دوسرے دن صبح ہم شہرہ آفاق ادارہ جامعہ اسلامیہ دریا باد کے لیے روانہ ہوئے جو ڈاکٹر عبدالباری فتح اللہ مدنی -حفظہ اللہ- کا قائم کردہ ہے،راستے میں شیخ الجامعہ عبدالسمیع کلیم اللہ مدنی -حفظہ اللہ- سے ان کے گھر پرملاقات ہوئی،ایک ایسی شخصیت جن کے اخلاق کریمانہ اور رفتار شریفانہ اور انداز دلبرانہ نے دل کو چھو لیا،دور سےایک جاندار مسکراہٹ ہماری طرف اچھال کر جس جوش وخروش کا مظاہرہ کیا اس کے اظہار کے لیے الفاظ کا نگار خانہ خالی ہے،خلوص واپنائیت اس درجہ تھی جیسے برسوں کی شناسائی ہو،تواضع وانکساری اس قدر کہ دور دورتک کوئی نظر نہیں آتا،وگرنہ عہدہ و مناصب کی دنیا میں بے اعتنائی،سرد مہری،چشم پوشی اور تجاہل کا ایسا چلن ہے کہ تذکرے سے طبعیت مکدر ہوتی ہے،بعض مقامات پر تو نوواردوں کے حصے میں جو چیز آتی ہے وہ بڑوں کے کرتوں اور شیروانی سے پھوٹتی ہوئی خوشبو ہے اور بس، لیکن گھپ اندھیرے میں کہیں کہیں روشنی کی کرن بھی نظر آجاتی ہے،سچ کہا ہے شاعر نے؎
جو عالی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتا ہے پیمانہ
چائے ناشتے کے بعد شیخ ہم کو لیے ہوئے جامعہ کی طرف روانہ ہوئے،تھوڑی دیر میں ہم جامعہ کے دیو ہیکل گیٹ پر کھڑے تھے،گیٹ کھلا اور آنکھوں کے راستے دل تک ایک روشنی سی اترتی محسوس ہوئی، اندرونی منظر بڑا سحر انگیز اور جاذب نظر تھا،درمیانی حصے میں خوبصورت سبزہ زار،نقش ونگار،عمارتیں تعمیری خوش سلیقگی کی شاہکار،فیلڈ میں شجرکاری،ہربلڈنگ کے لیے پختہ راستے اور راستوں کے کنارے کنارے قد آدم درخت اور جابجا لائٹس نے جامعہ کا حسن دوچند کردیا تھا،طرز تعمیر جمالیاتی ذوق کا مظہر تھا،گیٹ پر ہی شیخ مشتاق ریاضی- حفظہ اللہ- سے ملاقات ہوئی،آپ اکثر میرے مضامین پر اپنے علمی کمنٹ سے نوازتے رہتے ہیں،مجلہ استدارک کے مدیر اور جامعہ کےمفتی شیخ جعفر ہندی سے بھی ملاقات ہوئی،ایک علمی مجلس جم گئی اور کئی موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا،شیخ نے یہاں بھی ایک ذائقے دار چائے سےضیافت کی،لیکن اس ذائقے سے کہیں زیادہ لذیذ وہ موضوعات تھے جو رہ رہ کے چھڑتے رہے۔
چند ثانیے بعد ناظم جامعہ شیخ عتیق اثر ندوی- حفظہ اللہ- بھی تشریف لائے، آپ علم وادب اور زبان وقلم کے بے تاج بادشاہ ہیں،شیخ الجامعہ نے تعارف کرایا تو جمعیت اہلحدیث ٹرسٹ بھیونڈی کے امیر عبدالحمید خان اور ناظم مطیع الحق خان کے بارے میں دریافت کیا،آپ سفر حج میں عبدالحمید خان صاحب کےساتھ تھے اور بھیونڈی جمعیت کی دعوت پر ایک کانفرنس میں آ چکے ہیں،پروگرام کی نظامت بھی آپ نے کی تھی،شیخ الجامعہ نے اپنی چند تصنیفات اور دوسری کتب ہدیہ کیں، مجلہ استدراک کا تازہ شمارہ اور تین جلدوں پر مشتمل قاضی ناصر الدین البیضاوی کی تصنیف ’’تحفۃ الابرار‘‘ بھی جامعہ کی طرف سے عنایت کی، لائبریری جداگانہ نوعیت کی تھی،کتابوں کی ترتیب ایک مخصوص انداز میں تھی،جامعہ کا ہر حصہ اپنے قیام وتعمیر میں ایک معنویت لیے ہوئے تھا۔
