شام شریف; میرا پہلا سفر

ریاض الدین مبارک سفریات

نوٹ:

منظر ایک ہوتا ہے اور نقطہ نظر کا فرق اس کو انیک دکھادیتا ہے۔ شام بھی ایک ہے، صبح کے بعد والی نہیں وہ شام جو عراق کے پاس ہے۔ ہوسکتا ہے اپنی یا کسی اور کی نظر سے آپ دیکھ چکے ہوں، آئیے ریاض بھائی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔

کئی ملکوں کا سفر کرچکے ریاض صاحب نے اپنی یادوں کے سہارے ہمیں ساری جگہیں دکھانے کا وعدہ کرلیا ہے۔ یہ پہلی قسط ہے۔ اپنے سفرنامے کے اگلے سلسلے میں وہ ہمیں کسی اور ملک کی سیر کرائیں گے ان شاء اللہ



بیرون ملک میرا پہلا سفر شام شریف یعنی دمشق کا تھا۔ دمشق سیریا کی راجدھانی ہے اور تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہ دنیا کا قدیم ترین شہر ہونے کے ساتھ ساتھ روئے زمین پر بلا انقطاع مسلسل آباد رہنے والا تنہا کیپیٹل بھی ہے۔ دمشق کی الفت و محبت میں یہاں کے باشندوں نے اس شہر کے القاب بھی کئی ایک منتخب کر رکھے ہیں جیسے الشام، الفیحاء، جلق، مدینة الیاسمین اور باب الکعبہ۔ اس کے علاوہ ایک لقب اور بھی ہے جسے اہل دمشق اور اس کے اطراف والے بڑے پیار اور تقدس سے اپنے نطق پہ لاتے ہیں اور وہ ہے “شام شریف”! اس شہر کی آبادی ڈیڑھ ملین کے قریب ہے۔ جس طرح یہاں کے لوگوں میں حسن کی فراوانی اور صفائی کا گہرا شعور ہے اسی طرح ان کے مزاج میں اشیاء کو خوبصورتی عطا کرنا اور اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہی وجہ ہے دمشق ایک حسین اور دلکش شہر ہے۔ یہاں کی آب و ہوا کافی فرحت بخش ہے۔ اس شہر کو سیراب کرنے کے لیے نہر بردی اور اس سے نکالے گئے چھوٹے چھوٹے نالے ہیں جس نے شہر کی رونق میں چار چاند لگا رکھے ہیں۔
دمشق کی تاریخ اپنی قدامت کے ساتھ ساتھ مختلف عروج و زوال کے اہم ادوار پہ بھی محیط ہے۔ اس شہر کی تاریخ لکھتے لکھتے ابن عساکر دمشقی نے 80 جلدوں کے اوراق سیاہ کر ڈالے تھے تب جا کر “تاریخ دمشق” مرتب ہوئی۔ بنو امیہ کی آمد سے بہت پہلے یہ شہر کئی سلطنتوں کا مرکز اور دارالسلطنت رہا ہے۔ یہاں کے مقبرے گواہ ہیں کہ دمشق کی سرزمین میں کتنے ہی اولوالعزم اور جانباز انسانوں کا گروہ آسودۂ خاک ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ اسی شہر میں نبی یحیی علیہ السلام آرام فرما ہیں۔ امہات المومنین میں سے تین؛ ام حبیبہ، ام سلمہ اور حفصہ رضی اللہ عنھن کا اسی شہر میں انتقال ہوا اور وہ یہیں دفن کی گئیں۔ صحابہ کرام کی تو بڑی لمبی فہرست ہے جو یہاں مدفون ہیں بطور خاص کچھ نام یہ ہیں: بلال حبشی، دحیہ کلبی، عبداللہ بن جعفر الطیار، عبداللہ بن ام مکتوم، ابوالدراء اور شرحبیل بن حسنہ وغیرہ۔
خلفاء و سلاطین میں پہلا نام معاویہ بن ابی سفیان کا ہے جنھوں نے اموی خلافت کی داغ بیل ڈالی اور دمشق کو اپنا دارالخلافہ بنایا جو بنو امیہ کے خاتمے تک بڑی شان و شوکت کے ساتھ مرکزی کردار ادا کرتا رہا۔ عبدالملک بن مروان، الولید بن عبدالملک، سلطان نورالدین زنگی، سلطان صلاح الدین ایوبی اور سلطان الظاھر بیبرس۔ وہی غلام سلطان جس نے عین جالوت پر تاتاریوں کو شکست فاش دی تھی۔ یہ سب کے سب یہیں مدفون ہیں۔
علماء اور فقہاء میں جن کا ملجا و ماوی دمشق رہا ان میں کچھ اہم نام ہیں ابوالنصر فارابی، ابن عساکر، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن قیم الجوزیہ، ابن کثیر، محی الدین ابن عربی وغیرہ۔ یہ چند وہ عبقری اور تاریخ کے درخشاں اسماء گرامی ہیں جنھوں نے دمشق کو اپنا مرکز بنایا، اسی کے آنگن میں پھلے پھولے اور اسی کی آغوش میں سو رہے۔

