بیاد شیخ عبد المنان سلفی رحمہ اللہ

شعبان بیدار شعروسخن

جب بھی کوئی چیز میں دیکھوں
خواب کی رت میں کھوجاتا ہوں
بوند بوند احساس کا میرے
غم کی تپش میں اڑ جاتا ہے
بے موسم ہر شئے ہوتی ہے
ہر لمحہ دیوانہ سا ہے

آنکھوں میں پہرا جیسا ہے
دور دور تک کھیتوں میں
باغوں کے شاداب گھنے
آباد درختوں کے جالوں میں
جنگل کے سناٹوں میں
ٹھنڈ کا اک کہرا جیسا ہے
برق تبسم روٹھ گئی ہے
بدلی دل کے سرخ کینوس پر پاگل سی
کالی کالی گھوم رہی ہے
من کا سرخ توانا سورج اندر اندر ڈوب رہا ہے
کرنیں وحشت کی راہوں میں مردہ ہو ہو جاتی ہیں
یخ ایسی ہے رنگ فضا میں
سورج کا بیتاب لہو بھی
لیٹا بیٹھا رہتا ہے
لان میں بیٹھے بوڑھے جیسا
رہ رہ کر وہ کھانس رہا ہے
بدلی کا وہ زور ہے قائم
سانسیں رک رک سی جاتی ہیں
سورج من کا ڈوب رہا ہے
اک تیرا جانا بھی آخر کیسا جانا تھا جان جاں
سورج من کا راکھ ہوا ہے
موت پہ اک غصہ سا آیا
تھر تھر اب تک کانپ رہا ہوں
تاریکی میں جگنو جیسا
ہاتھ کسی کا یوں بڑھتا ہے
جیسے چاند یکایک جھٹکے دے کر
بادل سے جھٹ نکلے
نور کا اک دریا سا پھوٹا
امیدوں کے دیے جلے وہ
پانی چم چم چمک رہا تھا
مچھلی جل میں تیر رہی تھی
ندی کنارے بیٹھے بگلے
ہنس کے جوڑے
بطخ کے بچے
پھدک رہے تھے چہک رہے تھے
پھول کی ڈالی لٹک رہی تھی
کلیاں کھل کر مہک رہی تھیں
تھوڑا سا حیران ہوا میں
آوازوں کی لہریں اٹھیں
پتہ پتہ بول رہا تھا
پانی کے چھل چھل سے نغمہ
سندر سندر پھوٹ رہا تھا
پیارے یہ تو ہوتا ہی ہے
پھول کھلے مرجھا جاتے ہیں
بگلے باز کو بھا جاتے ہیں
شیر ہرن کو کھاجاتا ہے
دنیا کا دستور ہے پیارے
مجھ سے پہلے بڑے بڑے علماء اٹھے ہیں
میں بھی ان کے غم میں کھویا
لیکن میں نے آنسو بوئے
عزم کے آنسو
ہمت کی زرخیز زمیں میں
تم بھی یہ سب رونا دھونا
کھونا پانا بند کرو تو
منزل تم کو بلا رہی ہے چلو ذرا تو
نوحہ کرنا
غم کی سلگی سلگی سی تحریروں کی یوں لاش بچھانا
بیٹے میرے ٹھیک نہیں ہے
منزل تم کو بلا رہی ہے چلو ذرا سا
ہمت کرکے دیکھو بیٹا
تم بھی قائد ہوسکتے ہو

آپ کے تبصرے

3000