کیا بھلا زیست کے عنوان میں رکھا ہوا ہے
موت کا زہر جو انسان میں رکھا ہوا ہے
جس کو رکھنا تھا سراپائے عمل میں اس کو
ہائے کس شان سے جزدان میں رکھا ہوا ہے
ہم فقیروں کو کہاں خواب سجانا آیا
خواب کا ڈھیر تو دالان میں رکھا ہوا ہے
سانس کی ڈور تلک اب تو نکلنے سے رہا
تو مری جان مری جان میں رکھا ہوا ہے
میں نے دیکھی ہے تری زرد عطاؤں کی بہار
میرا ٹکڑا ترے احسان میں رکھا ہوا ہے
ہم مہاجر ہیں ترے ذوق نظر سے محروم
چاند کا نور جو سامان میں رکھا ہوا ہے
چند بالوں کی سیاہی پہ اجالے مرجائیں؟
کیا تری زلف پریشان میں رکھا ہوا ہے
تونے جس ڈھب سے فقیروں کو یہاں رکھا ہے
تو بھی اللہ کی میزان میں رکھا ہوا ہے
نہیں آنکھوں میں تری وہ بھی امیر شہراں
جو ترے قصر کے دربان میں رکھا ہے
اب تو چپ رہنے کا میں نے بھی ارادہ کیا ہے
راکھ کا ڈھیر جو ایوان میں رکھا ہوا ہے
بس وہی درہم ودینار کی آوازیں کچھ
ورنہ کیا خاک تری آن میں رکھا ہوا ہے
تو نے رمضان میں جو جلوہ نمائی کی ہے
یار وہ خرقہ شعبان میں رکھا ہوا ہے
آپ کے تبصرے