امسال(١٤٤٥ھ) حج میں اموات کے لیے سعودی حکومت کتنی ذمہ دار؟

شیرخان جمیل احمد عمری متفرقات

امسال فسادی ٹولہ اور ان کے حواری دوران حج سیاسی مظاہروں کا پلان بنارہے تھے لیکن سعودی انٹلجنس نے ان سب کو حج سے پہلے ہی قابو کرلیا تھا۔
ما قدر اللہ وشاء دوران حج ہزار بارہ تیرہ سو حجاج کی موت واقع ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ ان سبھوں کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل دے۔ آمین
اس واقعے کو بنیاد بناکر بلدالتوحید سے بغض رکھنے والوں نے سعودی حکومت کے خلاف طرح طرح کے جھوٹے پروپیگنڈے شروع کردیے اور کئی جھوٹی تصویریں پھیلائیں، ادھر ادھر کی تصاویر کو کٹ پیسٹ کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ منی کی تصاویر ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ سعودی حکومت حج کے انتظامات کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور وہ اس لائق بھی نہیں ہے کہ حج کا انتظام کرسکے۔ ان اموات کو لے کر بدخواہوں نے سوشل میڈیا پر سعودی حکومت کے خلاف اس قدر جھوٹ پھیلایا کہ اللہ کی پناہ!
بالخصوص سلفی علماء اور بالعموم بلدالتوحید سے محبت کرنے والوں نے ان دشمنان مملکہ کے جھوٹے پروپیگنڈوں کا پردہ فاش کیا اور ان کے بیانیے کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ سچائی یہ سامنے آئی کہ جن لوگوں کی موت واقع ہوئی ہے ان کی اکثریت غیر قانونی دراندازوں کی تھی اور یہ سب ممنوعہ حصار کو توڑ کر زبردستی گھس کر حج کر رہے تھے۔ ان لوگوں کے پاس نہ حج کا ویزا تھا اور نہ حج کی تصریح۔ یہ سارے لوگ ٹورسٹ ویزا پر مکہ آئے ہوئے تھے۔ ویزا کے دستاویز پر یہ صاف لکھا ہے کہ یہ ویزا حج کے لیے ویلڈ نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان کے ایجنٹوں نے انھیں یہ یقین دلاکر مکہ بھیجا تھا کہ انھیں حج کا پرمٹ لے کر دیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ ممکن بھی نہ تھا۔ ایسے حجاج جن کے پاس “نسک کارڈ” نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کے پاس منی وغیرہ میں نہ رہنے کے لیے ٹینٹ تھے اور نہ کھانے پینے کے انتظامات، یہ سارے لوگ جو زیادہ تر عمر رسیدہ تھے شدید گرمی میں سڑکوں پر دن رات گزار رہے تھے۔ گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کے دن ان میں سے کمزور لوگوں کی ہمت جواب دے گئی جس کی وجہ سے کوئی چلتے چلتے تو کوئی بیٹھے بیٹھے راستوں ہی میں چل بسا۔ ان میں سے اکثر لوگوں کی لاشیں سڑکوں ہی پر پڑی ملیں۔ ان اموات کے پاس نسک کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر پڑی لاشوں کی شناخت اور رسمی کاروائی دشوار ہوگئی تھی۔ جس کی وجہ سے ان لاشوں کو اٹھانے اور ٹھکانے لگانے میں معمول سے زیادہ وقت لگا۔ یہ اموات نہ کسی بھیڑ کی وجہ سے ہوئیں اور نہ کسی بدنظمی سے ہوئیں بلکہ گرمی کی شدت سے ہوئیں۔
ان اموات کے لیے اولین قصور ان ایجنٹوں کا تھا جنھوں نے ان کو دھوکہ دے کر غیر حج ویزا پر سعودی عرب بھیجا تھا۔ اسی لیے مصر، اردن، تیونس وغیرہ (جہاں کے حاجی زیادہ فوت ہوئے) کی حکومتوں نے ان ایجنٹوں کو بلیک لسٹ کرکے ان پر تاحیات پابندی لگادی اور ان پر جرمانہ اور سزاؤں کا بھی اعلان کیا۔
