قلبی واردات اور دیگر کچھ مضامین کی طرح اس میں بھی اشکال کے کئی پہلو تھے، مگر اس مضمون کی خاص بات یہ ہے کہ آپ نے کسی بھی اشکال کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ یہ موضوع اتنا اہم اور اس میں مذکور مرض اتنا عام ہے کہ اس پر گفتگو کرنے والے اردو میں جب بھی کچھ کہتے یا لکھتے ہیں تو عموما عربی سے ترجمہ کرتے ہیں اس لیے موضوع کا خصوص اور مواد کی لفظیات اسے ایک خاص اوپری سطح سے نیچے نہیں لا پاتے۔ آپ نے سوچا چاہے جس زبان میں ہو مگر مشاہدہ اپنی زمین میں کیا ہے اسی لیے اپنے لوگوں سے اپنی زبان میں بات کی ہے جس کے نتیجے میں موضوع عام فہم اور مدعا اظہر من الشمس ہوگیا ہے۔ نصوص کے استحضار نے خودی، خودداری، خوداعتمادی، خودشناسی، خودپسندی، خودفریبی، خودستانی، خودنمائی، خودرائی اور خدائی جیسی مصطلحات کو فلسفیانہ موشگافیوں میں تبدیل ہونے سے بچالیا ہے۔ بارک اللہ فیکم
اس مضمون کا کرافٹ بہت ہی شاندار ہے، عنوان سے لے کر تمہید، تمدید کلام، طرز پیش کش، موضوع کے ایک ایک باب کو ایک ایک یا دو دو جملے کے پیراگراف میں سمیٹ دینے اور کلوزنگ سطور کو پیپر پن کی طرح آخری کنارے پر بڑی خوبصورتی سے ٹانک دینے کی وجہ سے یہ مضمون تمام قسم کے اشکالات سے بے نیاز ہوگیا ہے۔ اللہ رب العالمین اس مرض سے ہم سب کو بچائے۔ آمین
اس تحریر کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ ہر وہ قاری جس کا دل اور دماغ دونوں صحیح جگہ پر ہوں گے سب سے پہلے اپنا ہی چہرہ اس آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرے گا اور کچھ بعید نہیں کہ پھر رفتہ رفتہ دائیں بائیں دوسرے کئی جانے پہچانے چہرے بھی نظر آنے لگیں۔
(ایڈیٹر)
عرفان نفس کا بھی ایک سفر ہوتا ہے جو ہر انسان اپنی ذات کے اندر ہی اندر طے کرتا ہے، اس سفر میں راستے کے نشیب و فراز کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے اور اکثر لوگوں کو اس راہ میں ٹھوکر کھاکر گرنے میں یا سنگِ میل کو منزلِ مقصود سمجھ لینے میں یا پھر نشانِ منزل کو پہچاننے سے چوک کر آگے بڑھ جانے میں دیر نہیں لگتی۔
اس راہ کا وہی رہرو کامیاب ہوتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضلِ خاص سے نورِ بصیرت عطا فرمایا ہو، جو خود کو درِ ہدایت کا گداگر مانتا ہو
((وَٱلَّذِینَ ٱهۡتَدَوۡا۟ زَادَهُمۡ هُدࣰى وَءَاتَاهُمۡ تَقۡوَاهُمۡ))
رہے وہ لوگ جنھوں نے جستجو سے سیدھی راہ پالی ہے، اللہ اُن کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انھیں اُن کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔ (سورہ محمد:١٧)
یا وہ جسے کسی مردِ حق آگاہ کی صحبت اور تربیت میسر ہو جو اسے اس پرخطر راہ پر چلنے کے شرعی راز و انداز سکھلائے:
((وَلَـٰكِن جَعَلۡنَـٰهُ نُورࣰا نَّهۡدِی بِهِۦ مَن نَّشَاۤءُ مِنۡ عِبَادِنَاۚ وَإِنَّكَ لَتَهۡدِیۤ إِلَىٰ صِرَ ٰطࣲ مُّسۡتَقِیمࣲ))
مگر اُس کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھاتے ہیں یقیناً آپ راه راست کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ (سورة الشورى: ٥٢)
