ہیں واقف ہم تمھارے ہر بیاں سے

سحر محمود شعروسخن

ہیں واقف ہم تمھارے ہر بیاں سے

نیا دعوی کروگے کس زباں سے؟


نظر اپنی نہ ہو کیوں آسماں پر

ہم آئے ہیں زمیں پر آسماں سے


ہمیں در پیش ہیں گھر کے مسائل

کسی سے کیا کہیں اپنی زباں سے


محبت کی زباں اردو زباں ہے

لگاوٹ ہے خصوصی اس زباں سے


ہمی بس خواب سے جاگے نہیں ہیں

کہاں تک جا چکی دنیا کہاں سے


علاج اب تک ادھورا ہے ہمارا

کوئی واقف نہیں دردِ نہاں سے


جو میرے بس میں ہو وہ بات کہیے

“نئی دنیا کوئی لائے کہاں سے”


سلیقہ ہی نہیں جینے کا اس کو

الجھتا ہے زمین و آسماں سے


سحر اپنا یہی طرزِ عمل ہے

سدا رہتے ہیں بچ کر بد زباں سے

آپ کے تبصرے

3000