تقریبا ہر سماج میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جو اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ اپنی زبان اور ہاتھ کو اپنے کنٹرول اور قابو میں نہیں رکھ پاتے مگر بزعم خویش وہ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ کوئی بھی شخص ان کے سامنے لب کشائی کی ہمت نہیں کر پاتا۔ دوسرے وہ جنھیں اللہ تعالی نے توانائی دی ہے کہ اپنے اعضاء و جوارح پر مکمل گرفت رکھتے ہیں، ان کی زبان اور ہاتھ میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ منمانی کریں اور بے قابو ہوجائیں۔ دونوں اپنے عمل کے ذریعہ اپنا تعارف کراتے ہیں، ایک شخص جسے اپنی زبان اور ہاتھ پر قابو نہیں وہ غلط فہمی کا شکار ہو کر دنیا کو قابو میں کرنا چاہتا ہے، اس کی یہ غلط فہمی دنیا میں رسوائی و نقصان سے دوچار کرے گی جبکہ آخرت میں خسران اس کا مقدر ہوگا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا جو اپنے اعضاء پر گرفت مضبوط نہیں رکھتے جس کی وجہ سے زبان و ہاتھ منمانی کرتے ہیں اور کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں جیسے جنگلی جانور جنگل میں بے قابو رہتے ہیں اور جنگل کے باہر بھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ
یعنی مسلمان وہی جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں۔ مسلمان تو وہی جس نے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اطاعت و فرمانبرداری کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالا اور پھر اس کا ذہن و دماغ، ضمیر اور تمام اعضاء اللہ کے مطیع ہوگئے پھر جو کچھ بھی صادر ہوگا اور جسم کے جس حصہ سے بھی صادر ہوگا اس پر اطاعت کی مہر لگی ہوگی، مگر افسوس کہ ہم بذات خود اطاعت کے لیے آمادہ نہیں تو پھر جسم کے دیگر حصوں سے کیا توقع رکھی جائے۔
ایک شخص جس کے تمام اعضاء بے قابو ہیں اور اولاد بھی بات ماننے کے لیے آمادہ نہیں ہے تو وہ شخص اپنے بچوں کی شکایت تو ہر ایک شخص سے کرتا ہے کہ میرے بچے اطاعت نہیں کرتے مگر اس کے ہاتھ اور زبان بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو اسے کوئی شکوہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ اگر وہ ذرا بھی عقل سے کام لے تو سوچ سکتا ہے کہ جب میری زبان اور ہاتھ قریب تر ہونے کے باوجود بےقابو ہیں تو اولاد جن سے خون کا رشتہ ضرور ہے مگر زبان اور ہاتھ کے مقابلہ میں دور ہیں ان کا شکوہ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔
اس لیے جو شخص زبان اور ہاتھ کو قابو میں رکھ سکے وہی طاقتور ہے، اگرچہ وہ اپنی طاقت و توانائی کا ڈنکا نہیں پیٹتا۔ برخلاف اس کے جو لوگ ہر وقت اور ہر میدان میں اپنی زبان سے اپنا لوہا منوانا چاہتے ہیں اور دنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ بے پناہ قوت کے مالک ہیں مگر نہ زبان کنٹرول میں ہے اور نہ ہی ہاتھ قابو میں، اس کا دعویٰ صرف دعویٰ ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ورنہ طاقت ہوتی تو کم از کم اپنی زبان اور ہاتھ ضرور قابو میں رکھتے۔
آپ کے تبصرے