کورونا کی وجہ سے پورے عالم میں نظام زندگی درہم برہم ہے،کئی ممالک میں ابھی لاک ڈاؤن لگا ہوا ہے، مدارس بند ہیں،کالج یونیورسیٹیاں بھی مقفل ہیں۔بعض ممالک میں عبادت گاہیں بھی سرکاری طور پر نہیں کھلی ہیں،عالم اسلام کی مرکزی عبادت گاہیں (حرمین شریفین)بھی ایک زمانے تک عام مصلیان کے لیے بند کردی گئی تھیں،عام لوگوں کی سب سے بڑی تمنا اور دعا یہ تھی کہ کم از کم حرمین شریفین کھول دیے جائیں،لوگ آئیں،عبادت کریں،عمرہ و طواف کریں،اپنے رب کو منائیں راضی کریں، دعائیں مانگیں،رب کے حضور روئیں گڑ گڑائیں۔
سو اللہ تعالی نے ان کی دعائیں سنیں اور حرمین شریفین کو کھول دیا گیا۔مگر اب پہلے کی طرح عمرہ و طواف،زیارت و سلام کی عام آزادی نہیں رہی،اعتمرنا ایپ میں سب سے پہلے رجسٹریشن کرنا پڑتا ہے،فیس ماسک کا استعمال ضروری ہے،سوشل ڈسٹینسنگ بھی لازمی ہے۔مسجد حرام میں عمرہ اور نمازکے لیے بکنگ کرنی پڑتی ہے،مسجد نبوی شریف میں بھی روضہ میں نماز ادا کرنے اور آپﷺپر دردود و سلام کے لیے نیزآپ کے دونوں صحابی (حضرات ابو بکر و عمررضی اللہ عنہما)کوسلام کرنے کے لیے بکنگ کرنی پڑتی ہے،پھر وہاں جا سکتے ہیں،صلاۃ و سلام پڑھ سکتے ہیں۔ہاں مسجد نبوی میں عام نماز کی ادائیگی کے لیے بکنگ شرط نہیں ہے،سو لوگ اس عدم پابندی کا خاص فائدہ اٹھاتے ہیں،مسجد نبوی میں آج بھی وہ رونق تقریبا بحال ہے۔عباد ت گزاروں،تقوی شعاروں،ذکر و اذکار میں مشغول رہنے والوں کا ازدحام رہتاہے ۔
سعودی عرب کی وزارت حج و عمرہ نے جب سے اعتمرنا ایپ لانچ کیا ہے،بلاکشان اسلام اور فدائیان توحید و سنت بکنگ کر رہے ہیں، جوق در جوق عمرے کے لیے آرہے ہیں اور اس ایپ کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔عمرہ بکنگ کے لیے تو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں،یکسر آپ کو بکنگ میسر نہیں ہوگی۔ جمعرات کی شام کو ہی صرف بکنگ کرسکتے ہیں اور وہ بھی صرت حال یہ ہے کہ بہ مشکل تمام ہی جگہ مل پاتی ہے۔مگر اس ایپ کے اجراکے بعد عمرہ،نماز میں جو لذت ہے،جو سرور و کیف ملتا ہے شاید کبھی پہلے ایسا محسوس نہیں کیا گیا،نہ بھیڑ کا خدشہ،نہ ازدحام کا اندیشہ،آپ ہیں اور آپ کی آنکھوں کے سامنے خانہ ٔ کعبہ ہے،عبادت کیجیے،روئیے گڑگڑائیے،دعائیں مانگیے اور خوب خوب مانگیے۔انتظام کارموجود ہیں،جوصرف انتظام و انصرام پر خصوصی توجہ مبذول فرماتے ہیں،اپنی لائن پر چلنے کی تاکید کرتے ہیں،بقیہ یہ آپ کا معاملہ ہے کہ آپ نے کیا مانگا اور کیا چھوڑ دیا۔
