم نے کتابیں تصنیف کیں۔ بکر أبوزید رحمہ اللہ کی “حکم الانتماء إلی الفرق والأحزاب والجماعات” شیخ ربیع حفظہ اللہ کی “جماعۃ واحدۃ لا جماعات وصراط واحد لا عشرات” سلیم الہلالی حفظہ اللہ کی “الجماعات الإسلامیۃ فی ضوء الکتاب والسنۃ” وغیرہ متعدد کتابیں ہیں۔ ان کے علاوہ چوٹی کے تقریبا سبھی علماء نے جماعت بندی کی اس روش پر موقعہ بموقعہ نکیر کی ہے اور ان کے فتاوی اس سلسلے میں مشہور ومعروف ہیں جن کا احاطہ اس مختصر سے مقالے میں ممکن نہیں۔ بعض معاصرین نے تو صرف ان اہل علم کے فتاوی کو اکٹھا کرکے کتابی شکل میں ان کو شائع کیا ہے۔
جہاں تک دعوت وتبلیغ اور امت کے تئیں علماء کی ذمہ داری کی بات ہے تو یہ معلوم رہنا چاہیے کہ اس کے لیے جماعت بندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اہل علم اس معاملے میں بنیادی طور پر آزاد ہیں کہ وہ تعلیم وتعلم کے سلسلے کو جاری رکھیں، امر بالمعروف والنہی عن المنکر کے فریضہ کو نبھاتے رہیں، دعوتی کاز کے لیے نہ کسی جماعت بندی کی ضرورت ہے اور نہ اہل علم اس کے مکلف ہیں۔ یہ نظم وتنظیم حکمران کی ذمہ داری ہے، وہی اس کا مسؤول ہے۔ نبیﷺ کا فرمان ہے: لا یقص علی الناس إلا أمیر أو مأمور أو مختال (أبوداود ۳۶۶۵ / ابن ماجہ۳۷۵۳)
یعنی: لوگوں کو نصیحت یا تو امیر خود کرے گا یا اس کی طرف سے مامور شخص یا پھر وہ جس نے بے وجہ ٹانگ اڑائی۔
حکمران اگر اس سلسلے میں اہل علم سے مدد کا طالب ہو تو اس کا ساتھ دیں ورنہ اہل علم اپنی دعوت اور تعلیم وتعلم کا سلسلہ مساجد اور اپنے گھروں میں جاری رکھیں۔
اور اگر کوئی حکمران ظلما و جورا کسی عالم پر پابندی عائد کردے یا کسی مصلحت کے پیش نظر وقتی طور پر پابندی عائد کردے تو اس شر میں خیر کا پہلو یہی ہے کہ وہ عالم صبر کرے۔ گروہ بندی اور پھر اس حکمران کے خلاف محاذ آرائی کو اپنا مشن نہ بنائے۔ اس کے اپنے شاگردوں کا جم غفیر ہو مگر شاگردوں کی جتھہ بندی نہ ہو۔ یہی سلف صالحین کا نہج رہا ہے اور تاریخ اسلام کے ہر دور میں اس کے شواہد ملتے ہیں۔ سعید بن المسیب، امام أبوحنیفہ، امام احمد بن حنبل ودیگر علماء کی سیرتیں اس سلسلے میں بڑا ہی روشن کردار اپنے اندر رکھتی ہیں۔
دعوت کے نام پر جتھہ بندی کا یہ تصور ایک اضافی شیئ ہے جس کی شرعا کوئی حیثییت نہیں ہے۔ یہ انیسویں صدی کی دین ہے کہ سیاسی گلیاروں میں جمہوریت کا طوطی بولنے لگا تو مسلمانوں کے اندر بھی جمہوری طرز فکر نے اور دینی سیاسی فکر نے جتھہ بندی کو ہی کام اور جتھہ کی تعداد اور اس کی تنظیمی قوت کو ہی کامیابی کا معیار تصور کرلیا اور پھر تنظیمیں وجود میں آنے لگیں حتی کہ مسلم ممالک میں بھی مساجد کے ائمہ ومدرسہ کے اساتذہ سے زیادہ اس تنظمیی ڈھانچہ سے جڑنے والے اہل علم ہی کو اہمیت کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ تک سمجھا جانے لگا کہ جو ان جتھوں سے وابستہ نہ ہو یا اخلاقی طور پر ان کا مؤید نہ ہو اس میں امت کے تئیں ہمدردی یا فکرمندی کا جذبہ ناپید ہے۔ کبھی کبھار تو یوں بھی ہوا کہ جتھہ بندی سے دوری کو حکومت وقت کی چاپلوسی یا ایسے اہل علم کو دشمن کا آلہ کار تک قراردیا جانے لگا۔
