بقدرِ الکدِّ تُکتَسبُ المعَالی

ڈاکٹر شمس کمال انجم تعلیم و تربیت

میرے ایک ریسرچ اسکالر نے عربی میں لکھا ہوا اپنا ایک تحقیقی مقالہ واٹس اپ کیا۔ اس کے ساتھ ایک فارم بھی بھیجااور لکھا کہ فلاں مجلے کو میں نے یہ مقالہ بھیجا تھا۔ ایڈیٹر صاحب نے کہا کہ شمس سر سے اس فارم پر دستخط کرالاؤکہ یہ مقالہ اشاعت کے قابل ہے۔واضح ہو کہ میں اس مجلے کی مجلس ادارت کا ممبربھی ہوں۔میں نے اسے سرسری دیکھا اوراسکالر کو بتایا کہ مقالے کا عنوان صحیح نہیں ہے۔ مقالے میں پیش کی گئی معلومات عنوان سے میل نہیں کھاتیں۔ نہ ہی ریسرچ میتھاڈولوجی کا اس میں لحاظ کیاگیا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ مقالے کو ایسے ایسے ری رائٹ کرو۔ اس نے خوشی خوشی میری باتیں مان لیں اور پھر دوچار گھنٹے بعد یا اگلی صبح مجھے وہ مضمون واپس بھیجا اور کہا کہ میں نے ٹھیک کردیا ہے۔ میں نے دیکھا تو ابھی بھی غلطیاں موجود تھیں۔ میں نے کہاکہ ایسے ایسے لکھ کر لاؤ۔ اگلے دن اس نے بھیجا تو اس میں بہت ساری تبدیلیاں تو کی تھیں لیکن جیسے میں نے اسے گائڈ کیا تھا اس طرح نہیں لکھا تھا۔ پروف میں بھی خامیاں رہ گئی تھیں۔ کچھ چیزیں چھوٹی ہوئی تھیں۔ میں نے کہا پروف کو پھر سے پڑھ کر جہاں خالی جگہ ہے اسے پر کرکے واپس کرو۔ اس نے جواب لکھا کہ آپ بہت بڑے عالم فاضل استاد ہیں۔ میں آپ کے معیار پر پورا نہیں اترسکتا۔ اس لیے رہنے دیجیے۔ میں اپنا مقالہ شائع نہیں کرنا چاہتا۔
مجھے اس کی اس حرکت سے بہت رنج ہوا۔ مجھے وہ دن یاد آگئے جب میں نے پہلا مضمون لکھنے کی کوشش کی تھی مگر ایک پیراگراف تک نہیں لکھ سکاتھا۔ وہ ایام یاد آگئے جب میں نے پہلے بار عربی میں تحقیقی مقالہ لکھنے کی کوشش کی تھی۔یہ مدینہ یونیورسٹی میں میرا پہلا سال تھا۔ ایک انعامی مقابلے (المسابقۃ الصیفیۃ)کا اعلان دیکھا تو بس مقالہ لکھنے کی جستجو میں لگ گیا۔حالانکہ اس وقت مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ تحقیقی مقالوں میں حوالے کیسے دیے جاتے ہیں۔ مقالہ لکھنے کی بھی کوئی مجبوری نہیں تھی نہ کوئی زبردستی۔ لیکن سیکھنے کا شوق تھا، جذبہ تھا۔ سینئر ساتھیوں کے پاس جاجاکر ریسرچ میتھاڈولوجی کے اصول سیکھے۔مقالے کا عنوان تھا الکفر بالطاغوت۔ میں نے تھوڑا سا اس میں انشاپردازی کی کوشش کی ۔ نگراں کے پاس لے گیا توانھوں نے کہا کہ یہ علمی مقالہ ہے اس میں انشاپردازی نہیں کی جاتی۔ میں نے پوری فرماں برداری کے ساتھ وہ سب جملے نکال دیے اور الحمد للہ مقالہ پورا ہوا۔ جمع کیا اور اسے پہلا انعام حاصل ہوا۔
مجھے وہ دن بھی یادآگئے جب مجھے شعر گوئی کی شد بد نہیں تھی۔مگر طبع آزمائی کا شوق تھا۔البتہ یہ معلوم نہیں تھا کہ شعر کیسے کہا جاتا ہے۔ اس کے اسرارورموز کیا ہیں۔اس کی تقطیع کیسے کی جاتی ہے۔ اس کے اوزان وقوافی کے کیا اصول ہیں۔بہر حال پہلی غزل کہی تو بڑے بھائی مرحوم حماد انجم کو بھیج دیا۔ انھوں نے اے ٹوزیڈ کاٹ دیا۔ میں نے انھیں کتنی بار غزلیں دکھائیں کبھی نہیں کہا ہاں یہ شعر اچھاہے۔ ہاں یہ خوب ہے۔ بہت دل دکھتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ آج میں نے بہت خوب کہا ہے لیکن حوصلہ افزائی نہیں ہوتی تھی۔ کیسے ہوتی جب شعر پھسپھسا ہے۔ اس میں کوئی دم نہیں تو داد کیسے ملے گی۔بہر حال میرے شعر کبھی انھیں متاثر نہیں کرسکے۔سو شاباشی بھی کبھی نہیں ملی۔ہاں ایک بار تقریر کی تو انھوں نے پہلی بار میری پیٹھ تھپتھپائی۔ ایک دن میں نے والد صاحب کو بھی اپنی غزلیں سنائیں انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ نہ اچھا نہ برا۔ مطلب داد نہیں ملی۔ مگر میں نے پیچھا نہیں چھوڑا لکھتا اور کاٹتا رہا۔
