مختلف تہذیبوں کا گہوارہ – قاھرہ

ریاض الدین مبارک سفریات

دمشق کے بعد استنبول دیکھنے کا پلان کیا۔ ان دنوں میں دبی میں مقیم تھا چنانچہ دبی میں موجود ٹرکش قونصلیٹ نے بہت آسانی سے میرے پاسپورٹ پر اپنا سیاحتی ویزا اسٹامپ کردیا، ائیرلائنز انڈسٹری کا ایک فرد ہونے کے ناطے امارات ائیرلائنز نے صرف ایک ہی ریکویسٹ پر فری ریٹرن ٹکٹ بنادیا اور باقی لوازمات بھی تقریبا مکمل ہو چکے تھے۔ میری فلائٹ 20 اگست 1999 کو طے تھی۔ تمام تیاریوں کے باوجود کارخانۂ قدرت میں یہ سفر اذن نہ حاصل کر سکا اور 17 اگست 1999 کو ترکی کے شہر ازمیت اور اسکے نواح پر ناگہاں قیامت صغرٰی ٹوٹ پڑی۔ ریختر اسکیل پر 7.6 کی شدت کا ایسا بھیانک زلزلہ آیا جس میں کم و بیش 17000 انسانی جانیں ایک جھٹکے میں لقمۂ اجل بن گئیں اور نصف ملین لوگ بے گھر ہوگئے۔ اس زلزلے کی چپیٹ میں استنبول بھی آیا اور وہاں بھی کافی نقصان ہوا۔ ہنوز میرا عزمِ سفر متزلزل نہ ہوا تھا مگر ترکی کی حکومت مسلسل وارننگ جاری کرتی رہی کہ زلزلے کی تباہی کے بعد چند جھٹکے مزید آسکتے ہیں اس لئے پبلک کو احتیاط برتنا چاہئیے۔
قسمت تو دیکھ! ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
الغرض میں استنبول نہ جاسکا اور یہ خواہش تا دم تحریر تشنہ ہی ہے۔ اللہ کرے وہ دن جلد آئے جب میں ترکی جاؤں اور استنبول سمیت دیگر مقامات کی سیاحت نصیب ہو!
ترکی نہ دیکھ پانے کا قلق رہ رہ کے محرومی کا احساس دلاتا رہا کہ ایک روز اچانک میرے ذہن میں مصر جا کر قاہرہ دیکھنے کا خیال آیا اور میں نے دبی میں موجود مصر قونصلیٹ میں ٹورسٹ ویزے کے لئے عرضی ڈال دی۔ دوسرے دن بحمداللہ ویزا بھی مل گیا اور مصر للطیران (Egypt Air) کی پرواز سے اکتوبر 1999 کے شروع میں قاہرہ وارد ہوا۔ مصر جسے وہاں کے لوگ اکراماً اُمّ الدنیا یعنی دنیا کی ماں کے نام سے موسوم کرتے ہیں اپنی قدیم ترین تہذیب و تمدن کے حوالے سے دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے ہمیشہ پرکشش رہا ہے۔
قاہرہ افریقہ کا ہی نہیں بلکہ عرب دنیا کا بھی سب سے بڑا اور قدیم شہر ہے۔ یہ شہر اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ گزرے دنوں کی تہذیبوں کا گہوارہ اور تاریخ کے رازہائے سر بستہ کا امین ہے۔ قاہرہ مصر کا دارالحکومت ہے اور اس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے کچھ زیادہ ہی ہوگی۔ مختلف ادوار میں تعمیر کئے گئے تین صوبوں اور کئی شہروں کے ادغام کا نام قاھرة الکبری ہے۔ پہلا صوبہ محافظۃ الجیزہ ہے جو دریائے نیل کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ تاریخ کی ایک روایت کی رو سے جیزہ اسلامی دور کا شہر ہے جو سن اکیس ہجری میں وجود میں آیا تاہم ایک روایت یہ بھی ہے کہ جیزہ شہر اسی ممفیس شہر کا نو آبادیاتی امتداد ہے جہاں ممفیس کے آثار قدیمہ آج بھی باقی ہیں۔ جسے مینس فرعون نے قدیم مصر کا دارالحکومت بنایا تھا، بعد ازاں جب فراعنہ کی کچھ پیڑھیوں نے جنوب مصر کے شہر طیبۃ الاقصر (Luxor) میں اپنا مرکز منتقل کر لیا تب بھی یہ جیزہ جنوب اور شمال میں نقطۂ وصل بن کر اپنا رول ادا کرتا رہا۔ جیزہ لغوی اعتبار سے وادی کا ہم معنی ہے اسے انگلش زبان میں GIZA کہتے ہیں اور اسی شہر کی طرف نسبت کر کے موجودہ وقت کے سب سے نفیس اور دلکش کاٹن فیبرک کو GIZA cotton کہا جاتا ہے جو مصر کے نہایت اعلی اور عمدہ کوالٹی والے کاٹن فائیبر سے تیار کیا جاتا ہے۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک دوسرا شہر فسطاط ہے جو قدیم بابلیون اور مقطم پہاڑی کے دامن میں صحابی جلیل مسلم سپہ سالار عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے 21 ہجری میں تعمیر کرایا تھا۔ وہیں پہ فوجیوں کی تربیت کے لئے ایک مرکز بھی بنوایا گیا جسکے سامنے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا خیمہ نصب کیا گیا۔ اس خیمے کی نسبت سے اس شہر کا نام فسطاط پڑ گیا کیونکہ خیمہ کو عربی میں فسطاط بھی کہتے ہیں۔ دوسرا صوبہ محافظۃ القاھرہ یا شہر قاہرہ ہے جو فاطمی سلطان المعز باللہ کی ایماء پر جوہر الصقلی نے 969ء میں دریائے نیل کے مشرقی کنارے پر بنوایا اور فسطاط سے کچھ ہی فاصلے پر اس شہر کی فصیلیں تعمیر کی گئیں اور اس کا نام قاہرہ رکھا گیا تاکہ باقی دنیا پر وہ قہر ڈھائے اور اس کا رعب و دبدبہ ہمیشہ قائم رہے۔ یہ سوچ اس وقت کے فاطمی حکمران کی تھی، قاہرہ کا وہ موہوم رعب اب بھی باقی ہے یا نہیں یہ آپ کی نظر خود ہی فیصلہ کرلے گی۔ تیسرا صوبہ محافظۃ القلیوبیہ ہے جو ڈیلٹا نیل کے بالکل سرے پر کئی شہروں پر مشتمل ہے۔
قدیم شہر ہیلی پولیس، بابلیون، ممفس اور فسطاط سب قاہرہ میں محلول ہو کر بے نام ہوگئے۔ غرضیکہ فی زمانہ دریائے نیل کے ساحلوں پر دونوں جانب دور تک پھیلے ہوئے کئی شہروں کا مرکّب قاھرۃ الکبری ہے جہاں پورے‪ ‬مصر کی پچیس فیصد سے زائد آبادی سکونت پذیر ہے۔
رات نو بجے قاہرہ انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر ہمارا جہاز لینڈ ہوا تو تھوڑی دیر کے لئے مجھے ایسا لگا کہ ہم فرعون کی ریاست میں داخل ہورہے ہیں! الہی خیر! پاسپورٹ والوں اور کسٹم والوں نے ہمارا ایسا خیر مقدم کیا کہ بس گلے میں ہار نہیں ڈالا۔ باہر نکلتے ہی دلی ائیرپورٹ کی طرح وہاں بھی ٹیکسی والوں نے ہمارے ارد گرد گھیرا ڈال کر اپنی گاڑی میں بٹھانے کے لئے حملہ شروع کردیا جیسے تیسے ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر قاہرہ شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔ اثناء سفر ٹیکسی والے نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ میں نے تو کسی ہوٹل میں ایڈوانس بکنگ نہیں کر رکھی تھی لیکن کچھ ہوٹلوں کی ہیئت وماہیئت پر کافی کچھ ریسرچ کرکے گیا تھا انہی ہوٹلوں میں ایک نام کلیوپاترا تھا جو بالکل تحریر اسکوائر کے پاس اور نیل کے ساحل سے اتنا قریب تھا کہ ہوٹل کی کھڑکی سے نیل کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا میں نے ڈرائیور کو اسی ہوٹل کا نام بتادیا۔ رات کے اندھیرے میں تو کچھ سجھائی نہ دیا لیکن کچھ ہی دیر بعد ہوٹل کے گیٹ پر پہونچ گیا۔ ڈرائیور نے سامان اتارا اور اپنی اجرت لے کر مجھے ہوٹل والوں کے حوالے کر گیا۔ میں نے ریسیپشن پر جا کر روم کی بات کی تو پتہ چلا روم خالی ہے لیکن روم دیکھنے سے پہلے کچھ پیسے ایڈوانس دے کر بکنگ کنفرم کرنا ضروری تھا سو میں نے کردیا۔ روم دکھانے کے لئے ایک بیرا میرے ساتھ اوپر کے کسی فلور پہ آیا۔ روم سے نیل تو صاف دکھ رہا تھا لیکن اندر صفائی بالکل نہیں تھی اور ریٹ بھی کافی تھا لہذا میں نے سوچا کوئی اور ہوٹل دیکھیں گے جو سستا ہو اور صاف ستھرا بھی ہو۔ میں اپنا سامان لے کر ہوٹل سے باہر نکلا ہی تھا کہ وہی ٹیکسی والا آ دھمکا جس نے مجھے ائیرپورٹ سے اس ہوٹل تک چھوڑا تھا۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور بولا:

