مری آنکھوں کے دریا سے سمندر ٹوٹ جاتا ہے
مقدر کو جو دیکھوں تو مقدر ٹوٹ جاتا ہے
بہت ڈرتا ہوں اپنے پیار کا اظہار کرنے سے
جو ہوتا پیار دو طرفہ وہ اکثر ٹوٹ جاتا ہے
بہت جی چاہتا ہے لے کے اُڑ جاؤں غم دنیا
مگر کوشش ہی کرنے میں مرا پر ٹوٹ جاتا ہے
تصور میں کبھی جب تم ذرا سا پاس آتے ہو
مرے غم کا مقدر مجھ پہ آ کر ٹوٹ جاتا ہے
لکھی تاریخ ایسی ظالموں نے قطرہ خوں سے
جب آئے چھے دسمبر تو کیلنڈر ٹوٹ جاتا ہے
واااااہ واااااہ واااااہ واااااہ واااااہ واااااہ واااااہ واااااہ واااااہ واااااہ واااااہ واااااہ بہترین غزل