آج ٥ جون ہے، آج کا دن یوم ماحولیات کے طور پر منایا جاتا ہے، مختلف مناسبت سے عالمی پیمانے پر منائے جانے والے بہت سارے ایام عوام میں بیداری پیدا کرتے ہیں، ایک عہد کی تجدید ہوتی ہے۔
اللہ کی اتنی بڑی کائنات ایک فطری توازن کے ساتھ قائم ہے اور یہی توازن اس کائنات کا حقیقی حسن ہے، تمام سیارے ایک مناسب دوری پر قائم اور گردش میں ہیں، اگر اس دوری میں ذرہ برابر بھی فرق آجائے تو یہ سیارے آپس میں ٹکرا جائیں۔ سورج کی تپش سے زمین کا پانی برابر بخارات میں تبدیل ہوتا ہے، انھی بخارات سے بادل کی تشکیل ہوتی ہے، بادل پانی برساتے ہیں، یوں انسان، حیوان، چرند پرند، پیڑ پودے سب مستفید ہوتے ہیں، ہمارے جینے کا یہ ایک راز ہے تو دوسری جانب زندگی ایک اور توازن سے جڑی ہوئی ہے، یہی پیڑ پودے ہمارے لیے آکسیجن بناتے ہیں جو ایک حیات بخش گیس ہے اور ہمارے ذریعہ نکالی گئی زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائڈ کو غذا بنالیتے ہیں، اخذ و ترسیل کا یہ نظام حیرت و استعجاب کا باعث نہیں؟ اسی طرح زمین کا اپنے مدار سے تھوڑا جھکا ہونا موسم کی تبدیلی کا باعث ہوتا ہے، یوں ہم حسن بہاراں کے مزے لیتے ہیں، ورنہ سوچیے موسم کی یکسانیت کیا گل کھلاتی؟ یہ تو توازن کی چند مثالیں ہیں، ورنہ پوری کائنات اسی توازن و اعتدال سے عبارت ہے، اس توازن کا قیام ہی ماحولیاتی تحفظ کا ضامن ہے، جب یہ توازن متزلزل ہوتا ہے تو ماحولیاتی آلودگی جنم لیتی ہے۔
انسان پہلے اپنی ضروریات پھل، اناج، سبزیوں اور جانوروں کے گوشت سے پوری کرلیتا تھا، وسائل محدود تھے، سر چھپانے کے لیے گھر، معمولی سا لباس اور سادہ کھانا ایک آدمی کے لیے کافی ہوتا تھا، روٹی کپڑا مکان کے لیے انسان چیزوں کو قدرت سے حاصل کرتا تھا، جینے کا یہ ڈھب فطری تھا، پھر صارفیت کا دور آیا، وسائل کی کثرت نے مسائل جنم دیے، تہذیبوں میں تصادم پیدا ہوا، لگزری لائف جینے کے لیے انسان نے کائنات میں وہ توڑ پھوڑ مچائی کہ اللہ کی پناہ!
یورپی دنیا کے لیے اٹھارہویں صدی صنعتی انقلاب سے موسوم ہے، بڑی بڑی ایجادات کی بنیادیں تشکیل میں آئیں، پھر سائنس و ٹکنالوجی نے ایسی ایسی چیزیں ایجاد کی کہ پوری دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی، انسان نے اپنی عقل وخرد سے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے، ہر آن وہ اس میں تغیّر و تبدل کر رہا ہے۔
تسخیر کائنات کی اجازت کیا ملی انسان کائنات میں تصرف کو اپنا ذاتی حق سمجھنے لگا اور ترقی کے نام پر اس نے قدرتی وسائل سے وہ کھلواڑ کیا کہ فطرت کا حیاتیاتی تنوع خطرے میں آگیا، ماحول کے بے جان اجزاء کا استحصال کرکے انسان نے اس پیاری دنیا کو جہنم نما بنادیا، آج ہم نظام فطرت سے کافی دور ہوچکے ہیں۔ دراصل مادیت اور الحاد نے انسان کو اندھا بنادیا، بصیرت و آگہی سے محروم ہو کر اس نے اللہ تعالیٰ کے فطری نظام سے بغاوت کی کیوں کہ انسان کو جب الحاد و بے دینی گھیر لیتی ہے تو وہ اللہ کو بھول جاتا ہے اور کائنات کی تخلیقات میں تبدل و تصرف کو اپنا حق سمجھنے لگتا ہے، اسی لیے اسلام نے روحانیت کی تعلیم دی ہے لیکن دوسری جانب مشرقی قوموں میں بالعموم اور مسلم اقوام میں بالخصوص مادیت سے بے زاری اتنی بڑھی کہ ماحولیات کا جاننا بھی ان کا فریضہ نہ رہا حالانکہ ماحولیات کے تحفظ کو ایک دینی عمل سمجھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ماحولیاتی عدم توازن کے اسباب و عوامل پر نظر ڈالیں تو ظاہری طور پر ہمارے سامنے فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں، صنعتی کارخانوں سے خارج ہونے والے زہریلے کیمیاوی مادے، ٹریفک کی کثرت، تابکاری شعاعوں و زہریلی گیسوں کا اخراج، گھروں سے نکلنے والے فضلات، ایندھن کا غلط استعمال، جنگلات کی کٹائی، سگریٹ-نوشی اور