حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

نثار احمد اصغر فیضی شعروسخن

آج اخبارِ پرآشوب یاں درگوش ہوئے

بانگِ محشر تھی کہ اغیار بھی مدہوش ہوئے

سانحہ ہوش ربا سنتے ہی خاموش ہوئے

رنج و آلام میں سب محوِ غمِ دوش ہوئے

برق ایسی گری بلبل سبھی رنجیدہ ہوئے

اہلِ گلشن ہی کیا صیاد بھی نم دیدہ ہوئے


آج ہم سب کو بہت کلفت و حیرانی ہے

دردِ جانکاہ سے ہرسمت پریشانی ہے

شامِ غم سر پہ کھڑی وحشتِ ویرانی ہے

راہبر چل بسا اب بے سر و سامانی ہے

پوچھ مت ہم سے مسیحا کہ الم کتنا ہے؟

حرفِ تعبیر ہے عاجز ہمیں غم کتنا ہے؟


مشعلِ بزم گئی عمدہ سہارا بھی گیا

سلفیوں کی شبِ تیرہ کا منارا بھی گیا

جس پہ نازاں تھے سبھی خوبرو تارا بھی گیا

جن و شیطان تھےخائف وہ شرارا بھی گیا

ساقیا! کیا کہیں محفل کی یوں بدحالی ہے

کون لبریز کرے جام؟ ابھی خالی ہے


وقتِ حاضر کے قلمکار تھے یوسف صاحب

بابِ تفسیر کے فنکار تھے یوسف صاحب

دین کے قلزمِ زخار تھے یوسف صاحب

سلفیوں کے سپہ سالار تھے یوسف صاحب

آپ کا خامہ رگِ شرک پہ اک نشتر تھا

بدعتی لرزاں ہوئے آپ میں وہ جوہر تھا


برِ کوچک کے لیے منبع تحقیق تھے وہ

ابنِ قیم نما تصنیف کی تصدیق تھے وہ

مثل جوناں گڑھی، بھوپال کے صدیق تھے وہ

مسلکِ حق کے لیے نصرت و توثیق تھے وہ

بزمِ اردو کو وہ تفسیر حسن کس سے ملی؟

زعمِ مودودی کو اک ضربِ اہن کس سے ملی؟


اہلِ تقلید ہراساں تھے رخِ ضیغم سے

لشکرِ شرک کو دہشت تھی انھی کے دم سے

ایسی تحریر ملی ان کے کفِ محکم سے

دیں کی ترویج ہوئی فیضِ سرِ پیہم سے

ان کی تصنیف ہے دستور جماعت کے لیے

راہِ توحید کی سنت کی حفاظت کے لیے


گنتے ہیں آپ کو ہم عبقری انسانوں میں

تذکرہ آپ کا ہے دہر کے کاشانوں میں

آپ کا نام ہے سنت کے نگہبانوں میں

الفت و شوق ہے توحید کے پروانوں میں

ایسا اب کون ہے تفسیر لکھے حافظ سی؟

سلفیت کے لیے تحریر لکھے حافظ سی؟


آپ کی یکساں جہاں بھر میں پذیرائی تھی

حلقۂ علم سے کیا خوب شناسائی تھی

سلفیوں کے لیے بے لوث مسیحائی تھی

اہلِ بدعت سے سدا معرکہ آرائی تھی

آپ سا عالمِ ذیشان کہاں سے لائیں؟

علم کا مہرِ درخشان کہاں سے لائیں؟


ان کی تحریر سے دنیا کو منور کردے!

کتب و اوراق کو گنجینۂ گوہر کردے!

ساری تصنیف ہدایات کا محور کردے!

صدقۂ جاریہ پروانۂ محشر کردے!

ان کی تربت کو اے اللہ تو پرنور بنا!

حشر میں جنتِ فردوس کا معمور بنا!


لطف چنداں نہیں اصغر ہے ابھی جینے میں

بارِ فرقت کے تلے اشکِ الم پینے میں

کتنی تدبیر کریں چاکِ جگر سینے میں

لعل و گوہر ابھی کمیاب ہیں گنجینے میں

دہر سے علم کا خورشید جو روپوش ہوا

معاشرہ لگتا ہے ظلمت سے ہم آغوش ہوا

آپ کے تبصرے

3000