مصر کی کیبنٹ نے یہ بیان دیا ہے کہ رسمی طور پر کل 50 ہزار مصری شہری حج کے ویزا پر حج کے لیے تشریف لے گئے۔ جو 658 مصری حاجی فوت ہوئے ان میں 630 حاجی غیر قانونی تھے۔ اور جو بقیہ 28 حاجی فوت ہوئے ہیں وہ 50 ہزار قانونی حجاج میں سے تھے جو اپنی پرانی بیماریوں کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں۔ مصری کیبنٹ کا یہ فیصلہ کن بیانیہ ہے جس سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ ان اموات کے پیچھے اصل سبب کیا تھا۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس حادثے میں سعودیہ کا کتنا قصور ہے؟ اس حادثے میں سعودیہ کہاں کھڑا ہے؟ ان اموات کے لیے اس کی کتنی ذمہ داری بنتی ہے؟ کیونکہ بالآخر یہی منتظم اعلی ہے۔ ان کے انتظامات میں نقص کی وجہ ہی سے یہ افراد بغیر اجازت نامہ کے منی، مزدلفہ، عرفات میں داخل ہوئے۔ ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا کہ اس سال سعودی سیکیورٹی فورسز نے بغیر اجازت نامہ کے منی میں داخلہ کی کوشش کرنے والے لگ بھگ چار لاکھ افراد کو روکا ہے۔ اس کے باوجود چند ہزار لوگ مختلف پہاڑی علاقوں سے منی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اس مسئلے میں سعودی حکومت کی ذمہ داری کی مثال اس گھر والے جیسی ہے جس نے اپنے گھر کی حفاظت کے لیے تالا ڈالا لیکن کچھ لوگ دیوار توڑ کر یا اس کو پھاند کر گھر میں داخل ہوگئے۔ پھر بھی کچھ لوگ سعودی حکومت کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے یہ کہتے ہیں انھیں اپنے گھر کی دیواروں کو مزید مضبوط بنانی چاہیے تھی اور ان دیواروں کو اور اونچا بھی کردینا چاہیے تھا!
معلوم رہے کہ کبار علماء نے بغیر اجازت نامہ کے حج کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔
آخر میں یہ بتاتا چلوں کہ دنیا بالخصوص ویسٹ سعودی عرب کے حج کے انتظامات کی نہ صرف تعریف کرتا ہے بلکہ وہ حیرت واستعجاب کے اندر بھی مبتلا ہے کہ مختلف زبان و تہذیب اور بیک گراؤنڈ رکھنے والے دو سو ممالک کے دو ملین لوگوں کا استقبال کرنا، انھیں ایک جگہ ایک ڈیڑھ ماہ بغیر کسی ناگوار واقعہ کے سنبھالنا، کھانے پینے دوا علاج اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کا انتظام کرنا پھر بخیر وعافیت ان سبھوں کو اپنے اپنے ملکوں کو لوٹانا غیر معمولی کارنامہ ہے۔ اس سے سعودی حکومت کی کمال درجہ کی انتظامی صلاحیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔
صاف دل اور انصاف پسند لوگ اتنے بڑے انتظام کی کامیابی پر سعودی حکومت کی تعریف کیے اور انھیں مبارک باد دیے بغیر نہیں رہ سکتے، بقیہ اتنے بڑے اجتماع میں چھوٹے موٹے واقعات کا رونما ہونا ایک فطری امر ہے، کمال اللہ کی ذات کو حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ بلدالتوحید اور اس کی قیادت کی حفاظت فرمائے اور انھیں مزید نیک توفیق دے۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
وسیم عمری

اللہ تعالی سعودی عرب کی ہر شر سے حفاظت فرمائے