بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی عقائد

(سلمان ندوی کی رافضی فکر کا تدریجی ارتقا)
’’ منافق، صحابی نہیں ہے اورجن کو صحابی شمار کیا گیا وہ منافقین میں سے نہیں ہیں‘‘
یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے جو ایمان والوں میں سے دیہات کی بڑھیا بھی سمجھتی ہے اور وقت کا علامہ بھی جس نے صحابہ کی بابت آیات، احادیث اور تاریخی روایات کے تمام پہلووں کا احاطہ کیا ہو۔
بڑھیا سے علامہ تک یہ سفر دراصل فطری سادگی سے تحقیق کے کمال تک کا سفر ہے۔ اوراس مسافت کو طے کرنے والا جس بات کوابتداء ًا محض ایک شرعی حکم کی حیثیت سے تسلیم کرکے شروعات کرتا ہے تحقیق کے بعد اسی حقیقت کو ایک تاریخی وعلمی سچائی کے طور پر قبول کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ اس راہ پر چلے توحق کے لیے تجرد، تحقیق، انصاف اور طبیعت کی عاجزی اس کے اندر بدرجہ أتم موجود ہو اورساتھ ہی تلاشِ حق کا اور خود کے اور امت کے لیے خیرخواہی کا جذبہ ساتھ رکھتا ہو۔ کیونکہ ہدایت کے اس راستہ پر چلنے والے کے لیے سنگ میل کے طور پر قدم بہ قدم علم وتقوی کے پیکر سلف صالحین کے اقوال رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور ان کی فہم وفراست کے دو رویہ جلتے چراغ راستے کی حدود کو روشن رکھے ہوئے ہیں اور ہر راہی کو یہ بتلارہے ہیں کہ اس راہ چلنے کے آداب کیا ہیں۔وہ راہ جس کے حدود وآداب نبیﷺ کے سکھلائے بتلائے ہوئے ہیں اور جس کے بارے میں زبان رسالت مآب گویا ہے:ترکتکم علی المحجۃ البیضاء لیلھا کنھار ھا لا یزیغ عنھا إلا ھالک[مسند أحمد/ابن ماجہ](میں نے تمھیں روشن شاہراہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن ہے، اس راہ سے وہی ہٹے گا جو ہلاک ہونے والاہے)
جب آدمی اس روشن شاہراہ کو چھوڑکر ایران و توران سے ہوکر گزرنا چاہے جہاں بھول بھلیوں میں بھٹکنے والے اس بھٹکنے کو بھی اپنی تاریخی و علمی دریافت سمجھتے ہیں تو پھر ایسا راہی خود کے لیے اور دوسروں کے لیے ایک نئی راہ تو دریافت کرلیتا ہے مگر شاہراہ ہدایت پر اس کا بامقصد سفر ادھورا رہ جاتا ہے، پھر وہ کسی اور ہی راستے کے مسافر ہوتے ہیں اور کوئی اور ہی ٹھکانہ ان کی منزل بنتی ہے ۔
سلمان ندوی صاحب کی شخصیت اس وقت ملک کی دینی شخصیات میں سے سب سے زیادہ متنازعہ شخصیت بن گئی ہے۔سلمان صاحب کے چاہنے والوں کے پاس ان کو چاہنے کے متعدد اسباب ہیں تو ان کو ناپسند کرنے والے اور ان سے اختلاف رکھنے والوں کے پاس بھی متعدداور معقول وجوہات ہیں۔ اور رہی سہی کمی وہ خود آئے دن نت نئے اسباب پیدا کرکے فراہم کرتے جاتے ہیں۔حالیہ دنوں میں شایداپنی افتاد طبع سے مغلوب تھے یا اپنے متبعین کے حلقے کو وسیع کرنے کا جذبہ تھا یا اپنے معتقدین کی اندھ بھکتی کا یقین کہ وہ’’منافق صحابہ ‘‘کے عنوان سے اپنی فکری جدت اور عقدی بدعت کا اعلان کرنے میں سرگرم نظرآرہے ہیں اور اس طرح حرم سے دَیر کی اور مکہ سے طہران کی اور عرب سے فارس کی جانب رخ کیا ہوا ہے۔