ظہرانہ شیخ عبدالسمیع مدنیکی طرف سے تھا،بریانی اور لذیذ قسم کے سالن سے تواضع کی اور ہم شکم سیر ہوگئے،حسن اتفاق چند شعراء سے ملاقات ہوئی توشیخ نے ایک شعری مجلس رچا دی اور ہم سبھی تقریباً دوگھنٹے تک کاشف شکیل کی تازہ غزلیں اور چند شاعروں کو سماعت کرتے رہے،اوربیچ بیچ میں ایک خوش الحان متشاعربھی رنگ جمانے کی کوشش کرتے رہے۔
گھڑی نے چار بجایا تو ہم سب چھوڑ چھاڑ ’’بکھرا تال‘‘ کی طرف روانہ ہوئے،جی ہاں وہ بکھرا جھیل جو ایک مشہور پس منظر سے جڑا ہے،دراصل وہ پس منظر ہی اسے دیکھنے کے لیے تجسس بڑھاتا ہے،چند ثانیے بعد ہم جھیل کے کنارے ایک پوائنٹ پر کھڑے تھے،لمبائی اتنی کہ جھیل کا دوسرا کنارا تاحد نظر دکھائی نہیں پڑتا تھا،اس جھیل کی جو کہانی بیان کی جاتی ہے وہ کوئی مستند تاریخ نہیں ہے،لیکن وہ پس منظر ایسا زبان زدعام ہے کہ حقیقت سمجھ لیا گیا ہے،ہم مغرب کے بعد تک سانتھا گاؤں پہنچے اور صبح نکلنے کی تیاری میں مشغول ہوگیا، صبح کاشف شکیل صاحب نے مجھے بانسی ڈراپ کیا اور میں گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
۱۷؍نومبر کو شیخ شمیم عبدالغفار کی دعوت پر شیخ الیاس سلفی کی دختر کے نکاح میں کولھواں گاؤں پہنچا،شیخ شمیم صاحب کی شہرت آپ کی درسی کتاب ’’تعلم اللغہ العربیہ‘‘ کے حوالے سے ہے،جدید دور کی نفسیات اور اسلوب کو سامنے رکھتے ہوئے انتہائی مفید نصاب مرتب کیا ہے،کئی مدارس میں شامل نصاب ہے،اس سیٹ پر چند روز پہلے ڈاکٹر شمس کمال انجم- حفظہ اللہ- کا انتہائی گراں قدر اور پرمغز تبصرہ ایک واٹسپ گروپ میں پڑھ چکا ہوں،ناچیز کو بھی تبصرے کے لیے کتابیں پہنچائی گئی ہیں،آپ غیرمعمولی اخلاقیات کی حامل شخصیت ہیں،مہمانوں کے استقبال کے لیے دوڑ دوڑ پڑتے تھے ،سامان خورد ونوش اپنے ہاتھوں سے میز پر سجاتے تھے، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
یہ دعوت ایک شادی کی مناسبت سے تھی،علماء اس دعوت میں کثیر تعداد میں موجود تھے،شیخ مطیع اللہ مدنی،شیخ انیس سلفی،شیخ حسین احمد فیضی،شیخ نیاز سلفی، شیخ ضمیر احمد مدنی-حفظھم اللہ- سے ملاقات ہوئی لیکن زیادہ تر وقت ہم مزاج اور بے تکلف دوست شیخ مشتاق نوری مدنی کے ساتھ گزرا،دوسری جگہوں کی بہ نسبت بارات کی تعداد کم تھی لیکن ۵۰ کے قریب لوگ تھے،یوپی میں جہیز اور بارات کا چلن لگتا ہے ہمارے سماج کو لے ڈوبے گا،کتنے ہیں جو رسم ورواج کی لعنت سے شادیوں کو پاک رکھنا چاہتے ہیں،وہ بیٹوں کی شادی تو شرع کے مطابق اپنی کڑی شرطوں پر کرلے جاتے ہیں لیکن بیٹیوں کے لیے مجبور کردیے جاتے ہیں،یہ حد درجہ بگڑے ہوئے ماحول کی سل ہے جس کے نیچے روایات اورانسانیت کراہ رہی ہے،حیرت ہے کہ سماج کے دھارے کے خلاف چلنے والامجاہدانہ جذبہ بھی اس کمزور موڑ پر ہار جاتا ہےاور اپنی بے بسی اور لا چارگی پر کف افسوس ملتا ہے،کیونکہ لڑکے والے اپنی من مانی کراکے رہتے ہیں۔
