دیجیے اس کا بھی حصہ باپ کی جاگیر سے

سحر محمود شعروسخن

دیجیے اس کا بھی حصہ باپ کی جاگیر سے

آپ کو سچی محبت ہے اگر ہم شیر سے


اتنی عجلت میں نہ کہہ پائیں گے کھل کر دل کی بات

“راستے میں وہ اگر مل بھی گئے تقدیر سے”


جب دلوں میں ایک دوجے کی کوئی عظمت نہ ہو

فائدہ کچھ بھی نہیں ہے ظاہری توقیر سے


درد کا رشتہ ہے ان کا اور میرا مشترک

بس یہی رشتہ ہمیں جوڑے ہوئے ہے میر سے


کامیابی چومنے لگ جائے گی اس دن قدم

مل گئی تدبیر میری جس گھڑی تقدیر سے


کتنے چہروں سے غموں نے چھین لی ہیں رونقیں

سب جواں سالی میں ہی لگنے لگے ہیں پیر سے


غم سے جانے والوں کے ہو جاتا ہے بوجھل یہ دل

اس لیے بھی ہوتی ہے وحشت مجھے تصویر سے


اس سے بڑھ کر پیار ہے تجھ سے مجھے جانِ حیات!

پیار رانجھا کو تھا جتنا اپنی پیاری ہیر سے


اعترافِ جرم کی جرأت کوئی کرتا نہیں

ورنہ کوئی پاک کب ہے اے سحر تقصیر سے

آپ کے تبصرے

3000