میں بالکل نیا نیا انٹرگلوب ائیر ٹرانسپورٹ میں کام پر لگا تھا، (یہ وہی انٹر گلوب ائیر ٹرانسپورٹ ہے جو آج “انڈیگو ائیرلائنز” کا مالک ہے، آج تقریباً ملک اور بیرون ملک 57 ڈیسٹینیشنز پہ اس کی پروازیں جاتی ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس ائیرلائنز نے اب تک کوئی مستعمل جہاز اپنی فلیٹ fleet میں نہیں رکھا، ان کے سارے جہاز نئے ہیں) اسی دوران کچھ انٹرنیشنل ائیر لائنز کے کونسورٹئم سے دمشق میں ایک ورکشاپ لگایا گیا جہاں مختلف ممالک کے ٹریول ایجنٹوں کو شرکت کا موقعہ ملا خاص طور پر ان ایجنٹوں کو جو سیرین ائیرلائنز سے وابستہ تھے۔ ویسے تو میں انٹرگلوب میں نو وارد تھا لیکن عربی زبان جاننے والا تنہا تھا اس لیے میرا انتخاب عمل میں آیا اور پہلی بار عربی زبان جاننے کا اتنا بڑا ایڈوانٹیج ملا۔
سیرین ایمبیسی نے ہمیں اعزازی ویزا GRATIS visa دیا جو بہر حال ایک سعادت مندی ہی تھی، خیر چند دنوں بعد میں اپنے ایک سینیئر رفیق کار مسٹر سدھیر سیکری کی رفاقت میں دمشق پہنچ گیا۔ دمشق انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر سیرین ائیر لائنز کے خوبصورت اور خوب سیرت میزبانوں نے بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا جس کا انتظام دہلی میں اسٹیشنڈ سیرین ائیر لائنز کے ریجنل مینیجر جناب احمد احمد نے پہلے سے کر رکھا تھا، ساتھ ساتھ اس بات کی تاکید بھی کردی گئی تھی کہ ان مہمانوں کی خاطر مدارات میں کوئی کمی نہ آنے پائے سو وہی ہوا کہ دیار غیر میں نا آشنا لوگوں کا والہانہ استقبال دیکھ کر ہمارا دل باغ باغ ہوگیا اور ہم فرط مسرت سے جھوم جھوم اٹھے۔ یقین جانیے وہاں کے دوستوں نے ہمیں اجنبیت کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہونے دیا۔ یہ سفر ہم نے اپریل 1997 میں کیا تھا۔ وہ موسم سرما کی واپسی کا دور تھا لیکن تب تک دمشق کی فضاؤں میں کافی برودت تھی اور راتیں معمول سے زیادہ سرد تھیں۔ وہاں تقریباً چار دنوں تک ہمارا قیام رہا-
پہلے دو روز تک تو ورکشاپ کی مصروفیت رہی، اس سے فراغت ملتے ہی شامی دوستوں نے ضیافت شروع کردی، سب سے پہلے ہم سیرین ائیرلائنز کے اس دفتر میں پہنچے جو الحجاز ریلوے اسٹیشن کے پاس ہے۔ یہ وہی ریلوے اسٹیشن ہے جو سلطان عبدالحمید الثانی نے سن 1900 میں بنایا تھا۔ یہ ریلوے لائن بلاد الشام کو مدینہ منورہ سے لنک کرنے کے لیے بنائی گئی تھی تاکہ حاجیوں کی صعوبتیں کم ہو سکیں اور شام سے حجاز کا سفر آسان ہوجائے۔ پہلی ٹرین 1908 میں دمشق سے مدینہ منورہ کو روانہ ہوئی۔ اس ریلوے لائن کی کل لمبائی 1320 کیلو میٹر پر محیط تھی۔ حاجیوں اور تاجروں کے قافلے ہی اس سروس سے سب سے زیادہ مستفید ہوتے تھے۔ دمشق اور مدینہ منورہ کے بیچ حجازی ریلوے لائن کی سروس تقریبا نو سال تک جاری رہی۔ پہلی عالمی جنگ چھڑنے کے بعد عثمانیوں نے جب پسپائی شروع کی اور عربوں نے ترکوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو برطانوی فوجیوں کی مدد سے یہ حجازی ریلوے لائن جگہ جگہ سے اڑا دی گئی اور 1917 میں ریلوے سروس مکمل ٹھپ ہوگئی۔ اس ریلوے لائن پر جو اسٹیشن بنے ہوئے تھے ان میں سے کئی ایک میوزیم میں تبدیل کردیے گئے۔ اس لائن کو دوبارہ عمل میں لانے کے لیے کسی نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ دمشق میں اس حجاز اسٹیشن کے سامنے ایک میدان بھی ہے جو ساحۃ الحجاز کے نام سے موسوم ہے۔ سیرین ائیرلائنز کا دفتر اسی اسٹریٹیجک علاقے میں واقع ہے۔ اس وقت وہ عمارت کافی پرانی لگتی تھی اور اندر کافی چھوٹے چھوٹے چیمبرز پہ مشتمل دفاتر تھے۔ اسٹاف کافی سرگرم، ایکٹیو اور بہت خوش مزاج تھے۔ مینیجمنٹ اور سیلز کا عملہ یہاں کام کرتا تھا البتہ ٹکٹنگ برائے نام تھی۔ وہاں ایک ایک فرد نے ہمارا گرمجوشی کے ساتھ والہانہ استقبال کیا۔ ہر ایک کی زبان سے پہلا جملہ یہی ادا ہوتا تھا أهلا وسهلا ومرحبا۔ وہ دور سیرین ائیرلائنز کے عروج کا دور تھا بالخصوص سیرین پائلیٹس کافی انٹیلیجنٹ اور ماہر سمجھے جاتے تھے۔ ہم لوگ اس دفتر میں کافی دیر رکے وہاں ہر پانچ دس منٹ کے وقفے پر ترکی قہوہ اور سرخ چائے سے رگیں سیراب ہوتی رہیں اور تھکان ہم سے دور دور رہی۔
سیرین آفس سے نکل کر نبیوں، ولیوں اور جرنیلوں کے شہر دمشق کی سیر شروع ہوئی اور چلتے چلتے بھوک کی شدت جب بام پر پہنچی تو ایک بہت ہی نفیس اور اینٹیک جواہر پاروں سے مزین ریستوران کا قصد کیا جس کا نام تھا “مطعم علی بابا”۔ نام کی مناسبت سے اس ہوٹل کے ڈیکوریشن میں علی بابا اور چالیس چوروں کے اسطوری قصے کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ریستوران کے اندر داخل ہوتے ہی اس بات کا احساس ہونے لگتا ہے کہ آپ کسی کوہ کے غار میں آگئے۔ پورا ریسٹورانٹ بالکل غار نما لگتا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ سیرین دسترخوان جتنا لذیذ ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ دلآویز اور حسین ان کا پریزینٹیشن ہوا کرتا ہے۔ اس ریستوران میں ہمیں پریپیریشن اور پریزینٹیشن کا دو آتشہ دیکھنے کو ملا۔ ذائقے دار شامی اور ترکی پکوانوں کا خوب چٹخارے لے لے کر لطف اٹھایا گیا اور شکم سیر ہو کر اہل ریستوران کی ضیافت کا شکریہ ادا کرکے باہر آئے اور بلا تاخیر ہم قاسیون کی پہاڑی کی طرف نکل پڑے۔

