بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہوئے تھے کہ مکہ کی وادیوں میں اذان کے مقدس کلمات گونجنے لگے اور ساتھ ہی لوگ بڑی تعداد میں حرم کے اندر داخل ہونے لگے، جب تلک ہم دو رکعت ادا کرتے اور صفا مروہ کے چکر کاٹتے مجسمہ معصیت بارگاہ الہٰی میں سربسجود اسلامی مساوات کا درس دینے کے لیے مستعد “ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز” کا عملی نمونہ پیش کررہے تھے۔ صدیوں پہلے خانہ خدا سے ندا لگا کر اسی طرح لوگوں کو جمع کرنے والے ایک غریب نابینا صحابی تھے، اور اس کی چھت پر چڑھ کر کامیابی کی طرف بلانے والے بھی حبشی غلام تھے…یہ اعزاز کی بات ہے کہ قوم و قبیلہ کے قائدین موجود تھے جن کے ایک اشارے پر یمین ویسار کی نعمتیں جمع ہوجاتی تھیں تھیں، لیکن اسلام کی بنیادی تعلیم عدل ومساوات کا تقاضہ تھا کہ ہر صاحب حق کو اس کے حقوق بہم پہنچیں اور پہنچائے جائیں، اس لیے فتح مکہ کے موقع پر کعبۃ اللہ کی چابی بھی خود رسول اللہ نے نہیں رکھی بلکہ عثمان بن طلحہ کے حوالے کی اور قیامت تک ان کے گھرانے میں رہنے کی بشارت بھی سنادی… آپ دنیا کے وجود سے اب تک کی پائی جانی والی مصدقہ تاریخ کے اوراق پلٹ لیں لیکن لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأحمر علی أسود ولا لأسود علی أحمر إلا بالتقوی، اسلامی عدل ومساوات کی تعلیم اور اس کے عملی نمونوں کا عشر عشیر بھی ڈھونڈنے سے نہیں پائیں گے۔ افراد نسل انسانی کے سامنے ہمیشہ سے طبقاتی کشمکش اور نسلی عصبیت جیسے سنگین مسائل درپیش رہے، جس کا مناسب، مضبوط اور قائم رہنے والا منظم حل اسلام نے دیا، قدیم یونانی مذہبی پیشوا ہوں یا گرکلوں میں بسیرا کرنے والے سادھو سنت، غرض یہ کہ تمام شعبہ ہائے حیات پر انھی کی اجارہ داری رہی ہے۔
خیر! سعی کے دوران مروہ پر فجر کی نماز کے معا بعد کعبۃ اللہ کے احاطے کے واجبات مکمل کرکے تقصیر و حلق کے لیے باہر نکلے تو بتدریج شب کی سنگین سیاہی راحت وسکون کے بستر سمیٹ رہی تھی اور دن کی روشنی جد وجہد کی سرگرمی پیدا کررہی تھی… کلاک ٹاور سے متصل شاہراہ پر انسانی گروہ کی آمد و رفت بتدریج بڑھ رہی تھی، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شوق نظر ذوق طلب کے لیے تیزی سے قدم بڑھا رہی ہے، تسلسل شام وسحر کے سایے میں پرندوں کے غول تقدیر کے دانے چن ریے تھے اور ہم اپنی سیہ کاریوں کے بعد عبادت کی اس نعمت کے ذریعہ ملے نصیبہ سے دھلنے کے بعد قبولیت کی دعا کرتے ہوئے ہوٹل کی طرف رواں تھے، جہاں پہچتے ہی بستر پر ایسے دراز ہوئے کہ دوپہر میں اٹھے اور پھر نماز کی ادائیگی کے معا بعد پلان کے مطابق عالم اسلام کی معروف شخصیت اور قریب 50 کتابوں پر کام کرنے والے محترم عزیر شمس حفظہ اللہ کے یہاں ہولیے جو والد محترم کے دیرینہ صدیق اور ہم بھائیوں پر بے پناہ مشفق ہیں…. سو پلان کے مطابق بالترتیب محترم عزیز شمس صاحب، ارشاد