ٹرین پوری برق رفتاری سے چل رہی تھی، ہوا کے تیز جھونکوں نے میرے چہرے کی ہیئت بگاڑ دی تھی، بال بکھرے ہوئے تھے، جسم گرد و غبار سے اٹ گیا تھا، جنرل کلاس کا ڈبہ اپنی ہیئت کذائی پر آنسو بہا رہا تھا، جگہ جگہ تعفن سےاندر کی فضا مسموم زدہ تھی، افراد کی اضافی تعداد سے وہاں رکنا مشکل معلوم پڑتا تھا، ایسے میں پیاس کی شدت سے میری حالت قابل رحم ہوگئی تھی۔
عمر کے جس پڑاؤ پر میں نے قدم رکھا ہے وہ بڑا کرب آمیز ہے۔ میری منزل قریب آرہی ہے، ٹرین کی سیٹی میں وصل کی لذت ہے نہ ہجر کا سرور، اترنے والے مسافر دروازہ کی طرف بڑھ رہے ہیں، بھیڑ اتنی ہے کہ میں مسافروں میں دبا پڑا ہوں، میری حالت بالکل ایسی ہے جیسے دو شکاری بگلے کسی مچھلی کے لیے زور آزمائی کر رہے ہوں۔ اسٹیشن آچکا ہے، ٹرین کی رفتار ماند پڑ رہی ہے اور اترنے والوں کا جوش بڑھ رہا ہے، میری حالت قابل رحم ہے، بھوک پیاس کی شدت نے مجھے نڈھال کر رکھا ہے لیکن اپنی بچی کچھی طاقت کا استعمال کرکے میں نے اترنے کی کوشش کی اور شاید اس میں کامیاب بھی ہوگیا۔ اسٹیشن کے دیدار نے یادوں کا ایک جھونکا ذہن و دماغ پر مسلط کردیا، میں مبہوت و ششدر ہر چیز کو دیکھتا رہا، یہی ہے میرا وطن جس کی خاک نے میری آنکھوں میں ایسی دھول جھونکی تھی کہ آج کا دن ہے اور وہ دن جس کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا، وقت کی تیز رفتاری نے آج مجھے ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ تیس سال کا عرصہ ایک خواب لگ رہا ہے، آج میں پورے تیس سال بعد اپنے وطن میں کھڑا ہوں، بالکل اس ناکام عاشق کی طرح جس کے محبوب کی بے وفائی نے اس کی زندگی مایوسیوں سے بھر دی ہے۔
شام کا دھندلکا فضا میں فرحت آگیں کیف و سرور پیدا کر رہا تھا، سمیرہ سے وہ آخری ملاقات تھی، قصبہ نما وہ گاؤں اب شہر میں تبدیل ہوچکا تھا، شہر کا یہ بناوٹی اور معکوس حسن مجھے اپنے ماضی کی حسین یادوں میں لے کر چلا گیا، گاؤں کا وہ قدرتی حسن شہر کی بھینٹ چڑھ چکا تھا، اسٹیشن کے قریب املتاس کا وہ درخت مجھے نہیں دِکھا جس کے زرد پتے ارد گرد کے ماحول کو رومان پرور بنادیتے تھے، مجھے مسجد کے قریب بنا بڑا سا وہ چبوترہ بھی نہیں ملا جس پر میں اور سمیرہ کبھی ساتھ کھیلا کرتے تھے، شاید وہ وہاں بنی سڑک کی نذر ہوچکا تھا، سمیرہ کے ساتھ بیتے لمحات یاد آئے، بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، سماج کے کئی سفاک اور بے درد چہرے آنکھوں کے سامنے سے گذر گئے۔
میں سات بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹا تھا، دو بڑے بھائی پھر چار بہنوں کے بعد میرا نمبر آتا تھا، سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر میں لاڈ پیار ملنا فطری تھا، شاید اسی چیز نے میرے اندر کچھ ضد اور بے خوفی پیدا کردی تھی، غلط سماجی عناصر سے لڑ جانا عام بات تھی، شاید خون کی گرمی تھی یا کیا تھا کہ حق کے لیے ڈٹ جاتا تھا، کچھ کرنے کا عزم ایسا تھا کہ راہ کے پتھر ہوا معلوم ہوتے، خاندان مالی اعتبار سے مضبوط تھا، کچھ کھونے کی فکر تھی نہ کچھ پانے کی لالچ، عجیب جنون سوار تھا، بچپن کیسے جوانی میں داخل ہوا، جوانی کیسے پرجوش ہوئی اور اس جوش پر کیسے داغ بھی آگئے، بھلائے بھولتا نہیں۔
میرا اور سمیرہ کا بچپن ایک متعین عہد تک آتے آتے شرم و حیا میں تبدیل ہوگیا، دیوار کی منڈیروں نے پردہ حائل کردیا، پھر بھی ملگجی شاموں کا حسن کبھی کبھی دوبالا ہوجاتا تھا، یہ مواقع اتنے فرحت بخش ہوتے تھے کہ کئی دنوں تک اس کی سرشاری ختم نہیں ہوتی تھی، چلمن سے لگے پرفریب حسن کی معصومیت کا آج کے بے معنی حسن کے دجل سے کیا مقابلہ، رمز و کنایہ میں زلف و عارض کی بات کرنے والے لوگوں کی محبت آج کے بے حیا ماحول سے بہت مختلف تھی۔ معاشرتی اقدار کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے میں نے گھر میں سمیرہ سے اپنا رشتہ طے کرنے کی بات کی، مجھے یہ زعم تھا کہ لاڈ پیار میں پلا بڑھا بے خوف بچہ اپنی ہر ضد تو منوا ہی لیتا ہے، لیکن یہاں تو ایک الگ ہی قیامت برپا ہوگئی، پورے گھر میں کہرام مچ گیا، یہ کیسے جرأت ہوئی کہ تم اپنا رشتہ خود طے کرو، حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے میں نے فورا خاموشی اختیار کرلی، لیکن یہ خیال ذہن سے کبھی نہیں گیا کہ آخر میں نے کون سی غلط چیز مانگ لی تھی۔