تاہم یہ بات بھی واضح رہے کہ مسلم ممالک کے اندر ایسے ادارے جو رفاہ عام کے لیے یا کسی کار خیر میں محض باہمی تعاون کے جذبہ کے تحت کام کرتے ہوں، جن کے اپنے ذمہ دار ہوتے ہیں جنھیں جمعیات خیریہ یا تعاونیہ وغیرہ کہا جاتا ہے یہ تعاون کی صورت اور شکل رکھتے ہیں۔ ان میں گروہ بندی اور جتھہ بندی کا کوئی تصور نہیں ہوتا اسی لیے ان کے وجود میں آنے اور کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک کہ ان کے ذریعے محض یہی سب کچھ کام انجام پاتے ہوں اور وہ کسی اور مقصد کی تکمیل کا ذریعہ نہ بنیں۔
غیر مسلم حکومتوں میں جماعت بندی کی شرعی حیثیت:
رہی بات غیر مسلم حکومتوں میں جینے والی مسلم اقلیتوں کی تو ان کے سلسلے میں بھی اصل یہی ہے کہ وہ ایک جماعت ہیں، انھیں باہمی تعاون کے ذریعے اپنے مسائل طے کرنے چاہئیں، دین کی خدمت علماء کریں اور عوام الناس ان کے متعاون بنے رہیں۔ مسلم وغیرمسلم سبھی طرح کے لوگوں تک اللہ تعالی کے دین کی تبلیغ ونشر واشاعت کا یہی بنیادی طریقہ ہے۔ تاہم ایک غیرمسلم ملک میں جینے والی اقلیتوں کے مسائل کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ دعوت وتبلیغ کے معاملات بھی اور اس سے آگے بڑھ کر مسلم تشخص، شعائر اسلام کا تحفظ، سماجی سطح پر اجتماعی ترقی اور بسااوقات مسلمانوں کی بقا یا ان کے مصالح کا تحفظ جیسے بیسیوں ایسے مسائل ہوتے ہیں جن میں ایک اجتماعی کردار کی از حد ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا اپنا کوئی ایک حاکم نہیں ہوتا جو حتی الإمکان ان مصالح کے حصول یا تحفظ کا ضامن ہو اور جو اس ذمہ داری کو بخوبی نبھانے کا مکلف ہو۔ ان حالات میں اگر لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑدیا جائے تو پتہ نہیں بنا چرواہے کے بکریوں کے اس ریوڑ کا کیا حشر ہوگا؟ کس قدر شر جنم لے گا؟ نقصان کا اندازہ لگانا بھی تصور سے پرے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے مخصوص حالات میں مخصوص شرائط کے ساتھ جماعت سازی کی اجازت دی ہے کیونکہ جماعت سازی میں اختلاف وانتشار کے جو اندیشے ہیں ان سے زیادہ مسلمانوں کو محض ایک بھیڑ کی شکل میں چھوڑ دینے میں ان کے دین ودنیا کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔
ایک غیر مسلم ملک میں بھی وجود میں آنے والی مسلم جماعتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک قسم ان جماعتوں کی ہے جن کی اصل کسی بدعت پر ہے، جو کسی منحرف فکر کی نشر واشاعت یا اس کے تحفظ و ترویج کے لیے وجود پذیر ہوئی ہوں۔ ایسی جماعتیں چھوٹی ہوں کہ بڑی، قدیم ہوں کہ جدید شرعا ان کے وجود کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی بلکہ کتاب وسنت میں وارد بدعت کی عمومی مذمت ان جماعتوں کی بھی مذمت ہے۔ اگر ان کی طرف سے سماج میں کوئی خیر بھی عام ہو رہا ہو تب بھی ان کے جواز کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی کیوں کہ اصل مقصد بدعت کی ترویج واشاعت ہے اور اپنی مخصوص فکر کا فروغ ہے۔ خیر کے وہ تمام پہلو جانبی ہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ اسی خیر کے سہار ے وہ مخصوص فکر کو رواج دینا چاہتے ہوں۔ ان کے جزوی وجانبی خیر کو دیکھ کر ان کے لیے جواز فراہم کرنے والا عین “حفظت شیئا وغابت عنک أشیاء” کا مصداق ہے۔ منحرف جماعتیں ایسی ہی باتوں کا سہارا لے کر شر کو عام کررہی ہیں۔ مسلم جماعتوں پر ہی کیا موقوف عیسائی وقادیانی تک اسی اسٹراٹیجی کو اپنائے ہوئے ہی۔ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین علم کو حیات مانتے تھے مگر وہی علم اگر کسی بدعتی کے پاس سے آئے تو اسے آب حیات کے بجائے سم قاتل تصور کرتے تھے۔ خود مسلم ممالک میں اسی طرز پر کام کرکے کئی تنظیموں نے اپنی مخصوص فکر کو رواج دیا ہے جمعیات خیریہ یا مکتبات تعاونیہ للدعوۃ والإرشاد کے دروازہ سے لوگوں تک پہنچ کر ان کی فکر کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ لہذا ایسی جماعتوں کے جواز کی کوئی بنیاد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ایسی کسی جماعت سے کوئی نسبت باقی رکھی جاسکتی ہے۔
غیر مسلم ممالک میں پائی جانے والی جماعتوں کی دوسری قسم ان جماعتوں کی ہے جن کی اصل کوئی بدعت نہیں بلکہ مسلمانوں کے مصالح کا حصول اور ان کا تحفظ یا صحیح منہج کے مطابق کتاب وسنت کی طرف دعوت وتبلیغ یا اصلاح کے لیے ان کا وجود ہوا ہے۔ ایسی جماعت کا وجود شرعا جائز بھی ہے اور حالات کے مطابق مطلوب بھی ہے اس لیے کہ یہ شرعا مطلوب باہمی تعاون کی ایک شکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم گروہ بندی وحزبیت اور افتراق وانتشار سے منع کرتے تھے مگر دوسری طرف ایسی جماعتیں جو شرعا اپنا جواز رکھتی ہیں ان کے ساتھ تعاون بھی کرتے تھے۔ ماضی میں ہندو پاک کے معتبر سلفی علماء واکابرین کا یہی موقف رہا ہے اور نہ صرف برصغیر کے بلکہ عرب علماء میں سے نمایاں شخصیتوں نے بھی ماضی وحال میں اس کی تائید کی ہے بالخصوص شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی پوری زندگی اس کی آئینہ دار ہے۔
تاہم اس قسم کی جماعتوں کا وجود بھی چند شرائط سے مربوط ہے جو اہل علم کے متفرق فتاوی میں ہمیں ملتی ہیں۔ ان میں سے چند بنیادی شرائط درج ذیل ہیں:
(۱) جماعت بذات خود مقصود اصلی نہ ہو بلکہ وہ مصالح جو اس جماعت بندی سے وابستہ تھے ہمیشہ وہی مقصود رہیں۔
(۲) جماعتی اصول وضوابط یا جماعتی ذمہ دار کی اندھی اطاعت نہ ہو بلکہ “وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان” اور “لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق”جیسے نصوص ہمیشہ پیش نظر رہیں۔
(۳) چونکہ ان جماعتوں کی اصل محض تعاون پر ہے لہذا یہ جماعتیں اور اس کے اصول وضوابط ولاء اور براء (یعنی دوستی ودشمنی) کی اساس اور بنیاد نہ ہوں ورنہ یہ خالص حزبیت ہوگی جو شرعا مبغوض وممقوت ہے۔