نیوکلیئر پلانٹ سے نکلنے والے تابکاری مادے، وغیرہ کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن جب ہم ماحولیاتی آلودگی کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں اور حقیقت شناسی کی راہ اپناتے ہوئے مکمل غیرجانبداری سے اس کے اسباب و وجوہ کا پتہ لگاتے ہیں تو یہ حقیقت ہم پر واشگاف ہوتی ہے کہ اس کے اسباب و علل تو کچھ اور ہی ہیں؛ معاشی مسائل کی کثرت، سائنس و ٹکنالوجی کا غلط استعمال، ترقی کی دوڑ میں بے محابہ منافست، خود غرضی، مفاد پرستی، حق تلفی اور بے جا خواہشات کی تکمیلات ماحولیاتی عدم توازن کے اصل محرکات ہیں۔
اس بات میں دو رائے نہیں کہ اب سائنس و ٹکنالوجی اور اس کے فراہم کردہ وسائل کے ساتھ جینا ناگزیر ہے، لیکن ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے حکومتی، تنظیمی اور انفرادی سطح پر کام کی اشد ضرورت ہے، پیرس کلائمیٹ اگریمنٹ کا ٹرمپ نے جس انداز میں بائیکاٹ کیا تھا وہ اس کے مفاد پرستانہ ذہن کا بین ثبوت تھا، بائڈن نے آتے ہی مثبت اشارے دیے، پیرس معاہدے کی توثیق کی، بلکہ ماحولیات پر ملکی و عالمی رہنماؤں کے ساتھ ورچوئل میٹنگ کی، یہ ایک خوش آئند اقدام ہے، کیونکہ امریکہ کے فیصلے اقوام عالم پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اسی طرح ملکی پیمانے پر حکومتیں اپنا کردار ادا کررہی ہیں، پوری دنیا میں چھوٹے بڑے ہزاروں منفعتی و غیر منفعتی ادارے ماحولیاتی تحفظ کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں، لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ ہم انفرادی طور ماحولیاتی تحفظ کے لیے کتنی کوشش کر رہے ہیں؟
جامعہ سلفیہ بنارس میں تعلیم جاری تھی، معمول کے مطابق شام میں چہل قدمی کے لیے باہر آیا ہوا تھا، سڑک سے گذرتے ہوئے ایک غیر ملکی سیاح پر نظر پڑی، اس کے ہاتھ میں ایک ڈسپوزل گلاس تھا، شاید وہ کوئی مشروب پینے کے بعد اس کے پھینکنے کی مناسب جگہ ڈھونڈ رہا تھا، دور تک چلنے کے بعد بالآخر اس نے اپنی مطلوبہ جگہ پالی اور وہاں اس نے وہ گلاس ڈال دیا۔ کہنے کو یہ ایک معمولی واقعہ ہے لیکن فردی ذمہ داری اور اس کی حساسیت کی یہ ایک اعلی مثال ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بطور ایک مسلمان اور ہندوستانی شہری ہونے کے ہم بہت کوتاہ عمل ہیں، شعور کی بیداری اور ذمہ داری کا احساس دیر سے کرتے ہیں۔ مثالی قوم کی تشکیل میں حکومتوں کی سیاسی اسٹریٹجی سے زیادہ فرد کے اپنے احساس ذمہ داری کا زیادہ ہاتھ ہوتا ہے۔ مغربی اقوام کی صفائی ستھرائی، رکھ رکھاؤ، نفاست ہمارے سامنے ہے۔ کم سے کم اس معاملے میں ان کی تقلید سے ہمارے دین و ایمان پر کوئی حرف نہیں آنا چاہیے۔
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، اس کی تعلیمات ہر دور میں جنم لینے والے نت نئے مسائل کے لیے تریاق ہیں، مذہب اسلام نے ایسے اصول و مبادیات وضع کیے ہیں جو کسی بھی پیش آمدہ مسئلہ کے تدارک کے لیے کافی ہیں، صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دینا، اسراف و تبذیر سے روکنا، ظلم و زیادتی، حق تلفی اور حد سے بڑھ جانے سے منع کرنا، کفایت شعاری کو اپنانا، اعتدال و میانہ روی کا حکم دینا، فساد فی الارض سے ممانعت اور انسانی جان کی حرمت، یہ ایسے اصول ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، اس کے علاوہ شجرکاری کی تعلیمات، عام راستوں اور پانی پینے کی جگہوں کو گندا کرنے کی ممانعت، رات میں چراغ کو بجھا دینے اور پانی کو ڈھکنے کا حکم، تدفین کا اسلامی طریقہ، جیسی بے شمار ہدایات ہیں جو ماحولیاتی تحفظ کی ضامن ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کریں، کہنا اور لکھنا آسان ہوتا ہے، عمل کرکے سرخرو ہونا الگ بات ہے! اللہ ہمیں اس کی توفیق دے-
آمین