جو دن بچپن کا گزرا ہے وہ اکثر یاد آتا ہے
مجھے ماں کا حسیں و چاند پیکر یاد آتا ہے
کبھی خود کو کبھی میں دیکھتا تھا ماں کے چہرے کو
کبھی تھا کس بلندی پر مقدر یاد آتا ہے
کرم آمیز لہریں جب مِرے پیروں کو چھوتی ہیں
مجھے ماں کی دعاؤں کا سمندر یاد آتا ہے
کبھی بچپن میں اکثر ماں کے ہاتھوں مار کھانے پر
نکلنا آنکھ سے اشکوں کا لشکر یاد آتا ہے
مجھے جب بھوک لگتی ہے، مجھے جب پیاس لگتی ہے
ابلتے دیغچی میں ماں کا پتھر یاد آتا ہے
غمِ صحرا نوردی جب کبھی مجھ کو ستاتی ہے
مجھے ماں کی محبت کا گلِ تر یاد آتا ہے
فلک پر چاند تاروں کو چمکتا دیکھتا ہوں تو
لٹکتا ماں کے ماتھے کا وہ جھومر یاد آتا ہے
غموں کی دھوپ نے جب بھی ستایا ہے مجھے وارؔث
چھپانا ماں کا آنچل میں برابر یاد آتا ہے
ماشاء الله۔۔۔بہت خوب بھائی۔۔۔یقینا ماں کی جدائی انسان کو مار کر رکھ دیتی ہے۔۔۔
رب ارحمهما كما ربياني صغيرا
masha Allah bahut khub
aap ne waledain ki mehnat wmashaqqat yaad dila di
رب ارحمهما كما ربياني صغيراً