سلمان ندوی صاحب دَیر وحرم دونوں کے راستوں سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے تقاضوں سے بھی، مگر جب خو ہی یہ ٹھہری کہ؎

ہم پیروی قیس نہ فرہاد کریں گے

اک طرز جنوں اور ہی ایجاد کریں گے

تو پھر وہ سلمان ندوی ہی کیا جو ہنگامہ کھڑا کیے بنا مان جائے؟جن کا منتر ہی یہ ہے؎

جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

انسانی لہو منہ لگ جائے تو پھر درندہ بھی صرف درندہ نہیں رہ جاتا بلکہ وہ آدم خور درندہ بن جاتا ہے پھر اس کا وجود جنگل میں بھی ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ سلمان صاحب کے منہ صحابہ کا خون لگ گیا ہے اور وہ ’’صحابی خور‘‘بن کر خوار ہونے کی راہ پر چل نکلے ہیں، اگر توبہ کی توفیق نہ ملے تو بہت جلد زبان رسالت مآب سے نکلی یہ پھٹکاربھی ان کا مقدربن سکتی ہے:من سب أصحابي فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس أجمعین[السنۃ لابن أبی عاصم :۲:۴۸۳ وحسنہ الألباني](جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے)
سلمان ندوی صاحب نے گزشتہ چند سالوں سے ندوہ اور سعودی عرب کے خلاف جو محاذ جنگ کھول رکھا ہے اس میں اس حد تک غلو کا شکار ہوچکے ہیں کہ اب اس محاذ سے اپنا اور اپنے معتقدین کا بہت کچھ داو پر لگا دیا ہے۔ ان کا یہ’’سیاسی‘‘ سفر کب ان کے’’عقیدہ‘‘ کا معاملہ بن گیا شاید انھیں بھی احساس نہیں ہے،سلمان صاحب کے ندوہ یا سعودی عرب مخالف موقف کی تائید وتردید سے صرف نظر یہ بالکل ہی الگ دنیا ہے جو سلمان صاحب آباد کرنے میں لگے ہیں، اس نئے سفر کی ابتدا صحابہ کی تعریف کے سلسلے میں اپنی شاذ آراء سے کی،پھر بنوامیہ کے رمزکی آڑ لے کربعض صحابہ پر ہمز ولمز کی طرف منتقل ہوئے، پھر خال المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’جناب معاویہ‘‘ کہنے تک آئے، پھر ان کے اور ان کے ساتھی صحابہ کے لیے باغی گروہ کے استعارہ سے کام چلایا، پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اورآپ کے ساتھیوں کو صراحتا باغی اور دشمن آل بیت قراردیا،پھر بعض صحابہ کے لیے ظالم،باغی، طاغی، مجرم اورحکومت کے لالچی جیسے قبیح القاب استعمال کیے، پھر آگے بڑھ کر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کادرباری مولوی اور کتمانِ علم کے عظیم جرم کا مجرم گردانا، پھر روافض کی طرح صرف بعض ان صحا بہ کا نام لے کر جو روافض کے حلقے میں محبانِ آل بیت سمجھے جاتے ہیں اشاروں کنایوں میں بقیہ صحابہ کوبزعم خویش آل بیت کے مد مقابل گروہ میں شامل کیا اور خود کو اور اپنے متبعین کو ان بعض صحابہ کی روایت کا امین قرار دیا اور پھر بالآخر رافضیت کا یہ سفر اپنی منزل کو یوں پہنچا کہ خود کو رافضی عقیدہ کے مطابق مہدی منتظر کے کردار کا حامل اور ان کے لیے میدان ہموار کرنے والا قرار دیا اور اس ’’شقاوت‘‘پر سرشاری اور رب کے حضور شکرگزاری کرنے لگے۔