دوچار دن گزرا تھا کہ ملک عبدالنور بھائی کے وطن آنے کی خبر موصول ہوئی،سن کر بڑی خوشی ہوئی،یہ وہی عبدالنور نملی ہیں جو بیلن بلرامپوری کے نام سے سوشل میڈیاکو قہقہہ زار بنائے رکھتے ہیں،نوجوانوں کے پسندیدہ مزاح نگاراور علم وادب کے شیدائی ہیں،بہت بے تکلف،خلیق اور دریا دل ہیں،دوستوں کا خیال رکھنے والے رحم دل اور حاضر جواب ہیں،آپ نظم و نثر دونوں میں طنزومزاح کے ذریعہ دوستوں کو ہنساتے اور کچھ دوستوں کو ستاتے بھی ہیں۔کہتے ہیں کہ مزاح نگار اپنے زخموں کو چھپا کر دنیا کو ہنساتا ہے،لیکن عبدالنور بھائی دوستوں کی تفریح کے لیے بیلن کے زخموں کو لطیفوں میں ڈھال کر دوستوں کولوٹ پوٹ کردیتے ہیں۔
عبدالنور بھائی کی آمد ہوئی تو رشید ودود بھائی نے موقع غنیمت جان کر ایک شاندار دعوت بنام’’دعوت ولیمہ برائے عقد ثانی‘‘ رکھ دی،دعوت تو ہوگئی لیکن عقد ثانی ابھی باقی ہے۔۲۴؍نومبر کو دوستوں کا ایک قافلہ کسارے گاؤں کے لیے عازم سفر ہوا،اس قافلے میں ناچیز کےساتھ ملک عبدالنور ،حسان ابوالمکرم،کاشف شکیل،ہلال ہدایت،سلمان ملک وغیرہم شامل تھے،رشید ودود بھائی پہلے سے منتظر تھے۔
رشید ودود صاحب کو سوشل میڈیا کا بچہ بچہ جانتا ہے،میری دوسری ملاقات تھی،خلیق ،ملنسار، سخی اور مہمان نواز ہیں،تحریروں سے بڑے کرخت اور کٹھور نظر آتے ہیں لیکن بہت نرم خو اور خوش گفتار ہیں،مطالعہ اتنا وسیع ہے کہ رشک آتا ہے،عمر زیادہ نہیں ہے لیکن نثر رچی اور منجھی ہوتی ہے،آپ کےقلمی آتنک سے تحریکی واخوانی ایوان لرزہ براندام رہتا ہے،بندہ جسے حق سمجھتا ہے اس کے لیے بڑے بڑوں سے بھڑ جاتا ہے،معلوم ہے کہ منہج اہلحدیث کے خلاف برپا ہونے والے کسی بھی قلمی پیکار میں سب سے پہلے رشید ودود کا قلم حرکت میں آتا ہے،ابھی لوگ سوچ ہی رہے ہوتے ہیں اور رشید ودود اپنی وال سے خرمن باطل پر بجلی گراچکا ہوتا ہے،کتابوں کا ذخیرہ جمع کررکھا ہے،پورے دورانیے میں بار بارمیری نظر نادر و نایاب کتابوں پر پھسلتی رہی،کتابیں رشید بھائی کے اعلی ذوق مطالعہ کی مظہر تھیں،شیخ ابوالقاسم کی تازہ تصنیف ’’ابوالقاسم سیف بنارسی حیات وخدمات‘‘ مجھے ہدیہ کیا،رشید بھائی کے والد محترم شیخ عبدالودود سلفی بہت مہمان نواز اور مرنجاں مرنج طبعیت کے انسان ہیں،ہم لوگوں کو برابر نماز باجماعت کے لیے مسجد لے جاتے رہے،مسجد میں ایک مختصر سادرس بھی ہوا،عبدالنور بھائی سے آپ کی لطیف قسم کی مزاحیہ نوک جھونک بھی چلتی رہی،رشید بھائی اور آپ کے تمام بھائی بڑے مہمان نواز اور باذوق ہیں۔