قاسیون کی چوٹی سے دمشق کا رات کا منظر
قاسیون کی چوٹی سے دمشق کا رات کا منظر

شامی ڈرائیور کی معیت میں پہاڑ کی سرکتی مچلتی سڑک سے گزرتے ہوئے پہاڑی راستے طے کیے۔ کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر وہاں سے شہر کا دلکش ودلفریب نظارہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ اس سے پہلے پہاڑی سفر میں نے کبھی نہیں کیا تھا اس لیے میرے احساس میں فرحت کے ساتھ وحشت کی آمیزش بھی دکھائی دے رہی تھی اس کے باوجود میں کافی محظوظ ہورہا تھا اور مجھے بہت تھرِل ہورہا تھا، میں اوور ایکسائٹیڈ تھا۔ قاسیون پہاڑ کی چوٹی سمندر کی سطح سے تقریبا 1150 میٹر اونچی ہے۔ جبل قاسیون جس کی آغوش میں تقریباً پورا دمشق شہر آباد ہے، اس کی بل کھاتی لہراتی اور مختلف نشیب وفراز کے ساتھ بلندی کی مسافت طے کرتی ہوئی قدرے تنگ سڑک سے گزرتے ہوئے جب ہم قاسیون کی چوٹی پر پہنچے اور گاڑی سے اتر کر شہر کی طرف نگاہ دوڑائی تو یوں لگا کہ قاسیون کے نیچے ایک شامیانہ تان دیا گیا ہے اور اس پر بڑے قرینے سے قمقمے ٹانک دیے گئے ہیں، یا یوں سمجھ لیں کہ شہر اس کہسار کی رفعت سے ایسے دکھائی دے رہا تھا گویا کسی بھاری بھرکم زیور میں بے شمار چھوٹے چھوٹے نگینے جڑے ہوں۔ پورا شہر روشنی میں نہایا ہوا ستاروں کی مانند جگمگا رہا تھا۔ اس وقت وہاں کا منظر بیان سے باہر ہے / نور ہی نور ہے تا حد نظر آج کی رات۔۔۔۔ ہم وہاں کافی دیر تک رکے رہے اور رات کے سناٹے میں کہساروں کی دلفریبی، سحر آفرینی اور تخلیق کائنات کی فطرت نگاری سے لطف اندوز ہوتے رہے، دامنِ کوہ میں وقت گزرتا رہا اور دھیرے دھیرے ہوا میں خنکی تیز ہونے لگی۔ شام کی یخ بستہ ہوائیں بڑی قاتل ہوتی ہیں، انھیں آسانی سے جھیلنا ہمارے بس کی بات ہرگز نہ تھی اور اس طرح وہاں سے فورا ہم نے کوچ کا ارادہ کرلیا۔ کتابوں میں پڑھا تھا کہساروں کا نظارہ بے شک بہت سہانا اور نشاط انگیز ہوتا ہے آج اس کا تجربہ ہو رہا تھا اور اس کی پہلی جھلک ہمیں یہاں قاسیون کے پربت پہ دکھائی دی۔ قاسیون کی پہاڑی سے نیچے اتر کر جب ہم اپنی آرامگاہ پر پہنچے کافی دیر ہوچکی تھی۔ آنکھیں پہلے ہی بوجھل تھیں شامی ضیافت کا بستر بھی نرم وگداز تھا لہذا فورا دراز ہوگئے۔