خاکسار ہیچ مداں نے بھی کچھ دنوں پہلے بکنگ کی اور ۴ دسمبر (۶:۰۰۔۹:۰۰)کا وقت ملا۔اس بیچ کوشش کرتا رہا مگر لا حاصل،سو وقت متعین سے پہلے شوق حرم میں خراماں خراماں ۳ دسمبر کو ہی اپنے جائے مقر سے مکہ معظمہ کے لیے روانہ ہوگیا ۔ازدیاد شوق دیدار نے دوسروں کی طرح مجھے بھی بے حال کر رکھا تھا،اپنے بچوں کو ساتھ لیا اور روانہ ہوا۔مکہ مکرمہ پہنچا،عشاء کی اذان ہوگئی تھی،مملکت سعودی عرب کے سابق مفتی ٔ اعظم سماحۃ الشیخ ابن باز-رحمہ اللہ-کے نام سے موسوم العزیزیہ میں واقع جامع مسجد(جامع سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز)میں مغرب و عشاء جمع و قصر کے ساتھ ادا کی گئی،پھر جانب حرم روانہ ہوا تاکہ حرم سے قریب کسی ہوٹل میں رات گزارنے کے لیے بندو بست کیا جائے۔ اکثر ہوٹل بند ملے،علاقہ ٔ حرام میں جو گہما گہمی پہلے ہوتی تھی اس بار نظر نہیں آئی، یکسر سناٹا،دکانیں بند تھیں۔لوگوں کی آمد و رفت نہ کے برابر کہہ لیجیے،ہاں مدینہ میں رونق تھی،بازاروں میں بھیڑ تھی،عام مصلیوں کی تعداد اچھی خاصی ہوا کرتی ہے،اکثر دکانیں کھلی ملیں گی۔البتہ رہائشی ہوٹل وہاں بھی ویرانی کا شکوہ ضرور کرتے دکھائے دیے،کھانے پینے کے ہوٹل بھی ویران (فاللہ المستعان) اللہ سابقہ رونق و نکہت بحال فرمائے اور کورونا وبا ہم سے دور فرمائے۔آمین
بہر حال حرم مکی سے بالکل قریب صرف ایک ہوٹل کی لائٹیں آن ملیں، قریب ہوا تو پتہ چلا کہ بڑی مشکل سے ہوٹل کھولنے کی اجازت مل سکی ہے اور اس علاقے میں یہ اکلوتا ہوٹل ہے جو کھلا ہے،لوگ آتے ہیں،گھنٹے دو گھنٹے ٹھہرتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔سو ہم لوگوں نے بھی بکنگ کرلی،کرایہ ادا کیا اور کھانے کی تلاش میں نکلے۔اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے ،دور بہت دور جاکر ایک ہوٹل ملاجو بس بند ہی ہونے والا تھا،جیسے تیسے کھانا لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
صبح تڑکے قبل از وقت وضو کیا اور جانب حرم روانہ ہوگیا،کیوں کہ نماز فجر کے لیے بھی ہم نے بکنگ کر رکھی تھی۔حرم میں داخل ہوئے،اقامت ہوچکی تھی،حرم مکی شریف کے امام شیخ یاسر الدوسری نے اپنی مسحور کن آواز میں نماز پڑھائی اور لمبی پڑھائی۔جمعہ کا دن تھا مگر سورہ ٔ محمد دونوں رکعتوں میں پوری پڑھ ڈالی۔شیخ محترم آج کل اپنی خوش الحانی کی کی وجہ سے اسلامیان عالم کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں،رب کریم نے اپنے کرم سے بے تحاشا خوش الحانی اور لحن داؤدی سے نواز رکھا ہے۔سو چا تھا کہ نماز سے فارغ ہوکراپنے وقت سے پہلے ہی عمرہ شروع کردیا جائے گامگرمنتظمین کار کے احاطے میں تھا،اپنی مرضی کہاں چلنے والی۔کچھ لوگ کھڑے ہوئے تو منتظمین نے کہا کہ آدھا گھنٹہ انتظار کریں،مطاف(طواف کرنے کے لیے مخصوص جگہ)ابھی خالی نہیں ہے۔