دفاعی طاقت اور غیر مرئی لشکر

محمد مظہر الاعظمی تعلیم و تربیت

اس دنیائے فانی کے چھوٹے بڑے تمام ممالک اپنی سالانہ آمدنی کا بہت بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ہم دفاعی اعتبار سے اس قدر مضبوط ہوجائیں کہ کوئی ملک کبھی آنکھ دکھانے کی جسارت نہ کرسکے اور اگر کسی نے ایسی کبھی غلطی کر ہی دی تو پھر اس کو وہیں سبق سکھلا کر قلع قمع کر دیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ملک کے پاس اسلحہ سازی کے بڑے بڑے کارخانے ہوتے ہیں وہ میزائل بھی بناتے ہیں اور میزائل شکن بھی کیوں کہ ہرایک کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ جس طرح ہم میزائل سے حملہ کرتے ہیں یا کرسکتے ہیں ویسے ہی اگلا بھی حملہ کرسکتا ہے اس لیے میزائل شکن بھی ضروری ہے۔ جس ملک کے پاس اسلحہ کی تیاری جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اپنے ملک کو اتنا ہی مضبوط سمجھتا ہے اور سینہ چوڑا کیے دنیا میں دندناتا پھرتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ میرا کوئی کچھ نہیں کرسکتا یہ اسلحے دفاع اور پھر حملہ ہونے کے لیے کافی ہیں۔
دنیا کے تمام بڑے بڑے ممالک جو اسلحہ سازی میں خودکفیل ہی نہیں ہیں بلکہ اسلحہ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ اور سپلائر تھے، انھیں یہ غرور تھا کہ کسی بھی حملہ آور کے حملہ سے پہلے ہی اسے زیروزبر کردیں گے، اور ان ممالک کو وہ چاہے جہاں کہیں بھی ہوں ہیروشیما بنانے میں دیر نہیں لگے گی۔ مگر ان کےتمام اسلحے ایک غیر مرئی فوج کے مقابلے میں ناکام ہوگئے اور وہ اب صرف لاشیں گن ر ہے ہیں۔ بلکہ اب گننا بھی دشوار ہوگیا ہے اس لیے ان کو خود اپنے ملک میں مرنے والوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے۔
دنیا کے وہ ممالک جن کو اپنی طاقت و توانائی اور دفاعی قوت پر ناز ہوچکا تھا جو ہر وقت اپنے خفیہ ذرائع کو استعمال کرکے مختلف ملکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں کردیتے اور پھر انھیں اپنا اسلحہ فروخت کرتے، نئی نئی منڈی بناتے اور پھر سب کے بعد ثالثی کے فرائض انجام دیتے ہیں، قدرت نے ان ممالک کو غیر مرئی اور نادیدہ لشکر بھیج کر شکست فاش دیا تاکہ ان کے اوپر طاقت و توانائی اور قوت و اسلحہ کا جو نشہ ہے اترے اور وہ عقل کے ناخن لیں اور اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ جب قدرت کو جلال آئے گا تو گزشتہ اقوام عالم کی طرح قصہ پارینہ بننے میں دیر نہیں لگے گی اور مستقبل کا مورخ ان کی تمام تردفاعی توانائی اور طاقت کا ذکر کرنے کے بعد لکھے گا کہ جن حکمرانوں کو بڑا ناز تھا، بڑا غرور تھا اور جو ہر وقت دنیا کو سبق سکھانے کی بات کرتے تھے وہ اس قدر مجبور ولاچار ہوئے کہ ان کا اپنا ہاتھ بھی دشمن دکھلائی دینے لگا جس ہاتھ سے وہ اپنے کو چھونے سے ڈرتے تھے۔ تمام اسلحے اور فوجیں منہ دیکھتی رہ گئیں اور اللہ تعالیٰ کی فوج جنودا لم تروها (التوبة 26) ایسی فوج جسے تم نہیں دیکھ سکتے، نے انھیں تاریخ عالم کا حصہ بنایا تاکہ دنیا ان سے عبرت حاصل کرے اور ان کا انجام دیکھ کر سنبھل جائے۔

آپ کے تبصرے

3000