دوسری صبح طے شدہ پروگرام کے تحت ائیر لائنز کے ہیڈ کوارٹر پہنچے وہاں ائیرلائنز کے اہم عہدیداران اور کچھ معزز ممبران سے ملاقات ہوئی۔ وہاں کے لوگوں میں بہت اپنائیت ہے وہ بہت جلد گھل مل جاتے ہیں۔ ہم سیریا کے بارے میں معلومات حاصل کر رہے تھے اور وہ لوگ بھارت کے بارے میں جاننے کے لیے بے تاب تھے۔ خیر معلوماتی لین دین کے بعد ظہرانے کے لیے وسط شہر میں ہمیں ایک تنگ گلی سے نکال کر نہایت پرشکوہ، کافی کشادہ اور عالیشان ریستوران (مطعم دمشق القديمة) لے جایا گیا جہاں اندر داخل ہوتے ہی روایتی انداز میں عربی کافی سے ضیافت کی گئی۔ قہوجی یعنی ساقئ کافی نے روایتی انداز کا کلرفُل ڈریس پہن رکھا تھا اور ایک بہت بڑا قہوہ دان (دلّہ) اپنے جسم سے لٹکائے ہوئے بالکل ننھے ننھے فنجانوں میں عربی کافی پیش کر رہا تھا۔ وہ کافی اس قدر تُرش تھی کہ اس کا پہلا جرعہ ہی بمشکل تمام حلق سے نیچے کے جادہ پر رواں ہوسکا۔ خیر سب نے اپنی اپنی نشست سنبھالی اور کھانے کے اوراد ووظائف میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ فورا میز پر دو الگ الگ رکابیوں میں ہرے اور کالے تازہ زیتون کے ساتھ فریش سلاد پیش کیے گئے پھر انواع واقسام کے ڈھیر سارے لذیذ کھانوں سے ہماری ضیافت ہوئی اور ایسی ہوئی کہ للّٰہ وہ ذائقہ تا دم تحریر میری زبان کے مسام پر ثبت ہے۔

سوق الحمیدیہ
سوق الحمیدیہ

دمشق میں عموماً لوگ لنچ کے بعد قیلولہ کے عادی ہیں لیکن اس روز ہماری خاطر ہمارے میزبانوں نے قربانی دی اور ٹہلتے گھومتے اسی روز مغرب بعد (سوق الحمیدیة) جو ترکی طرز تعمیر کا قدیم بازار ہے جسے عثمانی سلطان عبدالحميد الاول کے عہد میں 1780 میں تعمیر کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ اس بازار کا نام الحمیدیہ رکھا گیا، اس کی سیر کے لیے نکل پڑے۔ یہ بازار ایک ہیریٹیج اور سیریا کی ثقافتی علامت ہے۔ وہاں کا (بوظہ) آئس کریم خاص طور پر بوظہ بکداش کافی مشہور ہے۔ یہاں آئس کریم بنانے کا قدیم روایتی انداز ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ چنانچہ آئس کریم کھانے کے لیے ہم وہاں گئے۔ پہلے تو میں نے سوچا آئس کریم کے لیے اسپیشل طور پر اس بازار میں لانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے لیکن جب ہم نے بوظہ کا قدح اٹھایا، چاروں طرف اس کی خوشبو پھیلی تو بات سمجھ میں آ گئی کہ بے خودی بے سبب نہیں غالب ۔۔۔ ڈیلیشیس اور تازہ تازہ ٹھنڈا آئس کریم کھایا تو بس مزہ آگیا۔

الجامع الاموی
الجامع الاموی

اگلا پڑاؤ الجامع الاموی تھا جس کی تاریخ روایتوں میں بڑی پیچیدہ سی ہے۔ روایتوں سے پرے حقیقت میں یہ ایک عظیم الشان اور نہایت خوبصورت مسجد ہے جسے سن 705 میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے بنوایا اور اسلامی تعمیرات کے عجائبات میں اس کا شمار ہونے لگا۔ شامیوں نے اس مسجد کی دیواروں اور چھتوں کو نقش ونگار اور سنگ مرمر سے کافی مزین کیا۔ اسی مسجد کے ایک گوشے میں نبی یحیی علیہ السلام کی قبر بھی ہے۔ اسی مسجد سے متصل سلطان صلاح الدین ایوبی اور ان کے کچھ جانشینوں کی قبریں بھی ہیں۔ جی بھر کے ہم نے اس عمارت کے فن کو دیکھا اور سراہا۔

