مدینہ الرسول مدینہ منورہ میں قدم رکھے ہوئے تقریبا تیرہ سال ہوگئے، بکالوریوس سے دکتوراہ تک کا تعلیمی سفر مکمل ہونے والا ہے، اس درمیان دوستوں اور ساتھیوں نے ریاض کا کئی مرتبہ سفر کر کے وہاں کے مشائخ سے ملاقات، علمی دورے، تاریخی مقامات کی زیارت کی اور مختلف تعلیمی مراکز سے کتابیں حاصل کر کے خوب خوب فائدہ اٹھایا، مگر زندگی کی گہما گہمی، دوڑ دھوپ، مشغولیات اور راقم الحروف کے ناتواں کندھے پر گھریلو اور عائلی ذمہ داری نے اس بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں دی۔ یہاں تک کہ خدشہ لاحق ہوا کہ مبادا سفر ریاض کے ممکنہ علمی فوائد سے محروم ہوجاؤں، اسی لیے مدتوں سے یہ تمنا انگڑائی لے رہی تھی کہ کسی طرح شہر ریاض کے سفر کا موقع ہاتھ آجائے۔
واقعہ یہ ہے کہ چند دنوں پہلے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا ایک ٹور ریاض روانہ ہو رہا تھا، یوں تو اس ٹور کا اصل ہدف طلبہ کے لیے شہر ریاض کے مختلف تعلیمی مراکز سے کتابوں کے حصول کو آسان بنانا تھا، تاہم اس سفر سے دیگر فوائد حاصل کرنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں تھی۔
ٹور میں شریک طلبہ کی اکثریت کا تعلق یا تو معہد اللغۃ لغیر الناطقین بہا سے تھا یا پھر کلیہ یعنی بکالوریوس سے، صرف دو طلبہ دراسات علیا کے تھے، ایک راقم الحروف، دوسرا دکتور سعید احمد پاکستانی۔ ٹور کے لیے ایک خاص بس بک کی گئی تھی جو زیارت کے لیے یا کتابوں کے حصول کے لیے مختلف جگہیں منتقلی کر رہی تھی، سب سے پہلے ہمیں جامع الراجحی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، یہ ریاض شہر کی بہت بڑی مسجد ہے جو چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے، سعودی عرب میں حرمین شریفین کے علاوہ تمام مسجدیں نماز کے وقت کھلتی ہیں اور نماز کے معا بعد بند ہوجاتی ہیں سوائے مسجد راجحی کے جو ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔
اس سفر میں ریاض کی مشہور ومعروف لائبریری ‘مکتبۃ الملک فہد الوطنیہ’ کی زیارت کا موقع ملا، یہ پورے سعودی عرب میں ایسی لائبریری ہے جو بہت سی خصوصیات کی حامل ہے، ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سی ایسی نادر کتابیں ہیں جو دوسری جگہ یا انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں ہیں، دوسری خصوصیت یہ کہ اس میں بہت سے نادر مخطوطات ہیں جن کی وجہ سے وہ قلمکار اور ریسرچ کرنے والوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔
تیسری اہم جگہ جس کی زیارت کا مجھے شرف حاصل ہوا اور جس کی زیارت کی شدید خواہش پہلے سے تھی وہ ہے ‘مرکز الملک عبد اللہ الدولی لخدمۃ اللغۃ العربیہ’ میں نے اس مرکز اور اس کے اصدارات کے بارے میں بہت ذکر خیر سنا تھا، میرے پی ایچ ڈی رسالے کے مشرف نے بھی ایک مرتبہ اس کی چرچا کی تھی، یہ وہ مرکز ہے جو نہ صرف ملکی پیمانے پر عربی زبان کی خدمت کرتی ہے بلکہ بیرون ملک جو عربی زبان پر کام ہوتا ہے اس کی بھی نگرانی کرتی ہے، بالخصوص جن ممالک کی زبان عربی نہیں ہے یا جن ممالک کے قلمکار، محقق اور مؤلفین عربی زبان پر کام کرنے اور اس میں لکھی ہوئی چیزوں کو نشر کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں ان کی اس طرح کی حائل رکاوٹوں کو دور کرنا، ان کو مملکہ بلا کر مختلف کانفرنسیں منعقد کرنا، ان کی عربی زبان پر لکھی ہوئی معتمد تخلیق، مضامین اور رشحات قلم کو شائع کرنا۔
