ویسے تو وسائل تعلیم بہت زیادہ ہیں، لیکن سب سے سستا اور ٹکاؤ وسیلہ تعلیم بلیک بورڈ ہی ہے۔ اس کی تاریخ ابتدا کے بارے میں کچھ مستند وضاحت تو نہیں ملتی، لیکن تلاش بسیار کے بعد صرف اتنا معلوم ہوسکا کہ سب سے پہلے انیسویں صدی کے شروع میں اسکاٹ لینڈ کے اسکولوں میں اس کا استعمال کیا جاتا تھا اور پھر وہیں سے ساری دنیا میں اس کے پھیلنے اور پھلنے پھولنے کے شواہد ملتے ہیں۔ اور جس طرح سے دنیا کی ساری چیزیں معرض وجود میں آنے کے بعد ترقی کے مراحل طے کرنا شروع کرتی ہیں اسی طرح اس نے بھی ترقی کے مراحل طے کرنا شروع کردیے، چنانچہ یہ پہلے بلیک بورڈ سے گرین بورڈ ہوا اور انیسویں صدی کے اختتام تک یہ وہائٹ بورڈ ہوگیا تھا۔ جب ڈیجیٹل دور آیا تو اسمارٹ فون اور اسمارٹ ٹی وی کی طرح یہ اسمارٹ بورڈ بھی بن گیا۔ غرض کہ اس نے اپنی اہمیت وافادیت کو کبھی دنیا کے سامنے کمزور نہ ہونے دیا،بلکہ جب کورونا کے دور میں نشاط زندگی ٹھہر گئی اور تعلیم وتعلم کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو بلیک بورڈ اپلیکیشن تدریسی نظام بحال کرنے کے لیے اچھا بدیل ثابت ہوا۔ یوں سمجھ لیں کہ دنیا کے جو بھی منظرنامے ہوں، حالات جیسے بھی ہوں تعلیم وتعلم بلیک بورڈ کے بغیر ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔
زندہ قوموں نے اس کی اہمیت کو خوب سمجھا تھا، چنانچہ ان کے یہاں انیسویں صدی کے وسط میں تقریبا بلیک بورڈ ہر درس گاہ کی زینت بن چکا تھا۔ اسی پہ پڑھ کر انسان چاند سورج اور پتہ نہیں کہاں کہاں پہنچ گیا۔ اور اب تو یہ حال ہے کہ تعلیم و تعلم کا میدان ہی نہیں بلکہ ہر میدان میں افہام وتفہیم کا تصور بغیر بلیک بورڈ کے نامکمل نظر آتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں مدرسوں میں بلیک بورڈ کا بڑا برا حال ہے، سالہا سال کبھی وہائٹ ہی نہیں ہوتا، یا کبھی کبھار کلاس کا کوئی منچلا بچہ استاد کی عدم موجودگی میں ذہنی تفریح کے لیے اسے وہائٹ کر دیتا ہے۔ بعض درس گاہوں کا تو یہ حال ہے کہ سالوں پہلے بلیک بورڈ پر درس کی جو تشریح کی گئی تھی اساتذہ وطلبہ اسے آج بھی وراثت کے طور پر محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انھیں بلیک بورڈ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے، بلکہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ سب سے زیادہ انھی کو اس کی اہمیت معلوم ہے۔چنانچہ آپ کو کوئی مدرسہ یا کوئی مکتب بغیر بلیک بورڈ کے نہیں نظر آئے گا، بلکہ بعض مدارس میں تو یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ درس گاہ کے علاوہ بچوں کے ہاسٹلوں میں بھی بلیک بورڈ نصب کروا دیتے ہیں۔