ضیافت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی،پہلے ناشتے کا دور چلا پھر ایک طویل وقفے کے بعدظہرانہ تھا،مرغ فرائی اور ایسی لذیذبریانی کھلائی کہ ہم ہونٹ چاٹتے رہ گئے۔
اسی اثنا میں دکتور عبدالغنی القوفی بھی تشریف لے آئے،مجلس کی رونق دوبالا ہوگئی،سب خوشی سے جھوم اٹھے؎
محفل میں چار چاند لگانے کے باوجود
جب تک نہ آپ آئے اجالا نہ ہو سکا
آپ کے آنے کے بعد ساری نگاہیں آپ پر مرکوز تھیں اور آپ تشنگان علم و ادب کو خم کے خم لنڈھاتے رہے،حسان ابوالمکرم کو ماجستر کے مقالے کے لیے نہ صرف اس مجلس میں انتہائی معیاری موضوعات دیے بلکہ مراجع اور مواد پر روشنی بھی ڈالتے رہے،آپ نے کہا اردو محاورات میں جو شرکیات اور عقیدہ کے منافی باتیں پائی جاتی ہیں،ان کی تحقیق وتلاش ہو اور ان پر مقالہ لکھا جانا چاہیے یا پھر جہالت کے سبب ناموں میں پائی جانے والی عقیدے کے منافی باتیں اور جو بے اعتدالی درآئی ہے ان کی تحقیق اورتتبع ہونا چاہیے۔اس طرح دیرتک مختلف موضوعات پر آپ کی نکتہ آفرینی جاری تھی،وقت بڑی تیزی سے گزر گیا،شام گرین ٹی کے دور کے بعد مجلس برخواست ہوئی اوریہ کہتے ہوئے ہم گھر کے لیے نکل پڑے؎
ابھی تو گوش بر آواز تھی بھری محفل
کہاں یہ تو نے کہانی کا اختتام کیا
(روش صدیقی)
۲۶؍نومبر کو واپسی تھی،جوں جوں وقت گزررہا تھا تھی لمحوں کی شادمانی افسردگی میں تبدیل ہورہی تھی،مہینہ وصل کا گھڑیوں کی صورت اڑرہا تھا،اب رہ رہ کے دھیان میرے مسکن بھیونڈی کی طرف مبذول ہونے لگاتھا،ایک مہینے کے غیاب سے پیدا ہونے والے خلا کے بارے میں سوچنے لگا،ایک بار پھر سے لاک ڈاؤن میں توسیع کردی گئی تھی،اس لیے اب باقاعدہ آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ بن رہا تھا،وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے،اسی ادھیڑ بن میں۲۶؍نومبر بھی آگیا،ٹرین کی بورڈنگ گورکھپور سے صبح۵بجے تھی،رات کے اندھیرے میں جب کار ہم کو لے کر گورکھپور کے لیے روانہ ہورہی تھی تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی نادیدہ شئ پیچھے کی طرف کھینچ رہی ہو،گاڑی تاریکی کی چادر کو چیرتی ہوئی منزل کی طرف رواں دواں تھی اور سر رشتۂ ذہن یادوں کے تانے بانے میں الجھ رہا تھا، آنافانا ہم گورکھپور پہنچ گئے،دو گھنٹے پلیٹ فارم پر خوار ہونے کے بعد ریل گاڑی مطلوبہ پلیٹ فارم پر شور مچاتی ہوئی آئی،ہم اپنی نشستوں پر آگئے،چند لمحوں بعد ٹرین پٹری پر چوکڑیاں بھررہی تھی اور لبوںپر قتیل شفائی کا شعر مچل رہا تھا؎
منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاؤں کے
نیندیں چرا رہے ہیں وہ جھونکے ہواؤں کے
دل یہ کہتا ہے کہ بار بار پڑھوں۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا