آدمی رہتا نہیں ہے وہ کسی بھی کام کا
ہر گھڑی ہوتا ہے جو مارا ہوا اوہام کا
آج کا انساں ہے بھوکا کتنا اپنے نام کا
چاہتا ہے تذکرہ ہو بس اسی کے کام کا
زندگی کی اور کچھ صورت نظر آتی نہیں
’’یا تو اس جنگل میں نکلے چاند تیرے نام کا‘‘
یہ ضروری تو نہیں حاصل سکوں بھی ہو اسے
جس کو ہر ساماں میسر ہے یہاں آرام کا
رکھ دیا ہے کھول کر سب اس نے رشتوں کا بھرم
شکر کرتا ہوں ادا میں گردش ایام کا
تنہا رہ جانا زمانے میں برائی تو نہیں
دوست کہلانے سے بہتر ہے کسی بد نام کا
مستحق ہو کر بھی کچھ تو لوگ میرے عہد میں
دیکھ پاتے ہی نہیں چہرہ کبھی انعام کا
جس قدر ماں باپ رکھتے تھے خیال اتنا سحر
خود ہم اپنا رکھ نہیں پاتے خیال آرام کا
بہت عمدہ سحرصاحب ، اللہ آپ کو خوش رکھے۔