راقم الحروف کو بھی اس کی اہمیت کا اندازہ بہت پہلے سے تھا، مجھے یاد آرہا ہے کہ غالباً جب میں تیسری جماعت میں ایک ایسے مدرسہ میں زیر تعلیم تھا جہاں جگہ کی تنگی وجہ سے ہماری تعلیم مسجد میں ہو رہی تھی اور وہاں بلیک بورڈ نہیں تھا، تو ہم تمام ساتھیوں نے مل کر بلیک بورڈ کے لیے تحریک شروع کر دی تھی، لیکن جونہی ناظم مدرسہ کو اس کا علم ہوا – اللہ انھیں جزائے خیر دے- اس کے دوسرے ہی دن ہر کلاس کے لیے ایک ایک بلیک بورڈ کا انتظام کر وادیا تھا۔ لیکن صد افسوس کہ اس کا استعمال ایک یا دو بار سے زیادہ نہیں ہوا تھا۔ مجھے اسی وقت یہ احساس ہو گیا تھا کہ بلیک بورڈ کے انتظام سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اساتذہ کے اندر بلیک بورڈ کے استخدام کے تئیں بیداری پیدا کی جائے۔
تاہم میری یہ دیرینہ خواہش چھٹی جماعت میں جامعہ عالیہ میں پوری ہوئی۔ سراجی کی گھنٹی شیخ مظہر اعظمی –حفظہ اللہ- پڑھاتے تھے اور میراث کے سارے مسائل بلیک بورڈ ہی پہ حل کرتے تھے اور بچوں سے بھی بلیک بورڈ پہ ہی حل کرواتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے کلاس کے ۹۹فیصد بچے اس وقت سراجی کے مسائل حل کر سکتے تھے۔ (سو فیصد اس لیے نہیں کہتا کہ ایک ہمارے عزیز ساتھی امتحان ہال میں اپنے ساتھیوں کو پریشان کرتے نظر آئے تھے)
حقیقت یہ ہے کہ بلیک بورڈ صرف ایک تعلیمی وسیلہ نہیں ہے، بلکہ کلاس روم سے جمود وتعطل کی فضا کو ختم کرنے کا ذریعہ، تعلیم وتعلم کے میدان میں نشاط پیدا کرنے کا ضامن اور افہام وتفہیم کو آسان سے آسان تر بنانے کا آلہ بھی ہے۔ لیکن آج بھی ہمارے مدرسوں میں جب کلاس میں بچہ سوتا ہے اور خراٹے کی میوزک سے استاد کو پتہ چل جاتا ہے، یا کبھی کسی بچہ سے کتابوں کے نیچے رکھے ہوئے ناول کے کسی پلاٹ پہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے تو استاد کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے اور ساری تادیبی کاروائی اس بچے پر لاگو ہوتی ہے، لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ جتنی اس بچے کی غلطی ہے اتنا ہی استاذ کا وہ طریقہ تدریس بھی ذمہ دار ہے۔
یہ بات تو مسلم ہے کہ ہمارے مدارس میں بلڈنگ کے علاوہ نہ تو کوئی خاطر خواہ مخطط منہج ہے نہ ہی اعلی علمی معیار کے مقررات دراسی، نہ تعلیم و تعلم میں تطور وجودہ لانے کی کوئی کوشش، نہ اساتذہ میں مہارت تدریس پیدا کرنے کی کوئی ٹریننگ، اور وسائل تعلیم کے نام پر صرف اور صرف ایک بلیک بورڈ ہے جو ہمیشہ سیاہ ہی رہتا ہے، جب تلک یہ بلیک بورڈ سیاہ رہے گا مدرسے اور بچوں کی زندگی میں سیاہی باقی رہے گی۔ اس لیے ہماری گزارش ہے کہ ساری چیزوں کو ٹھیک کرنا تو وقت طلب اور مشکل کام ہے، لیکن کم سے کم بلیک بورڈ جو ہمارے اختیار میں ہے اس کا استعمال کر کے بچوں اور مدرسوں کی زندگی ضرور چمکائیں۔
جی یقیناً شیخنا المکرم
بارك الله فى علمك و نفع بك الإسلام والمسلمين آمين
شكرا وجزاكم الله خيرا
وسائل تعلیم میں بلیک بورڈ کی اہمیّت اور افادیت اور تطورات کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی،
بہت عمدہ پیشکش ہے،
اللہ تعالیٰ دکتور محمد امتیاز کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے اور اسی طرح سے لکھتے پڑھتے ہوئے قوم وملت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہونچانے کی توفیق بخشے۔