محبوب چیز کو پانے کے لیے انسان امید و بیم کی راہیں نہیں چھوڑتا، کیونکہ اس سے حوصلوں اور کوششوں کو جلا ملتی ہے، امنگوں اور تمناؤں میں توانائی آتی ہے، یہاں تو محبوب کی بات تھی جو میری فکر و خیال کا دائمی مرکز تھا،جس کے پانے کی تمنا مجھے ہر بغاوت پر آمادہ کر رہی تھی، میں سماج اور معاشرہ کی ہر ایسی زنجیر کو توڑ دینا چاہتا تھا جو ایک جویائے حق کے راستے میں پابند سلاسل کی مانند ڈال دی گئی ہو، میری حوصلہ مندی، غیرت، ایقان اور اسٹیٹس کی وجہ سمیرہ کے والدین اس رشتہ کے لیے تیار تھے، ان کی آمادگی سمیرہ کے جذبات و احساسات کی واضح ترجمان تھی، لیکن میرے گھر کے آگے ایسی کیا انا آگئی تھی کہ میری ہر کاوش پر وہ انا مضبوط ہوتی گئی۔ دوسری طرف، میں کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہتا تھا جو میرے یا کسی دوسرے کے گھر کی عزت پر آنچ آنے دے، میرے صبر و ضبط کے تمام بندھن ٹوٹتے اور بکھرتے ہوئے نظر آنے لگے، اور بالآخر دلبرداشتہ ہوکر میں نے فیصلہ کیا کہ اس مکین و مکان کو چھوڑ جانا ہی بہتر ہے، ورنہ یہاں کی سکونت مجھے ندامت و غیرت کے ایسے عمیق گڈھے میں ڈال دے گی جس سے نکل پانا شاید میرے لیے ممکن نہ ہو۔
کہتے ہیں مرد بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہوتا ہے، جذبات پر کنٹرول رکھتا ہے، مصائب اور مشکلات کو بھول کر نئی منزل تعمیر کرنا اس کی فطرت ہے، نئے شہر میں پہلی افتاد روزگار کی تلاش ہوتی ہے، غم عاشقی کا تازیانہ لیے غم روزگار کی فکر میں در در کی ٹھوکریں کھائیں، کچھ سنبھلے تو مرتے کیا نہ کرتے، گھر بھی بسالیا، لیکن دل کی دنیا ویران رہنے لگی، قلب و ذہن کی آفاقیت پر چاند گہنا گئے،اب اس معمورے کی رنگینی ایک آنکھ نہیں بھاتی، زندگی برائے زندگی ایک کانٹوں کی سیج ہوگئی اور اس پر چلنا میرا مقدر بن گیا تھا۔
آگہی کا یہ عذاب لےکر اسٹیشن سے آگے بڑھا تو آنکھیں اشکبار تھیں، آنسوؤں کی نمی نے گویا آگے کے راستے مسدود کردیے تھے، وہیں سر راہ ایک خالی جگہ پر بیٹھ گیا، ہر شخص اجنبی اور درد کا مارا نظر آرہا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ میرا ہی غم سب کو لاحق ہے، خیال کی یہ آفرینی اس وقت فرو ہوئی جب ایک بزرگ شخص نے ہنس کر سلام کیا، علیک سلیک کے بعد خیریت بھی دریافت کی اور کہا کہ پہچانتا تو نہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ تم میرے شہر کے ہی باسی ہو۔
‘‘آپ کیسے ہیں’’ میں نے سوال کیا۔
‘‘میں ٹھیک ہوں’’اس نے جواب دیا، قبل اس کے کہ وہ مجھ سے کچھ اور پوچھتا میں نے اس کا تعارف پوچھ لیا۔
‘‘لوگ مجھے منیم پکارتے ہیں، قلمی نام آفریدی ہے، لیکن اصل نام عمران رکھتا ہوں، یہاں کی مشہور و معروف چیریٹی تنظیم کا منشی ہوں، اس تنظیم کی بانی و مالکن سمیرہ ضیغم ہیں، شہر کے بڑے بڑے سوداگران ان سے رشتہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس اللہ والی نے اپنی زندگی لوگوں کے لیے وقف کر رکھی ہے۔’’یہ کہتے ہوئے وہ خاموش ہوگیا پھر تھوڑی دیر بعد وہ مجھ سے پوچھ بیٹھا کہ بیٹا تمھارا نام کیا ہے؟
‘‘ضیغم’’تھوڑے سے توقف کے بعد آہستگی سے میں نے جواب دیا۔
جاری رکھیے مزا آگیا
ماشاء اللہ
بہت ہی خوبصورت، ادبیات سے پر افسانہ، اللہ آپ کو ایک کامیاب ادیب بنائے!
ماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر
قابل مبارک باد ہے۔
شاندار اور پر لطف
بہت ہی دلچسپ اور نہایت ہی عمدہ اور انانیت میں ڈوبے ہوئے سماج کی بے نظیر عکاسی