سلمان ندوی صاحب نے صحابہ کرام کی بابت تحقیق یا تاریخی حقائق کے نام پراب تک جو کچھ پیش کیا ہے اس کا خلاصہ اور اس کی حقیقت درج ذیل ہے:
پہلی حقیقت:
آل بیت رسول سے عقیدت اور محبت کے نام پرپہلے پہل سارے بنو امیہ کو ناصبی قراردینا مگر بتدریج بنوامیہ کے استعارے سے آگے بڑھ کربعض صحابہ کوناموں کی صراحت کے ساتھ نشانہ پر لینا اور پھر آل بیت سے محبت کے لیے ان بعض صحابہ سے برأت کو لازمی قرار دینا۔
یہ طریقہ اہل سنت کا نہیں رہا ہے۔اس روش کا انجام پہلے سے طے ہے اور وہ ہے معدودے چند صحابہ کرام کے علاوہ تمام پر تبرا کرنا جو کہ اس رافضی اصول کا مظہرہے (لا یتم الولاء إلا بالبراء) یعنی اہل بیت سے عقیدت ومحبت اورتعلق کی لازمی شرط یہ ہے کہ ان کے مزعومہ مخالفین یعنی بعض یا کل صحابہ سے برأت کا اظہار کیا جائے ۔ اہل سنت کی نظر میں یہ آغاز ہی غلط ہے،یہ طرز فکر ہی غلط اور خلاف واقعہ ہے۔ اہل سنت،دشمنانِ آل بیت نواصب سے برأ ت کا اظہارکرتے ہیں لیکن یہ بھی مانتے ہیں کہ ایک بھی صحابی ناصبی تو کجا، آل بیت رسولﷺ میں سے کسی سے آل بیت رسول کی حیثیت سے کسی قسم کی رنجش یا کد کو دل میں رکھنے والے نہیں تھے اور ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اہل سنت کے نزدیک خاندان بنوامیہ کے تمام افراد کو نواصب قراردینا بھی ظلم اور خلاف واقعہ ہے،یہ روافض کی ہمنوائی ہے۔
دوسری حقیقت:
نبیﷺکے اصحاب اور ابتدائی دور کے مسلمانوں کو آل بیت اور اصحاب رسول کے نام سے دو فریق شمار کرنا اور پھر آل بیت اور بعض صحابہ کودوستی اور دشمنی کے اصول پر ایک دوسرے کا مد مقابل قرار دینا،جبکہ اہل سنت کے تمام متقدم اہل علم کے نزدیک اس قسم کی تقسیم بے بنیاد ہے، اہل سنت کی نظر میں تاریخ کی یہ اہم سچائی ہے کہ آل بیت واصحاب رسول باہم شیر وشکر تھے، ایک دوسر ے کے قدردان تھے،ایک دوسرے سے علم اور دین لینے دینے والے،ایک دوسرے کے گھر بیٹی لینے دینے کا تعلق برقرار رکھنے والے اور ایک دوسرے کے خاندان کے محترم ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھنے والے تھے ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اہل بیت کے خصوصی فضائل کے باوجود ایسی کسی تقسیم کے قائل نہ تھے، جس طرح خود صحابہ کرام کے درمیان باہم بعض فقہی مسائل میں اختلاف ہوا اسی طرح بعض اہل بیت اور بعض صحابہ کے درمیان بھی ہوا، لیکن ان کے فقہی یا سیاسی اختلاف کی نوعیت نہ تو اہل بیت بمقابلہ صحابہ کی تھی نہ اس اختلاف کو وہ خود کفرو ایمان یا ہدایت و گمراہی کا معیار اور پیمانہ سمجھتے تھے۔ جنگ جمل وصفین سمیت ان کے آپسی اختلاف کو صحابہ بمقابلہ آل بیت رسول کا بیانیہ دینا خالص شیعی ورافضی بیانیہ ہے، اہل سنت کے معتبر اہل علم میں سے کسی کا یہ بیانیہ نہیں ہے۔
تیسری حقیقت:
جنگ جمل وصفین میں اختلاف کی بنیاد ایک سیاسی مسئلہ میں اختلاف رائے پر تھی اور وہ مسئلہ قاتلین ِعثمان سے بدلہ لینے کا معاملہ تھا۔ان جنگوں میں طرفین کی جانب سے شرکت کرنے والے نمایاں صحابہ یا توزبان رسالت مآب ﷺ پر جنت کی بشارت پائے ہوئے تھے یا ہدایت یا فتہ ہونے کی، لہذا اس اختلاف کو اختلاف سمجھا گیا مگرخود طرفین نے اس سیاسی اختلاف کو امامت اور خلافت کے مسئلہ میں اختلاف سے تعبیر نہیں کیا،نہ ہی خلافت بمقابلہ ملوکیت کا کوئی تصور ان جنگوں میں کارفرماتھا ، بنا بریں اہل سنت کے معتبر علماء کے نزدیک یہ معاملہ حکومت و اقتدار کے حصول کے لیے جنگ کا نہیں تھااور نہ آل بیت یا ان میں سے کسی ایک کی امامت کے خلاف بغاوت کامسئلہ تھااور نہ ہی اہل سنت نے ان جنگوں کے مسئلہ کو حب آل بیت کا معیار قرار دیا ہے جیسا کہ سلمان صاحب باور کروانا چاہتے ہیں۔
مزید یہ بھی کہ ان جنگوں کو اور ان میں شریک افراد کے باہم اختلاف اور رد وقدح کواصل دین کے درجے میں رکھنا اور اسے’’مولی علی کی امامت ‘‘کے نام پر’’اصل دین‘‘کے درجہ میں گرداننا دراصل رافضی عقیدہ امامت کی کرشمہ سازی ہے ۔ سلمان ندوی صاحب نے کہیں نہ کہیں اسی ذہن کو اپنایا ہوا ہے ،جب آل بیت رسول کی محبت کے نام پر جنگ صفین کی رافضی تعبیر وتفسیر کوقبول کرلیا اور صفین کے شرکاء پر تبرا کے مرحلہ تک پہنچ گئے تو پھردو قدم آگے بڑھ کراب خلافت راشدہ کے سلسلے میں بھی ڈھکے چھپے ہی نہیں بلکہ بعض تحریروں میں صراحتا ’’امامت علی‘‘ کی وکالت کرنے والا موقف اپنا یا ہوا ہے۔ اب تو یوں لگتا ہے دل کی بات زبان پر آ آکے رک جاتی ہے، جیسے دل چاہتاہو کہ کہہ دو مگر دماغ سمجھاتا ہو کہ ذرااور سنبھل کربتدریج آگے بڑھو۔
چوتھی حقیقت:
یہ صریح مغالطہ انگیزی ہے کہ حب آل بیت کے نام پر سلمان صاحب آج جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ان کی اپنی نئی تحقیق یا دریافت ہے جو خالص علمی اور تاریخی ہے جبکہ ان کے ان افکار،حوالہ جات سے لے کر پیش کردہ مزاعم و نتائج تک سب کچھ چبائے ہوئے رافضی نوالے ہیں، اس میں تحقیق اور جدت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
پانچویں حقیقت:
مشاجرات صحابہ کے سلسلے میں سکوت اختیار کرنے اور اپنی زبان وقلم ہی کو نہیں دل ودماغ کو بھی قابومیں رکھنے کو اہل سنت نے ایک مجمع علیہ اصول قراردیا ہے،یہ خالص علمی وشرعی دلائل پر مبنی اصول ہے اور اس کے پیش نظر کئی مصلحتیں ہیں جن کا تعلق صحابہ کی شخصیات سے زیادہ دین سے ہے اور بعد میں آنے والے مسلمانوں کے دین وایمان کے تحفظ سے ہے۔ تاہم سلمان صاحب نے مشاجرات صحابہ سے متعلق تاریخی حوالوں کا ذکر کر کے یہ تاثردینے کی کوشش کی بلکہ دعوی کیا ہے کہ یہ علمی حقائق ہیں جو خود اہل سنت کی کتابوں میں مذکور ہیں جنھیں علماء اہل سنت نے عوام اہل سنت سے چھپایا ہے، جیسے کوئی بہت بڑا جرم ہوگیا ہو جس کی پردہ پوشی کی خاطر اہل سنت نے مشاجرات صحابہ کے موضوع پر گفتگو کو ممنوع قراردیا ہو۔