ہمارے انڈیا میں عربی زبان کی جو حالت ہے یا اس میں جو کام ہو رہا ہے اس پر مضامین اور کئی کتابیں اس مرکز نے شائع کی ہیں جن میں اہم درج ذیل ہیں:
١- الثقافة العرببة في الهند
٢- تاريخ اللغة العربية وواقعها في الهند
٣- اللغة العربية في الهند
٤- الشعر العربي في الهند
اس سفر کی ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سفر کی آخری رات ہمارے لیے شہر کے اطراف میں ایک استراحۃ بک کیا گیا تھا، استراحۃ سعودی عرب میں عموما پکنک، مختلف مناسبات اور پروگرام وغیرہ کے لیے بک کیا جاتا ہے، جہاں اچھا سا ملعب، سوئمنگ پول، بچوں کے جھولے اور کھیل تفریح کے دیگر سامان موجود ہوتے ہیں، اس استراحہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ہماری خدمت کے لیے اچھے لباس سے ملبوس کئی عرب نوجوانوں کو لگایا گیا تھا، جو چائے، کافی، جوس اور عود عربی کے دھواں سے ہمارا استقبال کرتے تھے۔
اس استراحہ کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس میں ریاض شہر اور جامعۃ الملک سعود کے کچھ مشائخ بھی تشریف لائے تھے، جن میں مشہور فقیہ محمد آل رمیح بھی تھے، جنھوں نے ہمیں اپنی فقہی مہارت اور فقہی استنباط سے خوب خوب فائدہ پہنچایا، ان میں شیخ عبد اللہ البراک بھی تھے جنھوں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی زندگی پر ایک نایاب کتاب لکھی، نایاب اس ناحیہ سے کہ انھوں نے اپنی کتاب میں شیخ الاسلام کی زندگی کے ان گوشوں پر قلم اٹھایا جن کی طرف دوسرے مؤلفین کا دھیان نہیں گیا۔ شیخ نے اپنی اس کتاب کا مختصر مگر جامع انداز میں تعارف کرایا۔
اس سفر کی آخری کڑی جسے ذکر کیے بغیر یہ تحریر ہی ادھوری لگتی ہے دوستوں اور احباب سے ملاقات، برادرم مہر الدین نے دل کھول کر اس سفر میں میرا ساتھ دیا، زیارت میں ان کی صحبت اور مہمان نوازی نے مجھے تنہائی اور اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیا، ریاض شہر کے مشہور داعی شیخ ذاکر حسین المدنی سے ملاقات، ان سے کچھ علمی وانتظامی امور پر گفتگو نیز ان کے دسترخوان پر ایک سے زیادہ مرتبہ شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
شیخ سرفراز سلفی ایک لمبا فاصلہ طے کر کے ملنے کے لیے آئے تھے، ایک لمبے عرصے کے بعد ان سے ملاقات کی وجہ سے بہت خوشی محسوس ہو رہی تھی، اسی دوران ہم دونوں نے مرحوم عزیز الرحمن کا بھی ذکر خیر کیا، جو طلبہ کے مددگار اور علماء کے بہت قدردان تھے، جو بھلائے نہیں بھولتے۔ اللہ تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
ریاض شہر میں کچھ سیاحتی مقامات بھی ہیں، بلکہ حقیقی معنوں میں ریاض قدیم وجدید ثقافت کا منفرد مرکز ہے؛ الدرعیہ کے کھنڈرات، البحیرہ، الطریف، قلعۃ المصمک اور اختتام کائنات کی کھائی جیسے سیاحتی مقامات ریاض ہی میں ہیں جنھیں دیکھنے کے لیے سیاح دور دراز سے آتے ہیں۔
وقت کی تنگ دامنی یا گروپ کے ساتھ رہنےکی وجہ سے ہمیں ان مقامات کی زیارت نصیب نہیں ہوئی۔
ماشاء اللہ تبارک اللہ تعالیٰ!
جزاکم اللہ خیرا شیخنا!
اختتام کائنات کی کھائی سے کیا مراد ہے؟
اختتام کائنات در اصل اس کھائی یا گڈھے کا نام ہے جو ریاض میں زیر زمین پہاڑی سلسلہ پر بنائی گئی ہے، وہاں تک پہونچنے کے لئے سڑک یا شاہراہ بنایا گیا ہے۔