عرفان نفس کا ایک مرحلہ خودشناسی کا ہے۔ خودشناسی کے بغیر کوئی انسان عظیم نہیں بنتا، یہ خوبی انسانی کمالات میں سے ایک ایسا کمال ہے جو بجائے خود عظیم ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سارے کمالاتِ انسانی کے لیے دروازہ کی حیثیت رکھتی ہے، اسی دروازے سے گزر کر ایک انسان خودی، خودداری، خوداعتمادی، عزت نفس اور خود کی اور اپنے اندر پائی جانے والی خوبیوں اور صلاحیتوں کی قدر کرنا جیسے عظیم مقامات تک کا سفر طے کرتا ہے۔
مگر یہی خودشناسی جب بے لگام ہوجائے اور حد سے گزر جائے تو پھر انسان خودپسندی، خودفریبی اور پھر اسی خود فریبی کے زیر اثر خودستانی، خودرائی، حق ناشناسی اور دوسروں کی حق تلفی تک چلا جاتا ہے۔
اسی لیے زندگی کے ہر معاملے کی طرح عرفان نفس کے اس شخصی سفر میں بھی آدمی کو افراط و تفریط سے بچ کر میانہ روی کے ساتھ چلنا چاہیے جو ایک عظیم عبادت بھی ہے اور دنیا و آخرت ہر دو جگہ کامیابی کی ضمانت بھی۔
“خود” کا سفر “خودی” اور “خودشناسی” تک اچھا ہے مگر اس حد اعتدال سے آگے بڑھ کر اگر انسان “خدائی” تک جا پہنچے تو پھر وہ کمال کے بجائے زوال کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے۔
عرفان نفس کی راہ کے خطرات میں سے ایک خطرہ جس سے ہر ایک سالک اور اس راہ کے ہر راہرو کو آگاہ رہنا چاہیے وہ انسان کے اندر کا اپنا بت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان دوسروں کے مقابلے اپنی خوبیوں سے بذات خود زیادہ واقفیت رکھتا ہے۔ انسان کے عیوب کی طرح انسان کی خوبیوں پر بھی اکثر پردہ پڑا رہتا ہے جس کی وجہ سے دوسرے ان خوبیوں کو دیکھنے سے اکثر قاصر رہتے ہیں تاہم انسان خود سے بیگانہ نہیں ہوتا بلکہ وہ دوسروں سے تو کم ہی واقف ہوتا ہے مگر خودشناسی سے سرشار ہوتا ہے اور خود سے پرائے سے واقفیت کا یہی فرق اور تفاوت انسان کے اندر اس بت کو جنم دیتا ہے جس کا بالآخر وہ پجاری بن جاتا ہے۔
اس طرح ہر انسان کے اندر ایک بت ہوتا ہے جس کا پہلا پجاری اکثر وہ انسان خود ہوتا ہے۔
پھر خود کا پجاری ایسا انسان مزید آگے بڑھ کر اکثر اسی تگ و دو میں لگ جاتا ہے کہ دوسروں سے بھی اپنی خدائی کسی نہ کسی طرح منوالے جائے۔
اسی حقیقت کو حدیث مبارک میں رب ذوالجلال کی چادر پر ہاتھ ڈالنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الْعِزُّ إِزَارُهُ، وَالْكِبْرِيَاءُ رِدَاؤُهُ، فَمَنْ يُنَازِعُنِي عَذَّبْتُهُ۔
ناقابل تسخیر ہونا اس کا ازار ہے اور کبریائی اس کی چادر ہے۔ اب جو اس کو مجھ سے لینا چاہے گا میں اسے عذاب کے حوالے کردوں گا۔ (مسلم:٢٦٢٠)
ایک دوسری حدیث قدسی میں ارشاد ہوا:
الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي ، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا، قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ۔
کبریائی میری چادر ہے اور عظمت و بڑائی میرا ازار۔ اب جو کوئی ان میں سے کسی ایک کو مجھ سے لے لینا چاہے گا میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا۔ (أبودواد:٤٠٩٠)
