تہذیب وتمدن کے عروج وزوال کی کہانی
آدھے برس سے زیادہ عرصے سے ساری دنیا لاک ڈاؤن موڈ پر ہے۔ بازاروں میں چہل پہل نہیں۔ دانش گاہوں میں گہما گہمی نہیں۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند ہیں اور عالمی وبا سے بچنے کی تدبیر کررہے ہیں۔ لیکن ایسے ساکت وصامت ماحول میں ہاتھ پر ہاتھ دھرکربیٹھا بھی نہیں جاسکتا۔ The show must go on کے فلسفے کے تحت اس دنیا کو آگے بھی جانا ہے۔چنانچہ اہل علم وفن، مفکر، مدبر اوردانشور حضرات خاص طور سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر اخذ وعطا ، افادے واستفادے اور علمی وادبی، ثقافتی وتمدنی، تعلیمی وتجارتی مصروفیات کو آن لائن جاری رکھ کر کائنات کو بھاری بھرکم خسارے سے بچانے کی پوری تگ ودومیں ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔ادبی سرگرمیاں بھی جاری ہیں اور علمی بھی۔ شعر وسخن کی محفلیں بھی جوان ہیں اور علم وفن کی مجلسیں بھی۔
کورونا سے قبل کی دنیا کی علمی وادبی سرگرمیوں کا ایک اہم جزء مختلف علمی وادبی اکیڈمیوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے زیر اہتمام منعقد کیے جانے والے سیمینار بھی تھے۔یہ سیمینار علاقائی بھی ہوتے تھے۔ ضلعی ، صوبائی ، قومی اور بین الاقوامی بھی۔ لوگ دور دراز کا سفر طے کرکے ، سفر کی مشقتوں کو برداشت کرکے سیمینار پوائنٹ تک پہنچ کر ماہرین کے علم وفن سے استفادہ کرتے تھے۔لیکن لاک ڈاؤن کے بعد سوشل میڈیا پر سیمینار کے مقابل ویبینار کا انعقاد بہت شد ومد اور تزک واحتشام اور کثرت سے ہورہا ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب عالمی سیمینار کے انعقاد میں منتظمین کو پسینے چھوٹ جاتے تھے۔ باہری ممالک سے مندوبین کے ویزوں سے لے کر ان کی آمد ورفت کے اخراجات اوران کے قیام وطعام کا انتظام ایک اہم مسئلہ ہوتا تھا اس لیے عالمی سیمیناروں کی بڑی اہمیت تھی۔ لیکن اب جب کہ ساری دنیا اپنے ہی خول میں مقید ہے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم اس طرح کھل گئے ہیں جیسے کہ ملکوں کی تمام خیالی سرحدوں سے تار کے باڑھ ہٹالیے گئے ہوں۔ دنیا آزاد ہوگئی ہو۔ ملکوں کا آپس میں ملن ہوگیا ہو۔ تہذیبوں کا اختلاط ہوگیا ہو۔ہر آئے دن کسی نہ کسی دانش گاہ، کالج، اکیڈمی کے بینر تلے ویبیناروں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ ہر ویبینار عالمی خصوصیت کا حامل بن گیا ہے۔ ملک سے زیادہ بیرونی ممالک کے ماہرین ان ویبیناروں کو اپنی علمی تازگی سے سرفراز فرمارہے ہیں۔ سینکڑوں بلکہ کئی ایک میں تو ہزاروں ناظرین کی شرکت ہورہی ہے۔ لوگ ان ویبیناروں میں شرکت محض کی اسناد کوبھی فیس بک اور سوشل میڈیا پر شیئر کرکے اپنی علمی پیش رفت سے زمانے کو اس طرح آگاہ کررہے ہیں جیسے انھوں نے اس ویبینار میں شرکت کرکے کوئی تیر مار لیا ہو۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان ویبیناروں کے ذریعے ناظرین وحاضرین کو ایسے ایسے ماہرین کے علم وادب سے استفادے اور ان کی شکل وصورت دیکھنے کا موقع مل رہا ہے جو ماضی قریب میں ابھی ایک خواب تھالیکن اب انھیں لائیوسننے اور دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔بڑے نادر، منفرداوراچھوتے موضوعات پر ویبیناروں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ ان ویبیناروں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے گویا دبستاں کھل گیا ہو۔ نہ نمک نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا ہونا شاید اسی کو کہتے ہیں۔ اپنے ہی ریسٹ روم اور اپنے ہی ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر عالم بالا کی سیر کا موقع مل جائے تو اس سے بہتر اور کیا بات ہوسکتی ہے۔ سبحان اللہ! یہ شرکت کا صدر دروازہ بھی ہر کس وناکس کے لیے کھلا رہتا ہے تو ساری دنیا سے حاضرین بلا امتیاز اقوام وملل شرکت کرکے ویبیناروں کی رونق کو دوبالا کرتے ہیں۔مجھے بھی کئی ویبیناروں میں بحیثیت حاضر وناظر شرکت کا موقع ملا۔ کئی لیکچر سے واقعی دل ما شاد اور چشم ما روشن ہوگئے۔ کئی میں بڑی بوریت بھی ہوئی اور کچھ نہیں ملا۔
سچائی یہ ہے کہ ان ویبیناروں کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں۔ لاک ڈاؤن کے عالم میں یہ سہولت من وسلوی کے نزول کے مترادف ہے لیکن ان ویبیناروں کے منفی پہلو بھی بہت ہیں۔ان کی بھی الگ الگ دلچسپ کہانیاں ہیں۔ کتنے لوگ آن لائن نظر آتے ہیں مگر وہ حقیقت میں آن لائن نہیں ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ناظرین ویڈیو کو آف کردیں تو سگنل مضبوط رہتا ہے۔ کنکٹویٹی ٹھیک رہتی ہے۔ مقرر کی گفتگو صاف سنائی دیتی ہے۔ لیکن یہ کون بتائے گا کہ ویڈیو آف کرکے کتنے لوگ حاضر ہوتے ہیں۔ کتنے لوگ واقعی سن رہے ہوتے ہیں۔ کتنے لوگ واقعی بور ہورہے ہوتے ہیں۔بہر حال یہ ویبینار ہماری بدلتی ہوئی ثقافت اور تہذیب وتمدن کے سرنامے کی شکل میں وقت کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ آف لائن کی تمدن رخصت ہورہی ہے تو آن لائن کی جگمگاہٹ میں ان ویبیناروں کو لائف لائن مل رہی ہے۔
ویبیناروں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ سیمیناروں کا متبادل ہرگزنہیں ہوسکتے۔ سیمیناروں میں انسان جو سیکھتا ہے وہ ویبیناروں میں ممکن نہیں۔ دعوت نامے سے لے کر سیمینار میں شرکت تک اور سیمینار کے اختتام سے لے کر واپس گھر پہنچنے تک انسان جسمانی، روحانی، علمی وادبی اورذہنی اعتبار سے بے انتہا ریفریش ہوجاتا ہے۔یہ سیمینار صرف علم سیکھنے کا ذریعہ ہی نہیں ہوتے بلکہ زندگی سیکھنے کا بھی ذریعہ ہوتے ہیں۔ ورنہ کسی بھی یونیورسٹی کی لائبریری میں اتنی کتابیں ضرورہوتی ہیں جنھیں پڑھ کر انسان علامہ تو بن سکتا ہے لیکن شاید کارگہ حیات کے تجربات تو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے سے، مختلف قسم کے لوگوں سے ملاقات سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔
آپ نے بھی کبھی سیمینار میں شرکت کی ہوگی۔ دعوت نامہ جب ملتا ہے تودوچار روز اسی خمار میں گزر جاتے ہیں۔ لوگوں سے مشورہ ہوتا ہے۔ فلاں جگہ سیمینار ہے دعوت نامہ آیا ہے جایا جائے کہ نہ جایا جائے۔ موضوع پر بحث ہوتی ہے۔ مقالے کے موضوع کے لیے انسان ساتھیوں سے مشورہ کرتا ہے۔ لائبریری میں جاتا ہے۔ کتابیں کھنگالتا ہے۔ اور جب سفر کا ارادہ پختہ ہوجاتا ہے تو وہ یہ سوچتا ہے کہ ٹرین سے سفر کرے یا بس سے یا ہوائی جہاز سے۔ پھر مواصلات کے ان وسائل کا ٹکٹ نکالنے کے لیے یا نکلوانے کے لیے غور وخوض ہوتا ہے۔ اور جب وہ ریلوے اسٹیشن ، بس اسٹیشن یا ہوائی اڈے پر پہنچتا ہے۔ ہوائی اڈے کو دیکھتا ہے۔ اس کے ماحول کو نہارتا ہے۔ وہاں کام کررہے لوگوں کو دیکھتا ہے۔ بورڈنگ لے کر ویٹنگ لاؤنج میں جاتا ہے۔ یا پلیٹ فارم پر ٹرین کا انتظار کرتا ہے اور پھر سفر کے دوران مختلف قسم کے لوگوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے۔ دوران سفر مختلف سرد وگرم، سرسبز وشاداب یا خشک علاقوں سے گزر کر وہ منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔ وہاں اس کے استقبال میں کچھ لوگ فرش راہ ہوتے ہیں یا نہیں ۔ ہوتے ہیں تو وہ کیسے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ پھر وہ گیسٹ ہاؤس جاتا ہے۔ وہاں مختلف اوقات کھانے تناول کرتا ہے۔ گیسٹ ہاؤس کے انتظام وانصرام کو بچشم خویش دیکھتا ہے۔وہاں بھی مندوبین سے ملاقات ہوتی ہے۔ ان سے تعارف ہوتا ہے۔ گفتگوہوتی ہے۔ مختلف مسائل پر بات چیت ہوتی ہے۔ اور پھر علی الصباح ناشتے کے بعد سیمینار ہال کارخ کرتا ہے۔وہاں سیمینار کے آغازسے قبل بھی مختلف لوگوں سے بالمشاقہ ملاقات ہوتی ہے۔ ان سے تعارف ہوتا ہے۔ جان پہچان ہوتی ہے۔گفتگو ہوتی ہے۔ان کے تجربات اور علم وادب سے استفادہ ہوتا ہے۔ سیمینار کی مختلف نشستوں میں وہ مختلف اسکالروں کو بولتے ہوئے سنتا ہے۔ کچھ سوال اورجواب بھی ہوتے ہیں۔ سوال کیسے ہوتے ہیں۔ جواب کیسے دیے جاتے ہیں۔ اور پھر مختلف سیشنوں کے دوران کس طرح مختلف مسائل پر بحث ہوتی ہے۔ سیمینار کے اختتام پر کس طرح اسے رخصت کیا جاتا ہے اورپھر وہ علم کے ساتھ زندگی کے تجربات کی کیسی کیسی یادیں لیے اپنے گھر واپس آتا ہے۔ جانے او رآنے کے سفر میں پیش آنے والے مسائل ومشکلات انسان کو جینے کا ہنر سکھاتے ہیں۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ کی رہن سہن، نشست وبرخاست ،جینے کے طور طریقے اور ان کی متنوع قسم کی زبانیں دیکھ کر انسان کے تجربات ومشاہدات کی زنبیل مالا ہوجاتی ہے۔ یوں سیمینارکے مختلف مقالوں میں پیش کیے جانے والے علم ہی سے نہیں بلکہ گھر سے نکلنے سے لے کرگھر واپس آنے تک انسان بہت کچھ سیکھتا ہے جو وہ اپنے بیڈ روم یا ڈرائینگ رو م میں بیٹھ کر اپنے موبائل یا لیپ ٹاپ کی اسکرین پر بیٹھ کر ہر گز نہیں سیکھ سکتا۔
اصل علم در اصل زندگی کے تجربات ومشاہدات کا علم ہے۔ ورنہ جن کتابوںمیں علم مقید ہوتاہے آج کے زمانے میں ان کی بھی کمی نہیں۔ جس طرح ویبینار آن لائن ہورہے ہیں یہ کتابیں بھی علامہ گوگل کی گٹھری میں کروڑوں کی تعداد میں باندھی ہوئی رکھی ہیں جن سے انسان جب چاہے استفادہ کرسکتا ہے۔ اصل علم زندگی کے تجربات ومشاہدات کا علم ہے جو کتابوں سے کم اہل علم کی زبانی زیادہ موثر طریقے سے حاصل کیاجاتا ہے۔ میں جب ان سیمیناروں اور ویبیناروں کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے لبنان کے مشہور ادیب اور مورخ ڈاکٹر عمر فروخ یاد آجاتے ہیں۔ بیروت میں کئی سال پڑھنے پڑھانے کے بعد جب وہ جرمنی گئے تو ان کے اساتذہ ان سے اکثر پوچھتے تھے کہ تم یہاں کیا لینے آئے ہو۔ تمھیں تو سب کچھ آتا ہے تو وہ ان کے اس سوال پر ان سے وہی کہتے تھے جو ابن خلدون نے کہاتھا کہ ’’تلاش علم کے لیے سفر تعلُّم میں کمال پیدا کرتا ہے۔ عقلمند تلاش علم میں سفر کرتا ہے تو بڑے بڑے اساتذۂ علم وادب سے ملاقات کرتا ہے۔ ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ ان کے علم وادب سے استفادہ کرتا ہے۔ ان کے طرز فکر کو سمجھتا ہے۔ ان کی بحث وتحقیق کے اسالیب سے آشنائی اختیار کرتا ہے۔ (نہ کہ وہ اس لیے سفر کرتا ہے کہ مثال کے طور پر اپنے ملک میں متنبی کے بارے میں کسی پانچ حقیقت کی معلومات حاصل کرنے بعداس کی تکمیل کرکے انھیں دس کرلے)۔[غبار السنین]
یہ ویبینار در اصل کورونا کے اس ٹرانزٹ پیریڈ میں علمی وادبی سرگرمیوں کومرنے سے بچائے رکھنے کا ذریعہ تو ہوسکتے ہیں لیکن یہ علم سیکھنے کی اساس بالکل نہیں ہوسکتے۔ اس لیے اس وبائی حالات کے بعد ویبیناروں سے زیادہ پہلے کی طرح سیمیناروں کے اہتمام وانعقاد سے قدم پیچھے نہ ہٹائے جائیں۔ ورنہ یہ دنیا ، یہ انسانیت، یہ تمدن ایسے علمی خسارے سے دوچار ہوگی جس کی تلافی ممکن نہیں ہوگی۔
آپ کے تبصرے