دارالحکومت دہلی میں 9 اور 10 ستمبر 2023 کو دنیا کے بیس بڑے ممالک کا ایک اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے، جسے جی ٹونٹی سمِّٹ (G20 Summit) کے نام سے جانا جاتا ہے، یعنی دنیا کے ایسے 20 ممالک کا اجتماع جو مالی اور دفاعی طاقت و قوت کے اعلی مظہر ہیں، ہندوستان پہلی مرتبہ دنیا کے اعلی اور مضبوط قائدین کے اس اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے، سیکیورٹی کے انتظامات سخت ہیں، ایک لاکھ تیس ہزار سیکورٹی اہلکار مختلف مقامات پر تعینات کیے گئے ہیں، ملک کی بری اور فضائی فوج برابر حفاظتی انتظامات کا جائزہ لے رہی ہے، ٹریفک پولیس نے گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے نئی ہدایت جاری کی ہیں، ٹرینیں متاثر ہیں، عوام کو بہت ساری روز مرہ کی سہولیات سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے، دہلی کو زرق برق لباس عطا کیا گیا ہے، رنگ روغن سے دیواروں کو مزین کیا جارہا ہے، جگہ جگہ ہندوانی ثقافت کو نمایاں کیا گیا ہے، اجلاس کی جگہ پرگتی میدان ہے، اس کی خوبصورتی آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہے۔
نوے کی دہائی میں دنیا نے کئی مالی بحران دیکھے، اس دہائی کے اخیر میں مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک زبردست مالی بحران سے گزر رہے تھے، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور جنوبی کوریا پر اس کا اثر زیادہ تھا، یہ بحران پوری دنیا پر اثر انداز ہوا، عالمی کساد بازاری کے دن دیکھے گئے، انھی مالی بحران کے بعد اس جیسی ناگفتہ بہ حالت سے نمٹنے کے لیے اس گروپ کا وجود عمل میں آیا اور ستمبر 1999 میں اس کی بنیاد رکھی گئی، وقتا فوقتاً اس کے اجلاس ہوتے رہے لیکن 2008 کے عالمی مالیاتی کرائسس کے بعد یہ طے پایا کہ اس کا اجلاس ہر سال ہوگا، یہ گروپ کا 18 واں سالانہ اجلاس ہے، ہندوستان کو یہ ضیافت ایک دسمبر 2022 کو ملی، جس کو جی ٹونٹی صدارت کہا جاتا ہے، اس ضیافت کے ملنے کے بعد سے ہندوستان نے ملک بھر کے 60 مختلف شہروں میں تقریباً دو سو جی ٹونٹی سے متعلق میٹنگ اور پروگرام کرائے ہیں، مئی میں اسی سلسلے کا ایک پروگرام سیاحت سے متعلق تھا جو جموں کشمیر میں منعقد ہوا، چین اور سعودی عرب نے اس کی مخالفت کی اور اس پروگرام میں شرکت کرنے سے یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے، کئی ممالک اور عالمی تنظیموں کا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت نے جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔
جی ٹونٹی کے ممبران ممالک میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کناڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، انگلینڈ، امریکہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔ یہ ایسے ممالک ہیں کہ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا 80 فیصد اور عالمی تجارت کا 75 فیصد حصہ ان کے ہاتھوں میں ہے۔ اسی طرح دنیا کی دو تہائی آبادی ان دیسوں میں بستی ہے، عالمی معیشت کا انحصار انھی ممالک پر ہے، دنیا کا مالی استحکام ان کے رہین منت ہے، ماحولیاتی تحفظ میں یہ ممالک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، فطری اور پائیدار ترقی ان کے بغیر ممکن نہیں لیکن ماحولیاتی آلودگی بڑھتی ہی جارہی ہے، ترقی کی ہوڑ میں فطرت سے کھلواڑ جاری ہے، مہنگائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، عام انسان مالی مشکلات کا سامنا کررہا ہے، بے روزگاری منہ کھولے کھڑی ہے، جابجا انسانی حقوق غصب کیے جا رہے ہیں، کیا یہ جی ٹونٹی کی مجرمانہ غفلت نہیں ہے؟