قصر العظم
قصر العظم

جامع اموی کی زیارت کے بعد ہم نے قصر العظم کا قصد کیا جو دمشق کے گورنر اسعد پاشا العظم نے 1749 میں بنوایا تھا۔ یہ محل کافی خوبصورت ہے اور اس کا حمام بھی کافی شہرت یافتہ ہے۔ ان تاریخی مقامات کی سیاحت کے بعد بھوک پیاس سے ہمارا برا حال ہورہا تھا، دمشق میں شام کے وقت لوگ ہلکا پھلکا ہی کھانا پسند کرتے ہیں سو اہل شہر کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے ہم نے بھی سوچا کہ کچھ مختصر سا کھا پی کر آتشِ شکم کو سرد کیا جائے اور اس طرح پہلی بار ہم نے اسی شہر میں شاورما کھایا جو بہت پسند آیا۔ شاورما دراصل ترکی الاصل سینڈوچ کا نام ہے جو کبھی مرغ تو کبھی گوشت کا بنایا جاتا ہے۔ اس شاورما کو تیار کرنے کے لیے ایک خاص قسم کی روٹی کو بچھا کر مایونیز لگا کر چکن یا مٹن سے بھر کر زیتون کے قتلے اور کچھ مخلّل سے آراستہ کرکے لپیٹ کر دوبارہ سینک دیا جاتا ہے تاکہ روٹی اوپر سے کراری یعنی کِرِسپی رہے اور اندر کا مال بھی گرم رہے کہ کھانے والا آخری لقمہ تک اس کی گرمئ لذت سے محروم نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنا خوبصورت یہ شہر ہے اس سے کہیں زیادہ خوبصورت اس شہر کے لوگ ہیں اور اسی طرح ان کی زبان، اس کی حلاوت اور اس کا شیریں لہجہ ہے۔ یہاں کے مکیں دمشق کی طرف اپنی نسبت کو باعث عز و افتخار سمجھتے ہیں۔ اور اہالئ دمشق کو شامی و (جمع) شوام کہتے ہیں۔ ویسے شام کا اطلاق تو پورے بلاد الشام سیریا، لبنان، اردن اور فلسطین کے سارے علاقے پر ہوتا ہے لیکن اہل دمشق کو اس ضمن میں یک گونہ امتیاز حاصل ہے۔ دمشق کے کافی لوگ میرے حلقۃ یاراں میں بھی ہیں۔ ان کے لہجے کی نرمی دلالت کرتی ہے کہ دمشقی بہت ہی اچھے لوگ ہیں؛ ملنسار، باوقار، نرم خو، با اخلاق، نفاست پسند اور اطاعت شعار۔ اس ضمن میں شامیوں کا عربی لہجہ بھی دوسروں سے کچھ الگ ہے اور شوام اپنے لوگوں کو لہجے کے نطق سے پہچان بھی لیتے ہیں۔ یہاں لوگ سیاسی باتیں قطعا نہیں کرتے اور نہ ہی مسلکی مباحثوں کو ہوا دیتے ہیں۔ ہر شخص ایک دوسرے کو جاسوس سمجھتا ہے اس لیے کبھی کھل کر بات نہیں کرتا۔ یہاں اظہار رائے کی آزادی بالکل نہیں ہے۔ (آج وہ خانہ جنگی کے تھپیڑوں میں پِس کے رہ گئے ہیں، ان پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ حافظ الاسد کے جور واستبداد سے وہ اتنے نالاں نہیں تھے جتنے بشار سے ہیں۔ بشار نے تو ساری حدیں پار کردی ہیں اور ان پر قیامت ڈھا رکھی ہے۔ میرے کچھ احباب بشار کے قریبی ہیں وہ اس کے خلاف کچھ سننا بھی پسند نہیں کرتے لیکن یہ ان کی مجبوری ہوسکتی ہے، ان کا یہ رویہ صرف اس ڈر سے ہے کہ کہیں دھر نہ لیے جائیں اور وہ وہاں پہنچا دیے جائیں جہاں سے لوٹ کر آنا محال ہوتا ہے۔ وہاں کے حالات سب پر عیاں ہیں، مزید کوئی کیا کہے اور کیا سنائے:
کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی
یوں اپنا گھر بہار میں ویراں نہ تھا کبھی
بے کیف و بے نشاط نہ تھی اس قدر حیات
جینا اگرچہ عشق میں آساں نہ تھا کبھی
(س تلخ نوائی کو جملہ معترضہ کے طور پر انگیز کر لیں)
مڈل ایسٹ میں پہلے مرکزی حمّامات کا کافی چلن تھا اور اس ضمن میں دمشق کے حمّامات زمانۂ قدیم سے کافی مشہور ہیں اور شہر میں جا بجا حمامات کا انتظام ہے جہاں لوگ مساج کے ساتھ بخار آلود غسل کرکے اپنے اعصاب کو نشاط اور سکون بخشتے ہیں۔ میری دیرینہ خواہش تھی کہ کسی مشہور حمام میں جا کر وہاں کے عیش دیکھوں اور استفادہ بھی کروں لیکن وقت کی تنگ دامانی کہ فقط محرومی نصیب ہوئی۔