ایک مسلمان کو یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ اللہ تعالی کے قرب اور اس کی بندگی کا کمال اسی میں ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے اس اندرونی بت کو توڑدے، “خود” کی نفی کرے اور “خدا” کی برتری کے آگے سر تسلیم خم کردے۔
خود کا پجاری شخص کفر تک نہ بھی پہنچے تو کم از کم کفرانِ نعمت تک ضرور پہنچتا ہے۔
پھر وہ کفران نعمت کئی صورتوں میں ظاہر ہوگا۔
* کبھی “إنما أوتيته على علم عندي” یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ بوجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے (سورة القصص: ٧٨) کے لب و لہجے میں ظاہر ہوگا۔
* کبھی “أنا خير منه” میں دوسرے سے بہتر ہوں (سورة الأعراف: ١٢) کے لبادے میں سامنے آئے گا۔
* اور کبھی احساس برتری میں ڈوب کر “ليخرجن الأعز منها الأذل” عزت واﻻ وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا(سورة المنافقون:٨) کی زبان بولے گا۔
* وہ کبھی نگاہِ بصیرت سے اندھا ہوگا جو حق کو اور حقدار کو دیکھنے سے قاصر ہوگا تو کبھی زبانِ اعتراف سے محروم ایک گونگا ہوگا جس کی زبان پر دوسرے کے لیے حرفِ اعتراف بمشکل ہی آ پائے گا۔
* وہ اکثر حق و حقیقت کی پذیرائی اور سماعت سے بہرا ہوگا۔
* خود کے پجاری کو ہر طرف صرف اپنی ہی ذات نظر آئے گی اور اپنے ہی کارناموں کی گونج سنائی دے گی۔
* وہ خود یہی چاہے گا کہ ہر کوئی صرف اس کے گن گائے۔
* وہ کبھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ دوسروں کے کارنامے اور خوبیاں اس کے سامنے گنائی جائیں۔
* اگر مجبورا کبھی کسی دوسرے کی خوبی گنا بھی دے گا تو کچھ اس انداز میں کہ”میرے بعد یا میرے علاوہ میں نے آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا”۔
* اور اگر کبھی ایسا ہو کہ کوئی دوسرا شخص اس کے سامنے کسی تیسرے کی خوبیوں کا تذکرہ کردے تو اس کاذہن اور زبان فوری موازنہ پر اتر آئیں گے کہ “ٹھیک ہے وہ ہوگا مگر میرے برابر کا تو نہیں۔۔”۔
* وہ اس قدر کمزور شخصیت کا مالک ہوگا کہ دوسرے کسی ادنی سے شخص کی معمولی خوبی کے تذکرہ کو بھی خود کی تنقیص سمجھے گا۔
* وہ خود کے مداح تو پیدا کرے گا مگر محنت کرکے کسی کو اپنے جیسا یا اپنے سے بہتر بنانے کی کوشش کبھی نہیں کرے گا۔
* وہ ایسا “سیلیبریٹی” تو بنے گا جس کے “فین” بے شمار ہوں مگر کبھی ایک خیرخواہ معلم و مربی نہیں بنے گا۔
* ایسے پجاری خدائی کے دعویدار نہ بھی ہوں تو خود کو خدائی فوجدار سے کم بھی نہیں سمجھتے۔
* ان کی عدالت میں ہر کوئی مجرم نہیں تو ملزم بن کر ضرور کھڑا ہوگا مگر وہ خود کو کبھی خود کی عدالت میں بھی کٹہرے میں کھڑا دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔
* خود کے یہ پجاری اکثر خود اپنے پیروں پر بھی کلہاڑی مار لیتے ہیں۔ وہ خود کو اس قدر مکمل سمجھنے لگتے ہیں کہ مزید کمالات کی طرف پیش قدمی کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔
* ان کی اپنی زندگی میں خود کو بنانے اور سنوارنے کے مسلسل سفر میں ایسا پڑاؤ آئے گا کہ غیر شعوری طور پر وہی پڑاؤ آخری منزل بن جائے گا۔
* وہ انتہائی باصلاحیت لوگوں کے درمیان خوبیوں اور صلاحیتوں کے بھنڈار کے بیچ ہوں گے مگر ان میں سے کسی سے بھی کچھ بھی کشید کرنے کے قابل نہیں رہ جائیں گے۔
اسی لیے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا تھا:
رحم الله امرأ عرف قدر نفسه (تفسير القرطبي: النحل: ١٤)
خود کے پجاری ایسے لوگ ہر میدان اور سماج کے ہر طبقہ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ جہاں ہوتے ہیں وہاں ترقی کا سفر رک جاتا ہے، شخصی بھی اجتماعی بھی، جس شعبہ میں رہتے ہیں وہاں چاپلوسی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ وہاں حقیقی ترقی کے بجائے خودستانی پر مبنی حصولیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ پورا شعبہ یا گروہ ایسے خول میں بند ہوتا جاتا ہے جہاں تک حق پرستی اور حقیقت پسندی کی رسائی قریب قریب ناممکن ہوجاتی ہے۔ حقیقت کی روشنی کے ہالے میں جینے کے بجائے خودفریبی کے ایسے اندھیرے کہ اللہ کی پناہ!
(أَوۡ كَظُلُمَـٰتࣲ فِی بَحۡرࣲ لُّجِّیࣲّ یَغۡشَاهُ مَوۡجࣱ مِّن فَوۡقِهِۦ مَوۡجࣱ مِّن فَوۡقِهِۦ سَحَابࣱۚ ظُلُمَـٰتُۢ بَعۡضُهَا فَوۡقَ بَعۡضٍ إِذَاۤ أَخۡرَجَ یَدَهُۥ لَمۡ یَكَدۡ یَرَىٰهَاۗ وَمَن لَّمۡ یَجۡعَلِ ٱللَّهُ لَهُۥ نُورࣰا فَمَا لَهُۥ مِن نُّورٍ)
یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو، پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں۔ الغرض تاریکیاں ہیں جو اوپر تلے پےدر پے ہیں۔ جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے، اور (بات یہ ہے کہ) جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ (سورة النور:٤٠)
اسی لیے ہر انسان کو چاہیے کہ خودشناسی کے اس سفر میں خودی تک جائے خدائی تک نہیں کہ یہ خدائی درحقیقت نفس کی غلامی ہے۔
یہ ایسے شخص کی راہ ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوا:
(أَرَءَیۡتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَـٰهَهُۥ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَیۡهِ وَكِیلًا أَمۡ تَحۡسَبُ أَنَّ أَكۡثَرَهُمۡ یَسۡمَعُونَ أَوۡ یَعۡقِلُونَۚ إِنۡ هُمۡ إِلَّا كَٱلۡأَنۡعَـٰمِ بَلۡ هُمۡ أَضَلُّ سَبِیلًا)
کیا آپ نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا آپ ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہیں؟ یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے۔ (سورة الفرقان: ٤٣،٤٤)
ماشاءالله.بارك الله فيك يا شيخناالكريم.تقبل الله جهودكم.اللهم احفظنا من الكبر والرياء…آمين يارب العالمين
Mashallah barakallah feekum Allah ustade mohtaram ki koshishon ko qabool farmaye aameen Allah ustade mohtarama Ko sehat o tandrusti k saat lambi umar ataa kare aameen
بہت پیاری تحریر، اللہ برکت دے۔ بھائی عبد الحسیب مبارک ہو۔