آہ ! میرے محسن میرے محب دکتور آر کے نور محمد عمری مدنی رحمہ الله

شیرخان جمیل احمد عمری وفیات

کل ہی بذریعہ وائس میل شیخ انیس الرحمن اعظمی عمری مدنی صاحب حفظہ الله (امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث تامل ناڈو و پانڈیچیری) نے یہ پریشان کن خبر دی تھی کہ دکتور آرکے نور محمد عمری مدنی صاحب کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے، رپورٹ اور آثار کچھ اچھے نہیں ہیں۔ میں نے گھبرا کر سوشل فوری میڈیا پر اخوان سے دکتور کی صحت کے لیے دعا کی اپیل کی۔ ہر طرف سے دعائیں کی جارہی تھیں کہ آج ۲۱؍مارچ ۲۰۲۱ء علی الصبح یہ غم ناک خبر ملی کہ انڈیا کے وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے چنئی کے نوبل ہسپتال میں دکتور کا انتقال ہوگیا ہے۔ إنا لله وانا اليه راجعون۔
یقین مانیے دل آپ کی وفات کی خبر کو نہ ماننے کے لیے تیار تھا اور نہ ہی اس خبر کو شیئر کرنے کے لیے تیار تھا۔ اتنے میں میرے پرسنل نمبر پر شیخ انیس الرحمن اعظمی عمری مدنی حفظہ اللہ کا وائس مسیج پہنچا کہ آرکے صاحب کی وفات ہوگئی ہے اور شیخ نے ان کی وفات کو جماعت وملت کا بڑا خسارہ ٹھہرایا۔ إنا لله وإنا اليه راجعون۔
اپنے آپ کو سنبھالا اور فوری شیخ کے لیے نماز جنازہ غائبانہ پڑھی اور اللہ سے خلوص دل سے دعا کی کہ اے اللہ کتاب وسنت کے شیدائی ہمارے بھائی کی بشری لغزشوں کو درگذر فرما، اس کی ہمہ جہت خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما، آخرت کی منزلوں کو اس کے لیے آسان فرما، جنت الفردوس میں نبیوں، صدیقوں، شہداء و صالحين کی صحبت میں جگہ عنایت فرما اور ان کی بیوی بچوں اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرما۔ آمین
دکتور کے صاحبزادے عزیزم عمر سلمہ کو تعزیت کے لیے فون کیا۔ اللہ اللہ خود کی حالت ایسی تھی کہ کوئی مجھے دلاسہ دے، آنسو پونچھے، سمجھائے ، صبر کی تلقین کرے۔ سات سمندر پار تڑپتا رہا ! میں نے بچے سے بات شروع کی، ایک جملہ بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ دل بھر آیا ہچکیاں بندھ گئیں، اسی حالت میں عزیزم عمر سے تعزیت کی۔ بچے نے دعاؤں کی درخواست کی، پھر میں نے دوبارہ بات کرنے کا وعدہ کرکے فون بند کردیا۔
میں کیا بتاؤں ہمارا آپس میں کیا رشتہ تھا۔ ایک دوسرے سے کتنا گہرا تعلق تھا۔ خلاصہ کے طور پر اتنا کہہ دینا کافی سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایک دوسرے سے محبت ہی نہیں بلکہ گہری عقیدت بھی تھی۔ ہمیں ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد تھا۔ ہم آپس میں راز و نیاز کی خوب باتیں کیا کرتے تھے۔ پیش آمدہ امور میں ایک دوسرے سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ شاید کہ کوئی ہفتہ ایسا گذرا ہو جس میں آپ نے مجھ سے یا میں نے ان سے رابطہ نہ کیا ہو۔ سات سمندر کی مسافت ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ ایک ہفتہ قبل دو چیزوں پر آخری مشورہ ہوا ایک یہ کہ ملک میں ’منہج سلف کی بقا اور دفاع عن السنہ‘ پر منظم انداز میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے دس بارہ خالص منہجی شخصیات پر مشتمل ایک واٹساپ گروپ بناکر مشورہ سے کام کرنے کی تجویز طے ہوئی۔ ہم نے ممبرز کے نام تجویز کرنا شروع کردیے تھے۔ دونوں کا دو ناموں پر اتفاق ہوا تھا۔ میں نے حافظ عبدالحسیب عمری مدنی صاحب کا نام پیش کیا، دكتور نے شیخ طہ سعيد خالد عمرى مدنى صاحب کا نام پیش کیا۔ آگے ایک ایک نام کا اضافہ کرنے کی بات طے ہوئی تھی۔ دوسرا موضوع صوبائی جمعیت اہل حدیث تامل ناڈو کی تاریخ اہل حدیث کے پروجیکٹ کو مکمل کرنے کا تھا۔ آپ ہی کی تحریک اور نگرانی میں مولانا انعام الحق عمری صاحب امام وخطیب ویلور نے مواد جمع کرنا شروع کردیا تھا۔ ان دونوں احباب کی خواہش تھی کہ اس پروجیکٹ کی تکمیل میں میں بھی ان کا ساتھ دوں۔ چنانچہ دونوں حضرات سے تجاویز اور مشوروں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ اب تک جو مواد جمع ہوا ہے اس کا مسودہ مجھے بھیجا گیا۔ اس کی روشنی میں دونوں کو میں نے اپنی تجاویز سے آگاہ کیا تھا۔ وعدہ تھا کہ بہت جلد اس سلسلہ میں آگے کے مراحل پر بات کریں گے۔ لیکن قضاوقدر نے اپنا کام کردیا اور دکتور ہم سے جدا ہوگئے۔ وہ علم و مرتبہ میں مجھ سے کافی بلند اعلی و ارفع تھے لیکن انھیں مجھ پر غضب کا اعتماد و اعتبار تھا۔ مجھے حیرت ہوتی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کسی متنازعہ موضوع پر جب بھی کچھ لکھتے تو اسے شائع کرنے سے قبل مجھے بھیج کر میری رائے معلوم کرتے۔ میری تجاویز کو بہت اہمیت دیتے۔ کتنی ہی مرتبہ میری تجویز پر اپنے مضامین میں حذف واضافہ فرمایا۔ میرے ایمیل اور میرے فون ان کے اس قسم کے پیغامات سے بھرے پڑے ہیں۔
آج ان کی طالب علمی سے لے کر تادم واپسیں کی زندگی میری آنکھوں میں گھوم گئی۔ جامعہ دارالسلام عمرآباد میں مجھ سے دو تین سال سینئر تھے۔ ۱۹۸۵ میں سند فراغت لی تھی۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان کا تعلق سخت قسم کے حنفی المسلک گھرانے سے تھا۔ عمرآباد اور ویلور کے درمیان ایک چھوٹے سے گاؤں ’پلی کنڈا‘ کے باشندے تھے۔ جامعہ دارالسلام عمرآباد میں جب تک تھے سخت قسم کے حنفی تھے اور جماعت اسلامی کی فکر سے بھی کافی حد تک متأثر تھے۔ حالانکہ جامعہ کا ماحول مسلکوں کی سختی میں نرمی پیدا کردیتا ہے، لیکن بعض لوگوں پر اس کا اثر نہیں ہوتا ہے۔ ان کا شمار بھی انھی لوگوں میں سے تھا۔ مادر علمی میں، اہل علم کے لیے ائمہ کرام کی تقلید کرنا کہاں تک درست ہے؟ نیز دیگر افکار ونظریات پر بھی دکتور سے کئی مرتبہ میری جھڑپ بھی ہوچکی تھی۔ ہمارے درمیان علمی مباحثے بھی ہوتے رہے۔ لیکن دکتور تقلیدی مذہب پر ڈنکے کی چوٹ پر قائم تھے اور اس کا بھر پور دفاع بھی کرتے تھے۔ لیکن اللہ نے مہربانی فرمائی، ان کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے کلیة الحدیث میں ہوگیا اور ہوسٹل میں ان کے روم میٹ ایک خالص سلفی العقیدہ کویتی ساتھی شیخ عاید بن خلیف الشمری بن گئے تھے۔ وہاں سے ان کی دنیا ہی بدل گئی۔ اس سلفی العقیدہ کویتی ساتھی نے دلائل اور اپنی عملی زندگی سے دکتور کے دل ودماغ کی ساری مقید پرتیں کھول دیں۔ فکر ونظر کی اصلاح کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت کو انھوں نے ایسے گلے لگایا کہ خاندانی سلفیوں کے لیے بھی آئینہ بن گئے۔ ایسا رسوخ حاصل کیا کہ خود جامعہ اسلامیہ میں علمی مرجع بن گئے۔ میرا مشاہدہ ہے، بلا مبالغہ عرض کرتا ہوں کہ طلبہ تو طلبہ اساتذہ بھی اپنے طلبہ کو دکتور سے رہنمائی لینے کا مشورہ دیتے۔ میں جب کبھی دکتور کو مادر علمی کی ہماری جھڑپوں کو یاد دلاتا تو افسردہ ہوتے پھر اس کے اسباب پر بات کرتے۔ پھر بتاتے کہ دراصل صحیح رہنمائی اور نیک صحبت انسان کی دنیا بدل دیتی ہے۔ جامعہ اسلامیہ میں جب میرا داخلہ ہوا تو وہ کلیہ کے آخری سال میں تھے۔ ہمارا خوش دلی کے ساتھ استقبال کیا۔ کئی نسبتوں کی وجہ سے مجھے اپنے سے اس قدر قریب رکھا کہ میں مختصر عرصہ میں مدینہ منورہ کے فیوض وبرکات سے مالا مال ہوگیا۔ مجھے اپنے ساتھ کبھی شیخ حماد الانصاری رحمہ الله کے گھر لے جارہے ہیں تو کبھی شیخ ربیع المدخلی حفظہ الله کے گھر۔ کبھی شیخ عمر فلاتہ رحمہ الله کے گھر لے جارہے ہیں تو کبھی شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ الله کے گھر۔ آپ ہی کے ساتھ میں پہلی مرتبہ دکتور ضیاءالرحمن الاعظمی عمری مدنی رحمہ الله کے گھر بھی گیا تھا اور دکتور کی صحبت سے استفادہ کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ پھر مدینہ منورہ میں ہونے والے دروس کا خاکہ بناکر دے رکھا تھا کہ فلان دن فلاں شیخ کے درس میں شریک ہونا ہے اور فلاں دن فلاں شیخ کے درس میں ۔ مدینہ منورہ کے کبار علماء سے ان کا گھریلو تعلق تھا۔ سب مشائخ اپنے بیٹے کی طرح معاملہ کرتے تھے۔ جب بھی مسجد قبا جاتے مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ غالبا کسی استاد نے انھیں اپنی ایک پرانی کار دے رکھی تھی ۔ فجر کی نماز مسجد نبوی میں پڑھنے کے لیے اپنے ساتھ مجھے بھی پابندی کے ساتھ لے جاتے تھے۔ ۱۴۰۹ھ میں علامہ شیخ عبدالعزیز ابن باز رحمہ الله کی خصوصی دعوت پر محدث عصر شیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ الله حج کے لیے سعودیہ تشریف لائے تھے۔ حج سے بہت پہلے شیخ البانی رحمہ الله مدينہ منورہ بھی تشریف لے آئے۔ شیخ کی مدینہ آمد کی خبر کس کو ہوتی ! دکتور آرکی نور محمد رحمہ الله چونکہ مدینہ کے مشائخ کے چہیتے تھے اس لیے ان کو اس کی نہ صرف اطلاع تھی بلکہ جامعہ میں عقیدہ کے ہمارے ایک استاد دکتور موسی الدویش حفظہ الله کے گھر پر شیخ کے درس کے پروگرام کی بھی انھیں خبر ہوگئی تھی۔ جس میں چند مخصوص مشائخ اور بعض طلبہ کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اللہ دکتور آرکی کی قبر کو ٹھنڈی کردے، انھوں نے یہاں بھی مجھ پر احسان کرتے ہوئے شرکاء کی لسٹ میں اپنے ساتھ میرا بھی نام لکھوا دیا تھا۔ دکتور آرکی ہی کے طفیل سے مجھے نہ صرف شیخ البانی رحمہ الله سے پہلی مرتبہ بالمشافہ ملاقات کرنے کا موقعہ ملا بلکہ شیخ کے انتہائی قیمتی درس میں شریک ہوکر استفادہ اور شاگرد بننے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ ۱۴۰۹ھ ہی میں میرے سسر محترم شیخ مختار احمد ندوی رحمہ اللہ اپنی فیملی سمیت مدینہ منورہ تشریف لے آئے تھے۔ مولانا کی بیٹی سے میرا رشتہ طے ہوچکا تھا۔ابھی ہمارا نکاح نہیں ہوا تھا۔ اسی رشتہ کی بنیاد پرمولانا سے میری ملاقات رہی۔ دکتور آرکے صاحب کو اس کا علم ہوا تو وہ چند مخصوص ساتھیوں ( جن میں سر فہرست شیخ ارشد فہیم الدین سلفی مدنی حفظہ اللہ تھے) کے ساتھ فوری مشورہ کیا کہ جامعہ میں شیخ مختار کا محاضرہ رکھنا چاہیے۔ شیخ مختار سے میں نے طلبہ کی خواہش کی اطلاع دی۔ شیخ نے کہا کہ جامعہ میں محاضرہ کے لیے رسمی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ شیخ آرکے کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ آپ نے اجازت لے لی۔ شیخ ارشد فہیم الدین مدنی صاحب نے شیخ مختار احمد ندوی صاحب کا جامع تعارف کرایا پھر شیخ مختار رحمہ الله نے علامہ ابن تیمیہ پر ایک گھنٹہ کا ایسا خطاب فرمایا کہ طلبہ سر دھنتے رہ گئے۔ رحمه الله رحمة واسعة۔ شیخ کے محاضرہ کے بعد شیخ آر کے نور محمد صاحب نے اظہار خیال فرماتے ہوئے کہا تھا کہ غیر سعودی جامعات سے فارغ یہ پہلی شخصیت ہے جن کو میں نے علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله پر اس قدر جامع خطاب کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے۔
دکتوراہ کے بعد انھیں مدینہ منورہ میں علمی کام اور ملازمت کے بڑے مواقع تھے۔ کئی کام کی پیش کش ہوئی، لیکن دکتور نے مادر وطن ہند کو ترجیح دی اور اپنے وطن کو اپنے عمل کا مستقر بنایا۔۲۵؍ مئی ۱۹۶۶ کو پیدا ہوئے اور ۲۱ ؍مارچ ۲۰۲۱ کو کوچ کرگئے۔ پچپن سال کی مختصر عمر مستعار پائی۔ لیکن اللہ تعالی نے ان سے اس قدر کام لیے کہ بڑی بڑی عمر والے بھی نہیں کرسکے۔ اللہ نے ان کے کاموں میں خوب برکت دی۔ وقت کی پابندی ان کی پہچان تھی۔ اپنے اوقات کو کام میں لانے کے لیے ہمیشہ پلان بناتے تھے۔ ہر گھنٹے کے ہر منٹ کا حساب رکھتے تھے۔ انھیں میں نے کبھی نہ فالتو کام کرتے دیکھا اور نہ ہی بے فائدہ بحثوں میں حصہ لیتے دیکھا۔ جو کچھ کہا، کیا اور لکھا وہ کتاب وسنت کے فروغ کے لیے تھا، یا دفاع میں تھا۔ سب کے لیے آپ کا دل صاف تھا۔ انھیں اپنے حاسدین اور دوستوں کا خوب علم تھا۔ جمعیت کے عہدوں سے ہمیشہ بھاگتے ہوئے دیکھا۔ لیکن جمعیت جماعت کی اصلاح و فلاح کے لیے فکر مند بھی ہمیشہ پایا۔ دو جمعیتوں کی صلح کے لیے بہت بے چین تھے۔ وزارت شؤون الاسلامیہ سعودی عرب سے جب دو رکنی وفد دہلی پہنچا تو شیخ احمد الرومی حفظہ الله (مدیر ملحق دینی سعودی سفارت خانہ) نے انھیں اور دکتور عبداللطیف الکندی المدنی حفظہ الله کو بحیثیت مبصر شریک ہونے کا حکم دیا۔دونوں نے دہلی کے ایک ہوٹل جہاں یہ مشائخ طرفین سے مذاکرات کر رہے تھے پہنچ کر حکم کی تعمیل کی تھی۔ لیکن ماقدر اللہ اس وقت صلح کی بات بن نہیں پائی تھی۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے دستور ساز کمیٹی کے رکن رہ کر اس میں اصلاحات کے لیے سرگرم رہے۔ صلح بین الجمعیتین میں میری کامیابی پر بے حد خوش ہوئے۔ مجھے، شیخ اصغر علی سلفی صاحب اور شیخ صلاح الدین مقبول مدنی صاحب حفظهما الله کو الگ الگ مبارکبادی اور دعائیں لکھ بھیجیں۔ دونوں مشائخ کو لکھے گئے خطوط کی کاپی مجھے بھی بھیجی۔ دکتور کا ماننا تھا کہ ملک میں خالص کتاب وسنت کی دعوت کی ذمہ داری کوئی تنظیم ادا کرسکتی ہے تو وہ جمعیت اہل حدیث ہی ہے۔ اس لیے اس تنظیم کے استحکام کے لیے ہمیشہ فکر مند رہے۔ دکتور مجھے بار بار کہتے تھے کہ شیخ زندگی کا دورانیہ بہت مختصر ہے۔ دن سال بہت تیزی سے گذر رہے ہیں، اس لیے ہمیں وقت ضائع کیے بغیر جتنا ممکن ہوسکے کام کردینا چاہیے۔ وہ ہند میں سرمایہ ملت تھے۔ علم کا مینار تھے۔ علماء کا مرجع تھے۔ احباب کو بہت متوازن اور صائب مشورے دیتے تھے۔ ان کی خدمات ہمہ جہت تھیں۔ انھوں نے جو بھی کام کیا وہ خالص تھا، ملاوٹوں سے پاک، مصلحتوں سے خالی تھا۔ وہ اصولوں کے پابند تھے۔ منہج میں بالکل کھرے تھے۔ اس میں ذرہ برابر جھول نہیں پایا جاتا تھا۔ لا یخافون لومة لائم کی مثال تھے۔ شروع سے دیکھا پیر اور جمعرات اور ایام بیض کا روزہ رکھتے تھے۔
ملک اور بیرون ملک میں آپ کو چاہنے والے سیکڑوں اہل علم ہیں جو ان کی زندگی اور خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔ غم و دکھ کی اس گھڑی میں یہ چند سطریں نوک قلم پر آگئی ہیں۔ پھر کبھی تفصیلی مضمون لکھا جائے گا۔
دکتور کو اللہ تعالی نے چار بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا ہے۔ اپنی اولاد کو حافظ قرآن بنایا، دینی علوم کے ساتھ عصری علوم سے بھی آراستہ فرمایا۔ بڑے بیٹے نے چنئی ہی سے میکانیکل انجنیئرنگ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ پوسٹ گریجویشن کے لیے برطانیہ آنا چاہتے تھے۔ دکتور نے مجھے آکسفورڈ کی تفصیلات بھیج کر مزید معلومات بھیجنے کے لیے کہا تھا۔ حکم کی تعمیل ہوگئی تھی۔ کرونا وبا کی وجہ سے دنیا کا نظام درہم برہم ہے۔
مئی ۲۰۲۱ء کو اپنی بڑی بیٹی کی شادی طے کررکھی تھی۔ اسی بچی کے کپڑوں وغیرہ کی خریداری کے لیے حیدرآباد دکن گئے اور بیمار ہوکر لوٹے۔ ٹیسٹ کرنے پر کورونا پازیٹیو نکلا۔ صحت اتنی خراب نہیں تھی پھر بھی فیملی فرینڈ ایک ڈاکٹر نے احتیاطا ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔ منگل کو جاندار بدن اور پورے ہوش وحواس کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوئے لیکن چار دن بعد اتوار کو بے جان اور بے ہوش باہر آئے۔ اللہ نے خیر کا معاملہ فرمایا۔ باڈی فوری مل گئی اور وفات کے چار پانچ گھنٹوں کے اندر اندر دوپہر ہی میں استاد محترم مولانا محمد عبداللہ عمری مدنی حفظہ الله (سابق امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث تامل ناڈو) نے نماز جنازہ پڑھائی اور چنئی ہی کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ إن العين تدمع والقلب يحزن ولا نقول إلا ما يرضى ربنا وإنا بفراقك يا دکتور لمحزونون۔
اللھم اغفر له وارحمه وادخله فسيح جناته جنات النعيم آمین۔

5
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
Safat Alam Taimi

اللهم اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناتك و ألهم أهله وذويه الصبر والسلوان

Momin

ہفتہ يا اتوار کو بے جان ۰۰۰۰ الله يجمعنا وإياهم في جنات النعيم كلنانحب الدكتور رحمه الله رحمة واسعة

Md Inamul Haque

عمدہ تحریر ماشاء اللہ

عبد الصبور حماد العمري المدني

ما شا الله تبارك اللہ آپ کو اس کا بہتر بدلہ عطا فرمائے آمین اور دکتور مرحوم کو رفاقت نبوی عطا فرمائے آمین /عبد الصبور حماد العمري المدني استاد جامعه دار السلام عمراباد

Abdul Qawi

اللہم اغفر لہ وارحمہ وأدخلہ الجنۃ