بڑوں کو برا مت بناؤ!

ذکی نور عظیم ندوی تعلیم و تربیت

اگر آپ کسی مسئلہ میں دو لوگوں کے درمیان صحیح غلط، حق و باطل کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ میں بڑے اور طاقتور شخص کی غلطی اور زیادتی پر کچھ بولنے کی جرأت نہیں، تو آپ کو صرف کمزوروں کی غلطی بتانے اور نکالنے کا کوئی حق نہیں بلکہ یہ سراسر نا انصافی، کمزوروں پر ظلم وزیادتی اور طاقتور و بڑوں کو مزید برا بنانے کا سبب ہے۔
یہی وہ حرکت اور طریقہ تھا جو اس سے پہلے اللہ اور بہت سے رسولوں کی لعنت کی مستحق قوم یہود کی خصلت بن گئی تھی اور جس کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی نہ صرف سخت مذمت فرمائی تھی بلکہ اللہ نے انھیں ’’افضل العالمین‘‘یعنی کائنات کی سب سے افضل قوم کے منصب سے ہٹا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ’’خیر امت‘‘ کے مقام پر فائز کردیا تھا۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک محترم گھرانے کی خاتون کی چوری کے بعد اس کو درگزر کرنے کی سفارش کے موقع پر فرمایا تھا:
إنَّما أهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ، أنَّهُمْ كَانُوا إذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وإذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أقَامُوا عليه الحَدَّ
(تم سے پہلے کی امتیں اس لیے ہلاک و برباد ہوگئیں کہ ان میں (بظاہر) شریف شخص کوئی غلطی(چوری) کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور غلطی کرتا تو اسے سزا دیتے)[بخاری:۳۴۷۵]
یہ طرز عمل سماج میں اصلاح و بہتری کے بجائے ابتری اور فساد کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور ایسا کرنے والوں کا کردار کبھی کبھی تو اصلی مجرموں سے بھی زیادہ گھناؤنا اور مجرمانہ ہو جاتا ہے۔
اور اسلام نے غلط کرنے والوں کے ساتھ کوئی تفریق نہیں کی بلکہ غلط اور زیادتی کرنے والوں سے لڑنے تک کا حکم دیا ہے:
فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
(اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ جب وہ لوٹ آئے تو دونوں میں مساویانہ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔[الحجرات:۹]
اسی طرح اگر کسی سے چند غلطیاں ہو جائیں تو تمام معاملات میں اسے ہی ملزم قرار دینا اور اسی کی غلطی ماننا اور دوسرے کو بالکل معصوم اور ہر چیز میں ہر طرح بری قرار دینے کی بھی اسلام اجازت نہیں دیتا بلکہ ہر معاملے میں منصفانہ رویہ اور فیصلہ کا پابند بناتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
(اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لیے سچی گواہی دو خواہ تمھارا، تمھارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر ہو تو اللہ ان کا خیر خواہ ہے۔ تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم گواہی میں ہیر پھیر کروگے یا گواہی دینے سے بچنا چاہو گے تو اللہ تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔[النساء:۱۳۵]
یہ ایک حقیقت ہے کہ سماج کے معزز اور محترم افراد کا سماج کی تشکیل اور اس کی اصلاح میں اہم کردار ہوتا ہے۔ لہذا ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ بڑوں کوبرا بننے دیں اور نہ ہی بروں کو بڑا مان کر سماج کے بگاڑ اور فساد کا ذمہ دار بن جائیں۔

آپ کے تبصرے

3000