میں دوحہ قطر گیا تو کبھی کبھی وہاں کے مشہور شاعر عتیق انظر صاحب کواپنی غزلیں کہہ کر سنایا کرتا تھا۔ اگر شعر اچھا نہیں ہوتا تھا وہ کہتے تھے ٹھیک نہیں ہے۔ پھر سے کہیں۔ پھر کہتا تھا۔ پھر کہتے تھے پھر سے کہیے۔میں نے ایک ہی شعر کو دودو تین تین چار چار بار کہنے کی کوشش کی ہے۔ میں سوچتا تھایااللہ میں کبھی فارغ الاصلاح بھی ہوسکتا ہوں کیا؟ لیکن میں نے کوشش نہیں چھوڑی۔اب حالت یہ ہے کہ کسی سے اصلاح نہیں لینی پڑتی ۔ شعر کے حسن وقبح کے بارے میں معلوم ہے۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب میں کتابت سیکھتاتھا۔ الف ب ج میں نے پورے دوسال لکھ کر پریکٹس کی۔ ہر روز سوچتا تھا آج جیم کے بعد دال ملے گا یعنی ایک حرف آگے بڑھوں گا مگر استاد کہتے تھے ابھی صحیح نہیں ہوا۔ پھر جیم کی اصلاح دیتے تھے۔ مگر یہاں بھی میں نے پیچھا نہیں چھوڑا اور بالآخر آگے بڑھتا رہا اور ایک دن مستند کاتب اور خطاط بھی بن گیا۔
مگر آج طالب علموں کابرا حال ہے۔ اچھے برے، ذہین اور کند ذہن سبھی محمود وایازکی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ علم کی ناقدری کا عجیب دور دورہ ہے۔ بڑی بڑی ڈگریاں ہیں مگر علم کی عین کے بارے میں بھی پتہ نہیں۔ ہر کوئی جلدی میں ہے۔ اسے جلدی سے ڈگری چاہیے اورجلدی سے نوکری۔ اور سستی سی فیس بکی اور واٹس اپی شہرت۔ اللہ کی پناہ!
علم در اصل صبر اور طول زمانی کا متقاضی ہے۔ علم کوئی لقمۂ تر نہیں ہے کہ ایک ہی بار میں نگل لو۔ علم کے لیے صبر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ علم کے لیے مشقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ٹوٹتے ہوئے دل کو ٹوٹنے سے بچانا پڑتا ہے۔ تب جاکر علم کاایک ذرہ جھولی میں آکر گرتا ہے۔میں نے اپنے اساتذہ کے سامنے باقاعدہ زانوئے تلمذ تہ کرکے علم حاصل کیا پھر بھی ان کے بحر علم سے ایک قطرہ بھی حاصل نہیں ہوسکا۔ بس خذف چینی مقدر ہوئی۔ان کا کیا جنھوں نے کسی استاد کی صحبت اختیار ہی نہیں کی۔ کسی سے کچھ سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نالج اکسپلوژن کے دور میں جہالت کا اندھیرا بڑھ رہا ہے۔ ہر طرف جاہلوں کی ایک قطار ہے اور وہ قطار روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ جانے اس دنیا کا کیا بنے گا۔ اللہ کی پناہ!

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
سعید الرحمن

بہت عمدہ۔
یقینا حصول علم ایک عمل مسلسل ہے۔لیکن افسوس ہے کہ اکثریت ڈگری حاصل کرنے کے بعد یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ اب علم کا حصول مکمل ہو چکا ہے۔ جبکہ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب علم حاصل کرنے کا دروازہ کھلتا ہے۔