بھائی(ام القری یونیورسٹی) اور نور عالم بھائی(مترجم حرمین) سے ملاقات کرنی تھی، موخر الذکر دونوں بھائی ذی علم ہونے کے ساتھ نہایت خلیق ملنسار اور محبتی ہیں، ارشاد بھائی میری ابتدائی تعلیمی زندگی میں ہر طرح سے تعاون کرتے رہے جس کا اجر بلا شبہ رب العزت ہی دے سکتا ہے…لیکن عزیر شمس صاحب نے علم کے تعلق سے گفتگو شروع کی تو عصر، مغرب اور پھر عشا تک چلتی رہی…جی چاہ رہا تھا کہ موصوف اسی طرح مختلف علمی امور پر گفتگو کرتے رہیں اور ہم اپنی خالی جھولی میں سمیٹتے اور محفوظ کرتے رہیں، مخطوطات کی پر پیچ گلیوں سے جدید تصنیفات کے دبستانوں تک سیر کرائی، مولانا آزاد کے الجامعہ کی فائل پہلی بار انھی کے یہاں دیکھنے کو ملی جو انھوں نے کسی طرح اٹلی سے حاصل کی، اور پھر مسعود عالم ندوی کی حیات وخدمات اور ان کے تئیں ندوہ کی بے رخی پر بھی گفتگو کی، علاوہ ازیں بہت سی ایسی چیزیں دیکھنے اور سننے کو ملیں جو مستقل ایک مضمون کی حیثیت رکھتی ہیں۔
کسی انگریزی مصنف نے لکھا ہے کہ جب مجھے کچھ لکھنا ہوتا ہے تو گھر کی کھڑکی کھول لیتا ہوں اور مجھے بے پناہ موضوعات مل جاتے ہیں، اور اردو شاعر کے لفظوں میں
دامان باغباں سے کف گل فروش تک
بکھرے پڑے ہیں سینکڑوں عنواں مرے لیے
بعینہ یہی حالت عزیر شمس صاحب کے یہاں ہے، آپ پوچھتے جائیں وہ بتلاتے جائیں۔
اسی دوران ہم نے حرم میں نماز ادا کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے اجازت چاہی تو انھوں نے پورے علاقہ کو حرم ثابت کرکے بیٹھنے کی تاکید فرمادی تاآنکہ رات کی چادر پھیلا دی گئی۔ عشا کی نماز کے بعد واپسی میں ہم چاروں احباب البیک چلے گئے اور پھر وہاں سے تھکے ہارے حرم پہنچے…رات نے صبح کی دہلیز پر دستک دینے کے لیے قریب نصف سفر طے کرلیے تھے اور چاندنی پوری آب وتاب کے ساتھ راہ گزر کے لیے فانوس کا کردار ادا کررہی تھی… سیدھے حرم میں اوپر پہنچے جہاں گنتی کے چند افراد تھے…کرسی لیے حرم کی طرف متوجہ ہوکر بیٹھ گئے…حالت دل بیان کے قابل نہیں… نیچے لوگ عبادت وریاضت اور دعا ومناجات میں مصروف اور کچھ حجر اسود کو بوسہ دینے اور کعبہ کا دروازہ پکڑے آہ وبکا اور نالہ وفریاد کررہے ہیں… اور ایک ہم کہ اظہار عقیدت کی دھن میں اظہار تمنا ہی بھول رہے تھے۔
شب گزرنے کے ساتھ نیند سے آنکھیں بوجھل ہونے لگیں تو زم زم سے تازگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن رات تو بہر حال آرام کرنے اور سکون حاصل کرنے ہی کے لیے ہوتی ہے، سو حرم کے درمیانی دروازے سے جائے قیام کی طرف روانہ ہوگئے اور لمحے بھر کی دیری سے روم پر پہنچتے ہی خوابوں کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
نوٹ: سفر نامہ میں مذکور عالم اسلام کی معروف شخصیت عزیر شمس صاحب رحمه الله کا کچھ دنوں قبل اچانک انتقال ہوگیا… رب العالمین مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین
آپ کے تبصرے