اہل سنت نے مشاجرات صحابہ کے موضوع پر گفتگو کئی وجوہات سے ممنوع قرار دی تھی، جیسے:
(۱)اس موضوع کی حیثیت دین کے بنیادی مسائل کی نہیں ہے ۔
(۲)ایک مسلمان کی روز مرہ کی زندگی میں درپیش دینی ودنیوی ضرورتوں کا ان مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
(۳)یہ ان مسائل میں سے نہیں ہے جن کا جاننا ہر مسلمان پر واجب ہے ۔
(۴)ان مسائل میں ایک طرف تاریخی روایتوں میں سے مستند اور غیر مستند روایتوں میں تمیز کرنے کی قابلیت چاہیے جو عوام تو عوام بہت سارے پڑھے لکھے لوگوں میں نہیں ہوتی ۔
(۵)دوسری طرف صحابہ کرام کا وہ کردارجو قرآن وسنت میں بیان ہوا ہے تاریخی روایتوں کی بنیاد پر اگر کوئی اس کردار پر سوالیہ نشان لگاتا ہے تو پھر بالواسطہ طور پر قرآن وسنت کی باتوں پر سوال اٹھاتا ہے۔
(۶)مزید یہ بھی کہ ایک عام انسان بلکہ طالب علم طرفین میں سے کسی ایک کی تصویب کا مطلب یہی سمجھتا ہے کہ دوسرے کی تنقیص کی جائے جبکہ راسخین فی العلم اہل علم کے نزدیک اس مسئلہ میں ایک کی تصویب کا دوسرے کی تنقیص سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
(۷)اور سب سے بڑھ کر اس موضوع میں حکم اور فیصل یا قاضی بن کر داخل ہونے کے لیے علم کی جو گہرائی وگیرائی،فکر ونظر کی جو راستی اور تقوی وللہیت مطلوب ہے فی زمانہ وہ اکثر ان لوگوں کے اندر ناپید ہے جو اس موضوع پر بات کرتے ہیں ۔
(۸)ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو بات صفین والوں کے متعلق کہی جائے گی وہی بات جمل والے صحابہ تک بھی جائے گی جن میں سے کئی ایک زبان رسالت مآب کے ذریعے جنتی ہونے کی ضمانت پاچکے ہیں ، اور بعید نہیں کہ یہی بات پھر أبوبکر وعمر تک بھی جائے۔
(۹)صفین وجمل سے ہونے والی شروعات درمیان میں نہیں رکے گی، وہ اپنی کجی کے باوجود اپنا منطقی سفر جاری رکھے گی اور بالواسطہ طور پر نبی ﷺ تک بات جائے گی کہ تھے تو وہ انھی کے ساتھی اور انھی کے پروردہ ۔
(۱۰)ایک وجہ یہ بھی کہ صحابہ و آل بیت دونوں سے محبت اور ان میں اعتدال اور توازن اہل سنت کا طرہ امتیاز ہے،عوام یا مبتدی طلبہ جب ناکافی علم یا فکری کجی کے ساتھ اس باب میں داخل ہوں گے تو وہ لوگ یا تو شرف صحبت کو یا پھرنبی ﷺکی خاندانی نسبت کو داغدار کریں گے۔ یہ اور ان جیسی اور کئی مصلحتیں اہل سنت کے پیش نظر تھیں، سلمان ندوی صاحب نے ان تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ مشاجرات صحابہ کے موضوع پر گفتگو کرنے سے منع کرکے علماء اہل سنت نے گویا کسی جرم کی پردہ پوشی کی ناکام کوشش کی ہے، اہل سنت عوام کو دھوکہ دیا ہے اور سلمان صاحب نے آل بیت کے طرفدار اور حق وانصاف کے علمبردار کی حیثیت سے اہل سنت کی اس خیانت کو طشت ازبام کیا ہے۔
چھٹی حقیقت:
تاریخی روایات کے سلسلے میں سلمان ندوی صاحب نے وہی طریقہ اپنا یا ہے جو اہل بدعت کی پہچان رہا ہے:
(۱)صحابہ کے کردارکے سلسلے میں قرآن وسنت میں آئی عمومی وخصوصی یااجتماعی وانفرادی شہادتوں کو یکسر نظر انداز کردینا اور تاریخی روایات کو مکرر یوں پیش کرناجیسے ان کے کردار کے سلسلے میں بس یہی کچھ حوالے ہیں۔
(۲)طرفہ تماشہ یہ کہ ’’منافق صحابہ ‘‘کے نام سے ان تاریخی حوالوں کو قرآن کی تفسیر کے طور پر کچھ اس طرح بیان کرنا کہ قرآن وسنت میں وارد صحابہ کا کردار کہیں دب جائے اور ان تاریخی روایتوں کی روشنی میں بیان کیا جانے والا کردار ہی سب سے بڑی سچائی بن جائے بلکہ قرآن وسنت کی گواہی بن جائے،قرآن وسنت کی حقیقی گواہی کہیں دب جائے اور تاریخ ہی بنیادی مرجع بن جائے۔ یہ طریقہ شیعوں کا ہے جو ہمیشہ یعقوبی اور مسعودی کے حوالے دیتے ہیں اور انھی کے سہارے اپنی بات رکھتے ہیں، اہل سنت تاریخ یا اس کے حوالوں پر مستند احادیث اور قرآنی آیات کو مقدم رکھتے ہیں۔
(۳)حوالے کے طور پر پیش کی گئی تاریخی روایتوں میں مستند اور غیر مستند کا فرق بالکل نہیں کیا ہے، صرف اہل سنت کے مؤرخین کے نام کو ان کے مستند ہونے کا حوالہ باور کروایا ہے جبکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اہل سنت کے مؤرخین نے کتب تاریخ میں بہت ساری روایتیں ایسی بھی نقل کی ہیں جن کے وہ خود اقراری نہیں ہیں، صرف یہ بتانے کے لیے نقل کی ہیں کہ اس سلسلے میں یہ روایات بھی وارد ہیں اور پھر ان کی استنادی حیثیت کے سلسلے میں پیش کردہ سند کو کافی سمجھ لیا ہے۔ اس سلسلے میں اہل علم کے درمیان یہ اصول مذکور ہے: ’’من أسند فقد أحال ومن أسند فقد برئت ذمتہ‘‘(جس نے سند ذکر کردی وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہوگیا) اب ذمہ داری اس قاری پر ہے جو ان حوالوں کو پڑھتا ہے،اب اگر کوئی اپنے قصورِ علم کواس مؤرخ کے سر ڈال دے تو اسے کیا کہیں گے؟
(۴)روایتوں میں سے صرف چند ایسی روایتوں کو لیا جوان کے خود ساختہ مفہوم کی تائید کریں جبکہ دیانت کا تقاضا تھا کہ اگرکرنا ہی تھا تو موضوع سے متعلق تمام طرح کی روایتوں پر محققانہ گفتگو کرتے۔
(۵)اورپھر یہ تاثر دیا کہ پورے چودہ سو سالہ تاریخ میں علماء اہل سنت نے اس حوالے سے امت کو دھوکہ دیا ہے اور حق گوئی سے گریز کیا ہے۔
تفصیل کا موقعہ نہیں تاہم یہ دعوت ضرور ہے کہ سلمان ندوی صاحب نے جن روایتوں کوپیش کیا ہے قارئین اور سلمان صاحب کے سامعین معتبر اہل سنت کی کتابوں میں ان کی تحقیق اور وضاحت کے سلسلے میں کیا کچھ لکھا گیا ہے ایک نظر ضرور ڈال لیں، ویسے بھی یکطرفہ بات سن کر فیصلہ کرنے سے نبیﷺنے منع فرمایا ہے جس کوخود علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے روایت فرمایا ہے:
إذا تقاضی إلیک رجلان فلا تقض للأول حتی تسمع کلام الآخر فسوف تدري کیف تقضي قال علي فمازلت قاضیا بعد
[مسند أحمد وترمذي- حسنہ الألباني]
(جاری)

آپ کے تبصرے

3000