تمنا نہیں وصل کی کچھ مفید
سعادت یہی ہے کہ حاصل ہے دید
بکے دل ہمارا نہیں کچھ بعید
تری ایک مسکان اس کی خرید
فضا ہے معطر، معنبر ہوا
بہاریں ہیں آمد کی، تیری نوید
شب و روز، شام و سحر تجھ کو ہم
لگے پڑھنے مثل کلامِ مجید
نہ شوال میں رُخ ترا ہو طلوع
تو روشن ہو کیسے یہ عید سعید
ہیں الجھے ہوئے سب کنایاتِ دل
تو ان مشکلوں کی ہے شاہ کلید
تری ہر ادا سے ٹپکتا خمار
ہے بنت العنب بھی تجھی سے کشید
یہ غمزہ طرازی، یہ عشوہ گری
ہوئے کتنے اس کے مقابل شہید
بنوں گا میں کاشف ترے پردے کا
نہیں مجھ کو پروائے وعد و وعید
آپ کے تبصرے