آج (٢٦ نومبر ٢٠٢٣) خبر آئی کہ استاذ محترم شیخ عبداللہ مراد اس دار فانی کو چھوڑ گئے اور آج ہی بعد نماز ظہر مسجد نبوی میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ إنا لله وإنا إليه راجعون غفر الله له وأسكنه فسيح جناته آمين
شیخ عبداللہ مراد رحمہ الله نے ہمیں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں فقہ السنۃ کا مادہ (سبجیکٹ)پڑھایا تھا اور مسند بزار کا اجازہ بھی مرحمت فرمایا تھا، تعلق پاکستان سے تھا تاہم سعودی شہریت بھی رکھتے تھے۔
ایک استاذ اپنے شاگرد کو بہت کچھ دیتا ہے اور یقینا دیگر اساتذہ کرام کی طرح آپ سے بھی ہم طلبہ نے بہت کچھ سیکھا۔
آج جب وفات کی خبر آئی تو مناسب معلوم ہوا کہ آپ کی چند باتیں قارئین کی نذر کردی جائیں ، پڑھیے ہماری طرح آپ بھی سیکھیےتاکہ آپ کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ یہ باتیں بھی استاذ محترم کے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں ۔
(۱)فقہ السنہ کا مادہ پڑھاتے ہوئے بارہا ایسا ہوا کہ فقہاء کے اقوال ذکر کرنے کے بعد مسئلہ میں راجح قول بتلانا ہوا تو کہا ’وأنا أقول‘۔ یعنی میری نظر میں راجح مسئلہ یہ ہے ۔ پھر فورا کہتے ’و أستغفر الله من أنا‘(میں اس ’أنا‘ یعنی ’میں‘ پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں)۔۔۔ ایک جھٹکے میں عرفان نفس کی کتنی منزلیں طے ہوجاتی ہیں ؟ ایسے ہی اہل علم کو روشن ضمیر کہا جاتا ہے، جو نفس کی تعلی اور اس کے پھولنے کے مقامات پر چوکنا رہتے ہیں ۔
(۲)استاذ محترم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ محدث العصر شیخ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے، اپنے استاذ سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور شیخ البانی کی فنِ حدیث اور فقہِ حدیث دونوں میں جلالتِ قدر کے معترف، مداح اور مناد تھے ۔
بارہا ایسا ہوتا کہ مختلف مسائل میں شیخ البانی کی فقہی آراء بھی زیر بحث آتیں، اور استاذ محترم کی تحقیق کے مطابق شیخ البانی کی رائے بسا اوقات مرجوح ہوتی ۔ اب یہ شیخ کے لیے عجیب دوراہا ہوتا، ایک طرف استاذ کی عقیدت اور محبت کا امتحان ہے تو دوسری طرف حق اور حقیقت بیانی کے اپنے تقاضے ۔
استاذ گرامی اس دوراہے سے ادب اور جذبہ اتباعِ حق میں جیسا توازن لیے گزرتے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، زیر لب ہلکی ہلکی مسکراہٹ، بار بار پہلو بدلتے ہوئے، نظریں جھکائے ہوئے ، جھینپے جھینپے انداز میں ،سر کو اپنے مخصوص انداز میں حرکت دیتے ہوئے ، نسبتاً دھیمی مگر پر اعتماد آواز میں کہتے:’’ولكن، شيخنا، في هذا المقام، جانب الصواب، وغفر الله لشيخنا‘‘
دوراہا جس قدر نازک،گزرنے والے کی شان بھی اتنی ہی نرالی۔
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
(۳)شیخ البانی کے متعدد شاگردوں کی طرح استاذ محترم نے بھی یہ بتایا ہے کہ شیخ البانی ہی سے تربیت پانے کے بعد ان کے شاگرد دلیل کی بنیاد پر خود شیخ البانی سے مسائل میں اختلاف کیا کرتے تھے، اس طرح یہ استاذ و شاگرد اتباعِ دلیل کے جس منہج کے داعی تھے سب سے پہلے وہ خود اس کی عملی تصویر تھے، استاذ محترم نے یہ بات مکرر ذکر کی کہ انھوں نے شیخ البانی سے عورت کے لیے چہرے کا پردہ واجب ہونے کے مسئلہ میں بارہا مناقشہ کیا، بحث بار بار ہوئی مگر کوئی بھی دوسرے کو مطمئن اور قائل نہ کرسکا۔
(۴)وفات سے پہلے استاذ محترم نے جو وصیت فرمائی اس میں خصوصی طور پر یہ بات بھی تھی کہ آپ کی وفات پر متعلقین و رشتہ داروں سے تعزیت کے لیے گھر پر تعزیتی مجلس کا اہتمام کرنے کے بجائے قبرستان ہی میں تعزیت کرلی جائے۔
غفر الله لشيخنا ورحمه ورفع درجاته في عليين۔ آمين
آپ کے تبصرے