جی ٹونٹی سمٹ کی میزبانی ہمارے ملک کی ایک بڑی کامیابی سمجھی جارہی ہے، ملکی معیشت ترقی کی راہ پر ہے، انفارمیشن اور ٹیکنالوجی میں ملک آگے بڑھ رہا ہے، دنیا کی نظریں ہندوستان پر ہیں، ایسے میں ملک کو اپنی ترقیات، منصوبے اور حصول یابیوں کے مظاہرہ کا اچھا موقع ہے، یہ اجلاس اس بات پر ترکیز کرے گا کہ کثیرالفریق اداروں کے ذریعہ ترقی پذیر ممالک کو مزید قرض کیسے دیا جائے، بین الاقوامی قرضوں کے ڈھانچے میں اصلاحات، کریپٹو کرنسی کے ضوابط، کلائمٹ چینج اور خوراک اور توانائی کی سلامتی اور اس کی غیر یقینی جغرافیائی صورت حال پر بات چیت مرکوز ہوگی۔ جی ٹونٹی کو اس تنقید کا سامنا ہے کہ اتنی بڑی عالمی تنظیم بیس ملکوں میں ہی محصور کیوں ہے، اس کی ہمہ جہت منفعت تک دوسروں کی بھی رسائی ہونی چاہیے، اس اجلاس میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہندوستان افریقن یونین کو جی ٹونٹی میں شامل کرنے کی تجویز رکھے گا۔
جی ٹونٹی کے دہلی سمٹ کا تھیم اور موضوع سنسکرت کے جملے “وسودھیو کٹمبکم” سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ ہے “دنیا ایک کنبہ ہے”۔ یہ شعار قومی یکجہتی اور عالمی بھائی چارہ پر دلالت کرتا ہے، اسی لیے ممبران ممالک کے علاوہ ہندوستان نے کچھ ممالک کو بطور مہمان دعوت دی ہے ان میں متحدہ عرب امارات، مصر، بنگلہ دیش، عمان، نائجیریا، موریشس، سنگاپور، اسپین، نیدر لینڈ شامل ہیں، اس کے علاوہ دنیا بھر سے بڑی بڑی تنظیموں اور کمپنیوں کے سربراہان اور چوٹی کے ملکی و عالمی صنعت کار اس میں شرکت کر رہے ہیں، ان سے سائڈ لائن گفتگو ہندوستان کے لیے بڑی کار آمد ہوگی، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس اجلاس سے چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن غیر حاضر رہیں گے، جہاں چینی صدر کی عدم شرکت ہند چین تعلقات پر سوال کھڑے کر رہی ہے وہیں روسی صدر کے نہ آنے کا سبب روس یوکرین جنگ سے ان پر عالمی دباؤ کا سامنا ہے۔ روس یوکرین جنگ اس اجلاس کی گفتگو کا لازمی حصہ ہوسکتی ہے۔
یہ دیکھنے والی بات ہوگی کہ ہندوستان اس اجلاس کے ذریعہ عالمی رہنماؤں پر اپنے کیا اثرات مرتب کر رہا ہے، اس کی تجاویز اور مطالبات پر کتنا غور کیا جارہا ہے، نئی بننے والی پالیسیوں پر کتنا عمل در آمد ہورہا ہے، اتنے انتظام و انصرام کا قابل قدر نتیجہ کیا آئے گا، آیا یہ اجلاس عالمی منظر نامے پر نئی پیش رفت کا استعارہ ہوگا، اصلاحات ہوں گی، غربت ختم ہوگی، امن قائم ہوگا یا پھر یہ اجلاس نشستند و گفتند و برخاستند کی مثال ہوگا۔
ماشاءاللہ
قابل تعریف
جی ٹونٹی سبمٹ کی میزبانی یہ ہندوستان کے لیے باعث فخر ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ حکومت ایسے حسین اور قیمتی موقع کو کریڈٹ لینے کے بجائے غنیمت سمجھتے ہوئے ہمارے پیارے وطن ہندوستان کو پھر سے سونے کی چڑیاں بناکر دنیا کے سامنے پیش کرے۔