(۴) ان جماعتوں کے نظم اور انتظام میں ضوابط کے مطابق ذمہ داریوں پر افراد کی تعیین ہو مگر ان عہدوں کے حصول کے چکر میں باہم دست وگریبان ہونا اور ایک دوسرے کی کردار کشی کرنا شرعا حرام اور ناجائز ہے۔
(۵) یہ جماعتیں محض تعاون کی ایک شکل ہیں۔ نہ یہ مسلم حکومت کا بدیل ہیں اور نہ اس کے ذمہ دار امیر المؤمنین لہذا “جماعۃ المسلمین” یعنی مسلمانوں کی ایک حاکم کے تحت موجود اجتماعیت سے متعلق جو نصوص و احکام ہیں ان جمعیتوں پر لاگو نہیں ہوتے بلکہ ان کی اصل “المسلمون علی شروطہم” کے تحت باہمی تعاون اور رضائے الہی کا جذبہ ہی ہے۔
(۶) یہ جماعتیں اپنے وجود سے لے کر اپنی بقا اور کارکردگی کے جملہ معاملات میں شرعی احکام کی پابند رہیں۔
جماعت بندی کے مشروط جواز اور اس کے شرائط سے متعلق بعض اہل علم کے فتاوی:
موضوع کو سمیٹنے سے پہلے چند اکابر علماء کے فتاوی درج کیے جارہے ہیں جو مخصوص حالات میں اور مخصوص شرائط کے ساتھ جماعت بندی کے جواز کے قائل ہیں۔ خیال رہے یہ انتخاب سرسری ہے ورنہ دیگر اہل علم کے فتاوی میں بھی اس قبیل کی بہت سی باتیں ملتی ہیں۔ دوسری بات یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ان اہل علم میں سے بعض وہ بھی ہیں جن کا حوالہ دے کر جماعت بندی کی مطلق حرمت کا فتوی بعض حضرات دیتے ہیں جبکہ انھوں نے مخصوص حالات میں مخصوص شرائط کے ساتھ جماعت بندی کی اجازت دی ہے۔
محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا فتوی:
سئل الشيخ الألباني -رحمه الله –عن جمعية الحكمة اليمانية الخيرية
فأجاب: أيُّ جمعيةٍ تُقام على أساسٍ من الإسلامِ الصحيحِ، المستنبطةِ أحكامُها من كتاب الله، ومن سنة رسول الله، ومما كان عليه سلفنا الصالح؛ فأيُّ جمعيةٍ تَقوم على هذا الأساس= فلا مجال لإنكارها واتّهامها بالحزبية؛ لأن ذلك كلَّه يدخل في عموم قوله تعالى: (وتعاونوا على البر والتقوى) سورة المائدة والتعاونُ أمرٌ مقصود شرعاً، وقد تختلف وسائلُه من زمن إلى زمن، ومن مكان إلى مكان، ومن بلدةٍ إلى أخرى؛ ولذلك فاتهامُ جمعيةٍ تقوم على هذا الأساسِ بالحزبيةِ أو بالبدعية= فهذا لا مجال إلى القول به؛ لأنه يخالف ما هو مقرر عند العلماء من التفريق بين البدعة الموصوفة –بعامةٍ- بالضلالة، وبين السنةِ الحسنة؛ السنةُ الحسنة: هي الطريقة تُحدَثُ وتوجَد لتوصِل المسلمين إلى أمر مقصودٍ ومشروعٍ نصّاً، فهذه الجمعيات في هذا الزمن لا تختلف من حيث وسائلها عن الوسائل التي جدّت في هذا العصر لتسهِّل للمسلمين الوصول إلى غايات مشروعة؛ فما نحن الآن في هذه الجلسة من استعمال المسجلات -على أشكالها وألوانها- إلا من هذا القبيل، إنها وسائل أُحدثت، فإذا استعملت فيما يحقق هدفاً وغرضاً شرعياً؛ فهي وسيلة مشروعة، وإلا فلا، كذلك وسائل الركوب الكثيرة والمختلفة اليوم، من السيارات والطيارات ونحو ذلك؛ هي أيضاً وسائل، فإذا استُعملت في تحقيق مقاصد شرعية؛ فهي شرعية، وإلا فلا (سلسلة الهدى والنور: شريط رقم: 590)

ریحانۃ الیمن شیخ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ کا فتوی:
قال – رحمه الله- :……..ثم نسمعهم بعد ذلك يقولون: أنتم تطعنون في الجمعيات! فمن قال لك: إننا نطعن في الجمعيات؟ نعم، إننا نطعن في بعض الجمعيات التي اشتملت على حزبيات وعلى ولاء ضيّق، وعلى لصوصية واختلاس الأموال، فهذه هي التي نطعن فيها وننفر عنها.(تحفة المجيب على أسئلة الحاضر والغريب : ص: 184)
عالم مدینہ شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ کا فتوی:
السؤال:
هل يجوز تأسيس جمعية هدفها الدعوة إلى الكتاب والسنة على فهم السلف الصالح، هذه الجمعية لها رئيس وأعضاء مع العلم بأنه لا يسمح لأهل السنة إقامة الدروس والمحاضرات في المساجد إلا لمن يوافق أهواءهم
الجواب:
إذا كان بلد فيه جمعيات مخالفة للسنة وأراد أهل السنة أن يكونوا جمعية يعني يقومون بسببها بالنفوذ إلى الناس وأنهم يقومون بالدعوة إلى الله عز وجل فإن هذا شيء مطلوب لا بأس هذا شيء طيب، يعني يترك المجال للبعيدين عن السنة يعني يسرحون ويمرحون وينذرون الناس يعني أهل السنة كونهم يكونون لهم جماعة مادام البلد فيه جماعات يعني غير سليمة وفيها القريب من الحق والبعيد عنه وأولئك يريدون أن يكونوا جمعية للدعوة إلى الكتاب والسنة والسير على ماكان عليه سلف الامة هذا أمر مطلوب (وكان ذلك أثناء شرحه لكتاب الحج من بلوغ المرام باب صفة الحج ودخول مكة ، يوم 23-ذو القعدة -1432هــ)

فضیلۃالشیخ عبید الجابری حفظہ اللہ کا فتوی:
لسائل من المغرب:
يقول: بارك الله فيكم شيخنا عندنا في بلادنا المغرب المسئولون ولله الحمد يُعطون للسلفيين تصاريح إنشاء جمعيات هدفها تدريس طلاب العلم ونشر الدعوة السلفية ويُسميها الإخوة عندنا غالباً دور القرآن أو دور قرآن وعدد هذه الجمعيات شيخنا بدأ يزداد فما نصيحتكم لنا بخصوصها خاصةً أن الإخوة في كل مدينة تقريباً يفكرون في إنشاء جمعيةٍ خاصةٍ بهم؟
فأجاب:
إذا كانت هذه الجمعيات تُعنى بتدريس الكتاب والسنة وعلى فهم السلف الصالح فلا مانع منها إن شاء الله فهي بمثابة مدارس أو مراكز دعوة للسنة ولكن يُشترط ألا ينعقد عليها لذاتها ولاء ولا براء ، فلا يُقال هذا من جمعية كذا فلا يأتي إلينا وهذا من جمعية البلدة الفلانية فلا يأتينا ، وكذلك لا يعاقب من يتخلف عن الدروس نعم الموظفون الذين وكِل إليهم تنظيم أعمال هذه الجماعة أو هذه الجمعية هؤلاء يُربطون بدوام يُحدده رئيس الجمعية۔(www.said.net)

عالم جلیل شیخ ربیع بن ھادی مدخلی حفظہ اللہ کا ایک اہم فتوی:
ماضی قریب میں ہندوستان میں بعض احباب نے جمعیت اہل حدیث کے نام سے جمعیت سازی کے جواز پر سوال اٹھائے اور اس کو سلفی منہج کی روشنی میں ایک ناجائز اور غیرشرعی جمعیت قرار دیا جب کہ بر صغير کے تمام اہل حديث علماء كا نہ صرف يہ كہ اس پر اتفاق تھا بلكہ ان میں سے اكثريت اس جمعيت کے ساتھ باقاعده ہميشہ متعاون رہى۔ تاہم اس سلسلے میں اعتراض كرنے والوں كى طرف سے جن معتبر اہل علم کا حوالہ دیا گیا ان میں سب سے نمایاں عالم عرب کی مشہور علمی شخصیت شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ کی تھی۔ بنا بریں جماعت کے ایک مؤقر عالم دین شیخ عبدالرحیم محمدی مدنی حفظہ اللہ (مقیم حائل) نے براہ راست شیخ ربیع بن ھادی مدخلی حفظہ اللہ ہی سے سوال پوچھ لیا کیونکہ شیخ ربیع ہندوستان میں بحیثیت مدرس ایک اچھی خاصی مدت گزار چکے ہیں اور جمعیت کو بہت قریب سے جانتے ہیں لہذا شیخ ربیع حفظہ اللہ نے بڑے ہی واضح الفاظ میں اس قسم کی کسی رائے سے براءت کا اظہار فرمایا اور اس کے جواز کے علاوہ ہندوستان کے اہل علم کی زیر نگرانی تعلیم وتعلم اور دعوت وتبلیغ کے سلسلے کو جاری رکھنے کی نصیحت ووصیت فرمائی۔

ملاحظہ ہو شیخ ربیع حفظہ اللہ کا خود اپنے ہاتھوں لکھے جواب کا نمونہ:
بسم الله الرحمن الرحيم
إلى الأخ الكريم مدير مركز الأثر الإسلامي بحيدرآباد -الهند- حفظه الله
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
أما بعد فقد وصلني خطابكم الكريم الذي تضمن شكوى من بعض السلفيين بأنه قد انتقدكم وحكم عليكم بالبدعة بسبب بعض الأعمال التي تمارسها الجمعية وعليه فأنا لا أبدعكم وأعتبركم من أهل الحديث. ولكني أنصح نفسي وإياكم بتقوى الله والتمسك بهدي محمد صلى الله عليه وسلم فإنه خير الهدى وقد أوصانا صلى الله عليه وسلم بأن نتمسك بسنته وسنة الخلفاء الراشدين وحذرنا من محدثات الأمور فعلينا جميعا أن نتمسك بهديه وهدي خلفائه الراشدين المهديين وأن نحذر ونحذر من محدثات الأمور.
وقد أشرتم إلى أن عندكم بعض الأخطاء ولم تنصوا عليها ولعلها مما لاحظه عليكم هذا الأخ فأرى أن تتركوا ما أدركتم أنه من الأخطاء فخير الخطائين التوابون.
ومما أرى أنه يجب عليكم تركه:
1. العهد والبيعة
2. وأن تتركوا الانتخابات
وأرى أن أعلمكم وأفضلكم هو الذي ترجعون إليه فيتولى الفتوى وحل المشاكل التي تطرأ عليكم. وإذا كان لكم مدارس فلا بأس من تنظيم الدروس فيها وتعيين المدرسين وتعينن الحصص التي يقوم بها كل مدرس وعالمكم هو الذي يتولى هذه الأمور مع التشاور مع أهل العلم والفضل منكم. أما الجمعيات فلا أعرف الآن جمعية سلفية تقدم العون للمدارس والجماعات لأجل المنهج السلفي وإنما لها اتجاهات أخرى تقدم الدعم لأجلها فأرى أنه يجب الابتعاد عنها حفاظا على منهجكم ودعوتكم ووحدة كلمتكم وصفكم.
هذا ما أنصح إخواني به. والله أسال التوفيق لي ولهم وأسأله أن يثبتنا وإياكم على السنة ومنهج السلف وأن يجنبنا الفتن ما ظهر منها وما بطن إنه سميع الدعاء
كتبه
أخوكم
ربيع بن هادي عمير المدخلي
في 29 ذي الحجة من عام 1426هـ

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
محمد نسيم بن نثار احمد

ما شاء الله بارك الله فيك ونفع بك الأمة

Mubashir Hasan

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه شیخ عبدالرحیم مدنی نے یہ سوال لکھا ضرور ہے لیکن خود نہیں پیش کے الْحَمْدُ لله می لیکر گیا تھا یہ سوال شیخ ربيع کے پاس یہ سوال اور میرے ساتھ شیخ یاسر الجابری تھے اوریجنل جواب میرے پاس ہی ہے لیکن شیخ ربيع نے رجوع کرلیا ہے سنا ھو واللہ عالم

مبشر حسن
حیدرآباد