بہر حال انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں،منتظمین نے صف بندی کا اشارہ فرمایا،تیار ہوئے،صف بندی ہوئی اور جانب مطاف روانہ ہوئے۔حرم کا منظر دیدنی تھا، طواف مکمل کیا الحمد للہ،پھر صفا کی طرف سعی کے لیے اپنے مخصوص انتظام و انصرام کے ساتھ روانہ ہوا اور وہ مرحلہ بھی تکمیل کو پہنچا،بال کٹوائے اور اپنی رہائش کی طرف روانہ ہوگیا۔
اب شہر ِ نبی ﷺکا سفر درپیش تھا۔ مسافت طویل تھی اور جمعہ مدینہ منورہ میں ادا کرنے کا بھوت سر پر سوار تھا،سو بغیر کسی تاخیرکےچل دیے۔ سڑکیں سنسان،پٹرول پمپ ویران،عجیب سا نظارہ تھا۔اس سے قبل جب بھی مدینے کے راستے پر روانہ ہوا،راستے میں گاڑیاں ہی گاڑیاں،بسیں ہی بسیں،پٹرول پمپ لوگوں سے آباد،گاڑیوں کی بھیڑ سے دوکاندار بھی خوش اور آنے جانے والے بھی مسرور،مگر اس بار کا منظر ہی کچھ عجیب تھا۔بہر حال جمعہ سے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گئے مگر جمعہ کی نماز مسجدقبا میں ادا کی گئی،وہ بھی چلچلاتی دھوپ میں،پسینہ سے شرابور،دھوپ کی تمازت نے بے حال کر رکھا تھا۔ اس سے زیادہ کہیں غم مسجد نبوی میں نماز جمعہ نہ پڑھ پانے کا تھا۔
شیخ(ڈاکٹر) فاروق عبد اللہ نراین پوری کے کے یہاں ٹھہرنے کا پلان تھا۔علمی،تدریسی،قلمی،ادبی اورتحقیقی دنیا برادرم شیخ فاروق عبد اللہ نراین پوری فیضی مدنی- وفقہ اللہ- سے خوب خوب واقف ہے،آپ کئی کتابوں کے مولف ہیں، جامعہ فیض عام مئو ناتھ بھنجن سے لے کر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تک آپ کے علم و قلم کا شہرہ ہے،آپ کے اساتذہ سے لے کر آپ کے زملاء و تلامذہ آپ کی علمی لیاقت و تحقیقی مہارت کے معترف ہیں،نوادرات اور علمی نفیس شہ پارے آپ کی خاص پہچان ہیں۔ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کا حق ادا کر دیتے ہیں۔شیخ کے یہاں پہنچے،ظہرانہ تیار تھا۔
آپ کے یہاں دو دن ٹھہرنے کا موقعہ ملا،آپ کے علمی جواہر پاروں سے مستفید ہونے کا شرف حاصل کیا، بہت سارےعلمی موضوعات زیر بحث آئے،بہت ساری شخصیات کا تذکرہ ہوا،مرعاۃ المفاتیح کے نئے ایڈیشن کا بھی تذکرہ کیا گیا،اس کی خوبیوں اور خامیوں پر بھی کھل کر بحث ہوئی (واضح ہو کہ مرعاۃ المفاتیح کا محقق (!!)نسخہ مدار القبس للنشر و التوزیع سے شائع ہوا ہے اور عالم اسلام کی مشہور علمی و فقہی شخصیت ڈاکٹر وصی اللہ محمد عباس -حفظہ اللہ- نے اس پر مقدمہ لکھا ہے،جس سے کتاب کی وقعت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔مگر کتاب ابھی بھی بقول شیخ فاروق عبد اللہ نراین پوری ’ کسی صاحب ذوق کی تحقیق کی تلاش میں ہے،مدار القبس کے نسخہ کو تحقیقی نسخہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے،دعوی تو تحقیق کا کیاگیا ہےمگر تحقیق سے یکسر خالی ہے،بعض جگہوں پر تخریج ہےمگر نہ کے برابر۔