جاتے جاتے بہت کچھ لے جاتے ہیں، دے جاتے ہیں

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی تذکرہ

شیخ صفی احمد سلفی مدنی بھی چل بسے۔ امت کے گلے کے ہار کا ایک اور منکا ٹوٹ گیا۔
اللهم أجرنا في مصيبتنا و أخلف لنا خير منه
آپ کی زندگی کی صبح و شام حرکت و عمل سے معمور عوامی زندگی جینے والے ایک معتبرعالم دین کی سوانح حیات سے عبارت تھی۔
وہ شخصیات بڑی عظیم ہوتی ہیں جن کی کتاب حیات کے ہر ورق پر سیکھنے والوں کے لیے ایک نیا سبق ملتا ہو ۔تاریخ دراصل ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات سے بنتی اور ایسے ہی لوگوں کو تاریخ ساز شخصیات کہا جاتا ہے۔
شیخ صفی احمد صاحب کی زندگی سے ملنے والے چند سبق آپ قارئین کی نذر ہیں:
۱۔ آپ نے مسجد محبوبیہ چنچل گوڈہ حیدرآباد میں پینتیس (۳۵)سال تک بلامعاوضہ امامت و خطابت کی خدمت انجام دی ہے، ساتھ ہی مختلف کتابوں کے مفصل اور مسلسل درس بھی دیے ہیں۔ یہ دونوں پہلو بڑے اہم اور مثالی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک ہی مسجد کو اپنی خدمات کا مرکز بنایا اور دوسرا یہ کہ اپنے دیگر ذرائع آمدنی پر اکتفا کرتے ہوئے مسجد کی خدمات کے عوض کچھ نہ لیا۔
۲۔ آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع رہا، جمعیت اہل حدیث کی صوبائی سطح پر مختلف میعادوں میں مختلف و متعدداور متنوع ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا اور نبھانا، خطبات جمعہ، مدارس میں تدریس، ترجمہ کے باب سے تصنیف و تالیف کے میدان میں خدمات،مدرسہ کی تاسیس،ہفتہ واری و یومیہ دروس ، مجلہ کا اجراء، قومی و ملی پلیٹ فارم پر فعال کردار اور ساتھ ہی جماعتی نمائندگی، پولیس محکمہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے منحرف افکار کے حامل بعض نوجوانوں سے مناقشہ،ان کو سمجھانا اور ان پر فکری گمراہی کو آشکارکرنا، قادیانیت کے فتنہ کے شکار بعض افراد کو سمجھانا اور ان سے توبہ کرانے میں کامیابی حاصل کرلے جانا۔ اور ان سب سے بڑھ کر حیدرآباد جیسے تہذیبی مرکز میں علمی و منہجی مسائل میں ایک مرجع کی حیثیت سے زندگی گزارنا۔
شاید اسی کو بھرپور زندگی جینا کہتے ہیں۔
۳۔ آپ جوانی کے مراحل ہی میں شوگر جیسے موذی مرض کے شکار ہوگئے تھے ۔ یہ مرض انسان کو رفتہ رفتہ کھوکھلا اور اس کےقوی کو مضمحل کردیتا ہے تاہم صفی احمد صاحب اس بیماری کو اپنا عذر سمجھ کر کبھی بیٹھے نہیں رہ گئے۔ آپ نے اسی حالت میں حیات بے ثبات کی چھیاسٹھ بہاریں دیکھیں مگر آخری ایام بلکہ آخری دن تک مصروف عمل رہے، آخری دنوں میں آپ کی بیماری کے شدت اختیار کرجانے کی خبریں بھی تسلسل سے آرہی تھیں،بالآخر۲۵؍جنوری۲۰۲۱ء کی صبح انتقال ہوگیا ،تاہم۲۴؍ جنوری کی شام بھی آپ نے مسجد محبوبیہ میں ایک اجلاس کی صدارت کی اور اس سے عین ایک دن قبل ۲۳؍جنوری کو بھی حیدرآباد کے علماء کے ایک خصوصی پروگرام میں شریک رہے۔
زندگی کی اس سچائی کو احسن طریقے سے اجاگر کیا کہ؎
چلتے ہی رہو چلنا انساں کا مقدر ہے
ٹھہروگے تو پاؤں میں زنجیر جنم لے گی
۴۔ آپ مصلحت کوشوں کی اس بھیڑ اور مفاد پرستی کے اس جنگل میں ایک حق شناس و حق گو انسان تھے، سلفیت کے حوالے سے ہو کہ کسی علمی مسئلہ کے حوالے سے ، نڈر اور بے باک رویہ آپ کی خاص پہچان تھا جو ایک طرف آپ کی خود اعتمادی کا ثبوت تھا تو دوسری طرف اپنی کہی بات یا پیغام کے برحق ہونے کے یقین کو ظاہر کرتا تھا۔ اس حوالہ سے آپ ’ولايخافون لومة لائم‘ کی عملی تفسیر و تصویر تھے۔
۵۔ شیخ صفی احمد سلفی مدنی صاحب ایک جلیل القدر عالم دین تھے،با صلاحیت لوگوں کی ایک عادت -یا کمزوری کہہ لیں-یہ بھی ہوتی ہے کہ بہت جلد کوئی ان کی نظر میں جچتا نہیں ہے اور وہ حرفِ اعتراف زبان پر نہیں لاتے۔ اور اکثر اسی وجہ سے دنیا انھیں متکبر انسان بھی سمجھ بیٹھتی ہے تاہم جب حقیقی معنوں میں ان کے سامنے کوئی قدآور آتا ہے تو وہ اس کا اعتراف کرنے میں جھجکتے بھی نہیں ہیں۔
شیخ صفی کے یہ دونوں رنگ میں نےاپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، اچھے اچھوں کو خاطر میں نہ لاتے بھی دیکھا ہے وہیں ایک قدرشناس جوہری کی طرح صلاحیتوں کی قدردانی کرتے ہوئے بھی۔
۶۔ ایک خاص وصف اور خوبی یہ دیکھی کہ جمعیت کے عہدوں سے فارغ ہوجانے کے بعد بھی آپ کی سرگرمیاں جاری رہیں،عام طور پر عہدوں سے ہٹنے کے بعد لوگ یا تو خود کو سبکدوش سمجھ لیتے ہیں یا احساس برتری میں اپنی ساری توانائی اپنے بعد والوں کی نا اہلی ثابت کرنے میں لگادیتے ہیں، شیخ صفی نے ان دونوں باتوں سے حتی المقدور دامن بچاکر اپنا رخ صحیح سمت پر رکھا، مثبت طرز فکر کے ساتھ ساری زندگی ملی خدمات اور جماعتی نمائندگی میں صرف کردی۔
طبیعت میں سادگی، تکلفات سے اجتناب، دل کی بات کو بےساختہ زبان پر لے آنا،تقریر اور خطبہ صدارت میں بہرصورت اپنی بات رکھنا اور موضوع کو نبھانا، ایسی کئی صفات ہیں جو گاہے ماہے ملتے ہوئے بھی نظر میں آجاتی تھیں، نزدیکی جانکار اور شاگرد حضرات دیگر پہلوؤں پر بہتر طریقہ سے روشنی ڈال سکتے ہیں، جمعیت اہل حدیث حیدرآباد و سکندرآباد کو اس کا بیڑہ اٹھانا چاہیے۔
قارئین یاد رکھیں!
جانے والوں کے حق میں دعائے خیر کے ساتھ ان کی زندگی کے مثبت پہلوؤں سے روشنی حاصل کرنا ان کے حق میں صدقہ جاریہ بھی ہے اور بہترین خراج عقیدت بھی۔
رب کریم مغفرت فرمائے،بشری تقاضے سے سرزد ہونے والی کمزوری کمی اور کوتاہی سے درگزر فرمائے، جنت الفردوس نصیب فرمائے۔ آمین
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
(داغ دہلوی)

5
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
حفظ الرحمن عمری بن یوسف جمیل جامعی

جزاكم الله خيرا بارك الله فيكم ونفع الله بكم الاسلام والمسلمين

حافظ عبدالصمد كرنولي عمري

بارك الله فيكم ونفع بكم الامة
جزاكم الله خيرا

محمد عينين سليم عمري نذيري

اللھم آمین وجزاكم الله خیرا وبارك فيكم ونفع بكم الأمة الإسلامية

Mohammed Fayyazuddin

Jazakallah Khair Sheik bohath hi umda naqsha khencha hai aapne sheik ki hayat zindagi ka … ALLAH MARHOM ki magferat farmayen

Mohammedarif sayed

آمین یا رب العالمین