موجودہ ہندوستان میں کرنے کا ایک اہم کام

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی سیاسیات

ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں کے ساتھ اور مقدسات اسلام کے تئیں نفرت کا مظاہرہ اور اس کے مظاہر کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔
فرقہ پرستوں کے سیاسی عروج نے ملک کے طول و عرض میں شرپسندوں کو *پہلے کھلی چھوٹ اور پھر کلین چٹ* کا کھیل کھیلنے کا موقعہ دے رکھا ہے، یہ صورت حال تشویشناک ہے اور ہماری طرف سے دوررس نتائج کی حامل حکمت عملی پر مبنی کردار کا تقاضہ کرتی ہے، سردست ایک اہم پہلو کی طرف توجہ مبذول کروانی ہے۔

فرقہ پرستوں نے میڈیا،پولیس، سرکاری اداروں اور سب سے بڑھ کر عدلیہ تک کو زہرآلود کردیا ہے جس کی وجہ سے حق و انصاف کا ملنا تو دور مظلوم خود کو مظلوم منوالے تو بڑی کامیابی معلوم ہوتی ہے۔
ان حالات میں مایوس ہوکر بیٹھ جانا اور ہمت ہارجانا کمزوروں کا طرز عمل ہے اور ظالم کو بڑھاوا دینے اور اسے کھل کھیلنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے، ایک طویل مدتی اور ہمہ گیر حکمت عملی وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے جس کا ایک اہم باب یہ بھی ہے کہ حالات لاکھ مخالف اور مخدوش سہی مگر *میسَّر امکانات کا صحیح اور بھرپور استعمال کیا جائے* ۔

بالخصوص وہ حادثات جن میں ایک یا چند افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہو جیسے موب لنچنگ یا ٹارگیٹ کلنگ وغیرہ یا وہ شرارتیں جو افراد کی طرف سے انجام دی جاتی ہوں جیسے بھڑکاو بیان یا مقدسات اسلام کی توہین وغیرہ اس میں ایک حکمت عملی اپنائی جائے۔

دیکھا یہ جاتا ہے کہ ایسے واقعات میں لوگ اکثر یا تو خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں یا خود کو بے بس تصور کرلیتے ہیں یا کبھی احتجاج کی راہ اپناتے ہیں، اب تک تو دیکھا یہی گیا ہے کہ اس طرز کی کاروائیاں حصول مقصود میں ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔

حالات اور امکانات کا جائزہ لیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ان حالات میں ایک حکمتِ عملی اپنائی جاسکتی ہے اور ایک مؤثر کاروائی کی جاسکتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ جب کبھی ایسے افراد سے متعلق حادثات یا شرارت پر مبنی واقعات پیش آئیں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی راہ اپنائی جائے جو محض شکایت درج کروانے (کمپلینٹ کرنے) تک محدود نہ رہے ، بلکہ ہر علاقہ میں قانونی ماہرین کی مدد سے واقعاتی شواہد کی روشنی میں فی الفور تعزیرات ہند کی مناسب دفعات کا تعین ہو اور انہی دفعات کے مطابق کیس درج کروایا جائے، محض احتجاج سے اپنے غم و غصے کا اظہار تو ہوتا ہے مگر سامنے والے کا کچھ نہیں بگڑتا ۔ اور مختصر سے وقفہ کے بعد ایسے لوگ پھر سے یا نئے لوگ پھر اسی راستے سے اپنے مقاصد کی تکمیل کی آرزو لئے میدان میں نمودار ہوجاتے ہیں ۔

دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہم لوگ اکثر احتجاج یا گرفتاری پر خوش ہو جاتے ہیں ، جبکہ اصل کام اس کے بعد ہے ، پولیس میں شکایت کے وقت تعزیرات ہند کی مناسب دفعات لگوانا پھر مناسب وکیل کی تعیین اور کیس کی پیروی کرنا اور اس پوری کاروائی کو اخیر تک میڈیا میں زندہ رکھنا اور انصاف کے حصول تک کوشش جاری رکھنا – چاہے بعض اہم معاملات میں نچلی عدالت کے بعد اونچی عدالت تک جانا پڑے- اور ان سب میں علاقہ کے با اثر غیر مسلم حضرات کو اور مسلم سیاستدانوں کو ساتھ رکھ کر ان کے تعلقات اور اثر و رسوخ کا استعمال کرنا انتہائی اہم ہے، نتیجہ حسب توقع نہ بھی آئے تب بھی یہ پیغام مخالف تک جائیگا کہ یہاں سستے نہیں چھوٹیں گے ۔۔۔

ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھڑکاو بیان دینے یا مقدسات اسلام کی توہین کرنےوالوں کے خلاف متعدد مقامات کے لوگ الگ الگ مقام پر اسی طرز پر کیس کریں تاکہ ہرجگہ کے مسلمان کو تکلیف دینے والا دھکے بھی اتنی ہی جگہ کے کھائے ۔
ایسے کسی بھی مجرم کو صرف پولیس اسٹیشن تک پہونچا کر مطمئن ہوجانا ہماری خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں بلکہ الٹا اس کی مدد ہے کیونکہ اسے پولیس کا تحفظ مل جاتا ہے، پولیس کے حوالے کرکے بس کرلینا اور معاملہ کو انجام تک پہونچانے کی فکر نہ کرنا ہماری کمزوری ہے ، کیونکہ اس کے بعد بھی معاملہ کے انجام تک پہونچنے کے لئے کئی مراحل طے کرنے ہوتے ہیں،جن میں سے ہر مرحلہ میں کرپشن کے سہارے یا اپنے بہی خواہوں کے سہارے بچ نکلنا ملک کے موجودہ نظام میں بہت آسان ہے۔

اس سلسلے میں مزید ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ یہ کاروائی کسی بھی مسلم یا سیکیولر سیاسی پارٹی کی طرف سے نہ ہو ، اس کی حیثیت عوامی رد عمل کی ہو ، اور ہرجگہ علاقائی سطح پر مسلم انجمن یا ان جیسے خالص غیر سیاسی ادارے یا علاقہ کے بااثر غیر سیاسی افراد نمائندگی کریں۔ سیاسی تنظیموں اور افراد کی اپنی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے مخصوص دائرے ہی میں کام کرسکتے ہیں اور دوسری طرف ان سیاسی پارٹیوں یا افراد کے وجود کی وجہ سے انتظامیہ و حکومت کو معاملات کو الجھادینے اور دوسرا رخ دینے کا موقعہ بھی ہاتھ لگ جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ ملک میں مسلمان ایسے نہ رہیں کہ شہرت کا ہر بھوکا آپ کو تر نوالہ سمجھے بلکہ ایسی غلطی کرنے والے کے حلق کا کانٹا بن جائیں ۔ تبھی نفرت کے ان سوداگروں کے بازار ٹھپ پڑیں گے ، طالع آزماوں کی شرارتیں گھٹیں گی اور فرقہ پرستی کے عروج کے اس دور میں سیاسی پہچان بنانے یا سیاسی مقاصد کی تکمیل کے یہ چور دروازے بند ہوں گے ۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
شیخ عبدالرحمن عمری

ما شاء الله…یہ حکمت عملیاں مسلم قوم کے حق میں کافی بہترثابت ہو سکتی ہے،

سید عبداللّٰه بن أسد

ماشاء اللّٰه بہت عمدہ تحریر ہے اللّٰه جزائے خیر عطاء فرمائیں

محمد صديق عمری

Allah Shaikh ki hifazat Kare aapki aawaz ko kamiyab banaye ameen