قدیم دمشقی گھر کا اندرونی حصہ
قدیم دمشقی گھر کا اندرونی حصہ

دمشق کا ذکر جمیل ہو اور دمشقی گھر کا تذکرہ نہ آئے تو بات ادھوری رہ جائے گی اس لیے ضروری ہے وہاں کے گھروں کے اوصاف بھی بتاتا چلوں۔ یوں تو اب دمشق میں بھی دوسرے شہروں کی طرح فلیٹوں کا چلن عام ہو رہا ہے لیکن وہاں کے قدیم گھر آج بھی رشک جنان ہیں۔ دمشق کے پرانے گھر باہر سے بند ہوتے ہیں لیکن اندر سے کافی کشادہ اور ہوادار ہوتے ہیں۔ گھر کے اندرون میں ایک وسیع صحن ہوتا ہے جس میں ایک حوض اور اس حوض میں رواں دواں فوارہ بھی ہوتا ہے۔ اس کے ارد گرد لکڑی کی نششتیں ہوتی ہیں جہاں بیٹھ کر چائے اور قہوہ کے جرعے نوش کیے جاتے ہیں۔ اسی صحن میں پھولوں کی کیاریوں کے ساتھ ساتھ انگور کی بیلیں اور کچھ دوسرے پھلدار درخت بھی ہوتے ہیں۔ خوشنما پھولوں کی رنگت اور ان کی بھینی بھینی خوشبووں سے پورا گھر معطر رہتا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے مکیں تازہ دم اور صحت مند نظر آتے ہیں۔
اگلی صبح ہم نے مشہور سیرین مٹھائیاں خریدیں جو خشک میوہ جات سے بھرپور ہوتی ہیں، اپنا اثاثہ پیک کیا اور بہت ساری یادوں کے ساتھ شہر اور اہل شہر کو میر تقی میر کے انداز میں نم آنکھوں سے الوداع کہہ دیا:
اب تو جاتے ہیں بتکدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
سعد احمد

بے عمدہ اور معلوماتی سفرنامہ!

خبیب حسن

کافی معلومات حاصل ہوئیں_
بہت خوب بھائ

Qudratullah Belal

ماشاءاللہ پرانے سفر ناموں کی یاد تازہ کردیا۔۔۔۔ طلبہ کے اندر تاریخ کے مطالعہ سے بے رغبتی ہے اگر اس طرح حسن سے سفرنامہ کے اندر تاریخی معلومات بیان کئے جائیں تو ممکن ہے تاریخ کی طرف رجہان بڑھے گا۔ “”پہلا نام معاویہ بن ابی سفیان کا ہے جنھوں نے اموی خلافت کی داغ بیل ڈالی اور دمشق کو اپنا دارالخلافہ بنایا “” امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کرتے ہیں کہ موروثی سیاست وخلافت کے مؤسس ہیں تو اس پر اعتراض کرتے ہیں اور جواب کئی طرح سے دیا جاتا ہے اور دیا بھی جائے وہ صحابی تھے… Read more »

ھلال ھدایت

بہت ہی عمدہ سفر نامہ ہے کافی مزہ آیا اور تاریخی مقامات کی اندیکھی سیر بھی ہوئی۔ لکھنے کا انداز بہت نرالہ ہے۔