اور دین مکمل ہو گیا (شب برأت کے پس منظر میں)

ذکی نور عظیم ندوی عقائد

قرآن کریم میں بہت سی آیتوں اور سورتوں کی الگ سے فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔’آیۃ الکرسی‘ کو سب سے عظیم آیت، ’سورۃ الفاتحہ‘ کوسب سے عظیم سورت اور ’سورہ اخلاص‘ یعنی قل ھو اللہ احد کو ’ثلث القرآن‘(ایک تہائی قرآن) کہا گیا، لیکن قرآن کریم میں سورہ مائدہ کی آیت نمبر۳ کے جزء ’الیوم أکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘ کے تعلق سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول نہیں ملتا، اس کے باوجود یہود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ قرآن میں ایک آیت ایسی ہے کہ اگر وہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کو عید اور خوشی کا دن مناتے، اپنے لیے باعث افتخار مانتے اور اس کا اظہار کرتے،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بھی اس کو مانا اور کہا کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ آیت کون سی ہے کس جگہ پر کس موقع پر نازل ہوئی۔ لیکن ہم پابند ہیں اللہ اور رسول کی اطاعت کے، ہم کوئی ایسا عمل نہیں کریں گے جس کی تائید اللہ کے کلام یا میرے نبی سے نہ ہو۔
لہذا ضرورت ہے کہ اس کی عظمت کے پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے، اس سلسلے میں مختلف اقوال ملتے ہیں بعض لوگوں نے اس کو قرآن کریم کی آخری آیت قرار دیا ،حالانکہ یہ راجح نہیں بلکہ زیادہ تر لوگوں نے سورہ بقرہ کی آیت
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

کو آخری آیت قرار دیا ہے۔
لیکن اس آیت کے دو پہلو ایسے ہیں جو اس کی عظمت کی دلیل اور نہایت اہم سبب مانے جا سکتے ہیں اور دین کے بہت سے مسائل کو پوری طرح واضح کر دیتے ہیں انھی میں شب برأت، ربیع الاول اور محرم بھی ہیں ۔
۱۔جب دین مکمل ہو گیا تو اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے بعد جو واقعات پیش آئے ان کی تاریخی حیثیت جو بھی ہو، اس کی بنیاد پر دین میں کسی شعار کے اضافے کی قطعاً گنجائش نہیں۔
۲۔جو چیزیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بار بار پیش آئے اگر اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے کسی عمل کا ثبوت نہیں تو وہ کبھی بھی دینی شعار یا دین کا جزء ہو ہی نہیں سکتا۔
لہذا یہ آیت ’الیوم أکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا‘ یعنی دین مکمل ہو گیا، بہت سے مسائل چاہے اس کا تعلق شب برات سے ہو،ربیع الاول، محرم ، یا کسی دیگر عبادت و مسائل سے ہو واضح کر رہی ہے کہ دین کے مکمل ہونے کا مطلب یہی ہے کہ جو چیزیں نبی کے زمانے میں نہیں تھیں اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا تو وہ دین کا جزء ہو ہی نہیں سکتے۔ اسی طرح نبی کے بعد کے کسی بڑے سے بڑے تاریخی واقعہ سے بھی دین کے کسی شعار یا عمل کے اضافے کو کسی طرح درست نہیں مانا جاسکتا۔

آپ کے تبصرے

3000