ڈھیر سارے مولفین اور ان کی تألیفات پر بھی گفت و شنیدہوئی،ہندوستانی مدارس و جامعات کے احوال و ظروف اوران میں تدریسی خدمات انجام دے رہے مدرسین و معلمین اور عملہ کی اقتصادی زبوں حالی،کورونا کی وجہ سے تنخواہیں ادا نہ کرنے جیسے مسائل بھی زیر بحث رہے،اساتذہ کی چھٹنی،معلمین و مدرسین کو مدارس و جامعات سے باہر کا راستہ دکھائے جانے پر بھی غم و افسوس کا اظہار ہوا اور انتہائی فراخ دلی کے ساتھ بعض ان مدارس کا خصوصی ذکر ہوا جنھوں نے نصف ہی سہی تنخواہ ادا کرنے کا اہتمام فرمایا ۔
ایک صبح شیخ ضیاء الحق تیمی کے ساتھ بھی شیخ نراین پوری کی معیت میں مل بیٹھنے،آپ کی علمی صلاحیت سے مستفید ہونے،کچھ علمی تبادلہ ٔ خیالات کرنے کا حسین موقعہ میسر ہوا۔شیخ تیمی کو فیس بک اور واٹس ایپ کی دنیا سے جانتا تھا۔
پھر مدینہ منورہ سے اتوار کے دن ڈھیر ساری یادیں،باتیں اور علمی سوغات لیے اپنے مستقر میسان(طائف)کی طرف واپسی ہوئی،شیخ فاروق صاحب نراین پوری نے مہمان نوازی میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑی ،علمی جواہر پارے اور تحقیقی نفیس معلومات سے ملاقات کو نور و نکہت میں ڈبوئے رکھا اور واپس ہوتے ہوئے انتہائی نفیس،ناقابل فراموش تحائف سے بھی نوازا اور مملکت سعودی عرب کی معروف و مشہور قلم کار،سعودی وزارت کی نصابی کتابوں کی ترتیب میں معاون و مددگار فاضل خاتون شیخہ بنت محمد القاسم-حفظہا اللہ و رعاہا-کی تألیف کردہ کئی کتابیں ہدیہ کیں جو آپ نے خاص میرے ہی لیے کسی موقعے پرحاصل کی تھیں۔اس ذرہ نوازی کے لیے میں شیخ فاروق صاحب نراین پوری کی خدمت ِ عالیہ میں کن الفاظ سے ہدیہ ٔ تشکر و امتنان پیش کروں،اللہ سے دعا گو ہوں کہ رب کریم نراین پوری صاحب کو مزید علمی تحقیقات کی توفیق بخشے اور ان کے لیے صدقہ ٔ جاریہ بنائے اور امت کے لیے آپ کو نفع بخش بنائے۔آمین یا رب العالمین
ماشاء اللہ
پڑھتاگیا اور حرمین کی یاد تازہ ہوتاگیا
ایسا لگ رہاتھا جیسے حرم آنکھوں کے سامنے ہوں اللہ تعالی سے دعاء ہیکہ
رب العالمین تو اپنے گھر کاپھر سے ایک بار دیدار کرادے
بڑی تمنائیں اور آرزو ہیں
تو قبول فرمالے اور عمرہ کی توفیق دے دے
آمین
السلام علیکم
شیخ محترم 4 دسمبر بروز جمعہ حرم مکی میں نماز فجر دکتور بندر بليلة نے پڑھائی تھی اور اس میں سورۃ الأحقاف کی تلاوت کی تھی
بالکل آپ نے درست فرمایا
ضبط ِ تحریر میں مجھ سے سہو ہوا ہے
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے
شکریہ