تفضّل يا باشا

(آئیے تشریف لائیے)
میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کہاں جاؤں۔ ڈرائیور میری اَنْ کہی کہانی سمجھ چکا تھا اور اس وقفے میں وہ یہ بھی جان چکا تھا کہ مجھے عربی سے کچھ شدھ بدھ بھی ہے اس نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے کہنے لگا:

ازيك يا باشا؟ أكيد ما أعجبك الفندق دا! بتروح فين في ساعه زي دي؟ أنت عايز ايه؟ انا باعتقد اول حاجه أنت عايزها دلوقتي الفندق صح؟ ما فيش مشكلة بآخدك احلى وارخص فندق وعلى كورنيش النيل، ربِّنا يخليك

(كيا حال ہے جناب؟ لگتا ہے یہ ہوٹل آپ کو اچھا نہیں لگا! اب ایسے وقت میں آپ کہاں جائیں گے؟ آپ چاہتے کیا ہیں؟ فی الحال تو آپ کو ہوٹل کی ہی ضرورت ہے نا؟ کوئی بات نہیں جناب میں آپ کو ایک اچھے اور سستے ہوٹل لے چلوں گا اور وہ بھی نیل کے کورنیش پہ، اللہ آپ کی حفاظت فرمائے)۔
مصری لہجے میں “ق” کا تلفظ (الف) اور “ج” کا تلفظ اردو والا (گاف) کا آہنگ لئے باہر آتا ہے۔ اللہ کی پناہ! صحیح ہے میں عربی زبان سے واقف تھا اور دبی میں مقیم ہونے کے ناطے مصری لہجے سے بھی کسی حد تک آشنا تھا لیکن قاہرہ جا کر وہاں قدیم مصری زبان ھیروغلیفی اور قبطی کی آمیزش سے تیار کیا ہوا لہجہ گرچہ دلپذیر اور لذیذ تھا پر ہم عجمیوں کی سماعت پر بڑا شاق گزر رہا تھا۔ بڑی مشکل سے تھوڑا بہت سمجھ میں آتا اور اپنا کام چل جاتا تھا۔ میں نے رضامندی ظاہر کی اور ٹیکسی ڈرائیور فورا گاڑی کا ایکسیلیٹر دبا کر وہاں سے دوسرے ہوٹل کو روانہ ہوگیا۔ پانچ منٹ کے اندر ہی ہم نیل کے ایک پل پر پہونچ چکے تھے میں نے پوچھا یہ کون سی جگہ ہے اس نے بتایا:

دا نهر النيل واحنا نروح على الجهة الثانية من النيل بس على الكورنيش وان شاء الله حضرتك تنبسط

(یہ دریائے نیل ہے ہم نیل کے دوسرے چھور پر جارہے ہیں آپ کی طبیعت خوش ہوجائے گی)۔
رات کے اندھیرے میں نیل کے پل پر کھڑے ہوکر تھوڑی دیر میں نے نگاہ دوڑائی صرف جل تھل پانی دکھ رہا تھا اور نیل کے دونوں کناروں پر آباد عمارتوں کی روشنیوں کا عکس نیل کے منظر کو مزید دلکش وجاذب نظر بنائے ہوئے تھا گویا نیلے آسمان کے چمکتے ستارے اتر کر نیل کی مچھلیوں کے سروں پہ آ بیٹھے ہوں اور جانے کی جلدی میں پانی کی تہہ میں بیٹھی مچھلیوں کو اشاروں میں کچھ کہہ رہے ہوں جس کی وجہ سے پانی میں ارتعاش سا پیدا ہورہا تھا۔ خیر تھوڑی دیر بعد ٹیکسی ایک ہوٹل کے پورچ میں آن کھڑی ہوئی۔ ہوٹل کا نام تھا الفراعنہ۔
ٹیکسی والے نے میرا بیگ اٹھایا اور ہوٹل کے ریسیپشن تک پہونچا کر لابی میں بیٹھ گیا۔ میں نے پہلے روم کا معائنہ کیا وہ ٹھیک ٹھاک لگا اور روم بک کرلیا۔ ڈرائیور کو اس کی اجرت دے کر الوداع کہنے لگا تو اس نے کہا: أي حاجه؟ میں اسکا مطلب نہیں سمجھ سکا اور اس سے پوچھ بیٹھا کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے دوبارہ کہا: أي حاجه اور اشاروں میں اپنی مراد کہہ گیا۔ میں نے کچھ مصری جنیہ اس کے حوالے کئے اور وہ اپنی عباء لہراتا ہوا خوش خوش وہاں سے روانہ ہوگیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب مجھے حاجہ کے دوسرے مفہوم کا ادراک ہوا اور وہ ہے بخشش!
رات کافی ہوچکی تھی اور جسم تھکان سے چور تھا لہذا فورا لحاف میں گھس گیا۔ دوسرے دن صبح اٹھ کر میں نے دن بھر کا پلان کیا اور ناشتے سے فارغ ہوکر اہرامات کے لئے ٹیکسی طلب کی۔ چند منٹوں میں ہی ٹیکسی آگئی اور میں فراعنہ کی عظمت رفتہ کا مشاہدہ کرنے کے لئے نکل گیا۔ اہرام کو جانے والی سڑک کافی کشادہ اور سرسبز وشاداب ہے۔ ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئے سڑک کے دونوں جانب شجرکاری بڑے سلیقے سے کی گئی ہے۔
اس وقت مصر کے صدر جناب محمد حسنی مبارک تھے جو صرف حسنی مبارک کے نام سے معروف ہیں۔ انور سادات کے قتل کے بعد سے زمام حکومت انہیں کے ہاتھوں میں تھی۔ (2011 میں عوامی انقلاب نے انہیں جبرا دستبردار کرکے دم لیا اور جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا۔ ان پر مختلف قسم کے دفعات عائد کئے گئے اور مقدمہ چلتا رہا یہاں تک کہ 2017 میں مصری کورٹ نے انہیں تمام الزامات سے بری کردیا اور وہ آزاد کردئے گئے۔) بات کہنے کی جو تھی وہ یہ کہ سڑک اور سڑک کے کنارے سرکاری عمارتوں پر جگہ جگہ صدر حسنی مبارک کی ہورڈنگ اور بینر لگے ہوئے تھے جو ان کی مقبولیت کی علامت کے طور پر دکھائے گئے تھے لیکن صدر صاحب کا آخری انجام عوام کی مقبولیت کے درجے کو بخوبی بیان کرتا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔۔۔۔۔
ٹیکسی تیز رفتاری سے مسافت طے کر رہی تھی اس لئے منزل تک پہونچنے میں دیر نہیں لگی۔

ابوالہول


ٹیکسی سے نیچے اترا تو سامنے اہرام کا منظر دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ وہیں ایک طرف ابوالہول عظماء اور عوام دونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی ہیبت اور قوت کا خاموش مظاہرہ کر رہا تھا۔ آثار قدیمہ اور وہ بھی عجائب زمانہ کی زیارت مفت تو ہونے سے رہی لہذا پہلے ٹکٹ خریدا اور ابوالہول قریب تھا اسلئے پہلے وہیں گیا۔ یہ مجسمہ تھوڑا نشیب میں ہے لہذا احتیاط سے اترنا پڑا۔ ابوالہول واقعتا عجائب روزگار میں سے ہے میں اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ ایسا لگا جیسے وہ اپنی زبان حال سے اعلان کر رہا ہو کہ میں لازوال ہوں میں نا قابل تسخیر ہوں مجھے جاودانی حاصل ہے میں رہتی دنیا تک بے مثال ہوں۔ حکومت مصر نے یہاں سیاحوں کے لیے شام کے جھٹ پٹے میں موسیقی اور روشنی کے شو کا زبردست انتظام کیا ہے جہاں صحرا کی بے پناہ وسعت میں ابوالہول کی پرہیبت آواز ماضی کے ان مقبروں میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔
ابوالہول دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ ہے اسے انگلش میں (Sphinx) کہا جاتا ہے۔ اس کا دھڑ شیر کا اور سر آدمی کا ہے۔ اس کی لمبائی 73.5 میٹر اور چوڑائی 20 میٹر ہے۔ لغت کے مفسرین نے اس لفظ کے بارے میں جہاں مختلف باتیں کیں ہیں وہیں ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ ابوالہول عربی زبان کا لفظ ہے جو فرعونی نام (بو حول) سے مستعار ہے، بعد میں اس لفظ میں تحریف کی گئی اور اس کے شروع میں الف کے اضافہ اور حاء کو ھاء سے بدل کر عربی زبان کا قالب عطا کر دیا گیا۔ اس کا معنی مکان یا پناہ گاہ کے ہیں رعب دار یا ہولناک اور خوفناک بالکل نہیں جیسا کہ کچھ لوگوں کا ایک تصور یہ بھی ہے۔ ابوالہول کنگ خوفو یا اسکے بیٹے کنگ خفرع نے بنایا یہ معمہ بھی اب تک حل نہ ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ اسکی عمر پانچ ہزار سال سے زیادہ یعنی فرعون خوفو کے عہد سے پہلے کا ہے۔ اس مجسمے کے بارے میں علماء آثار کی رائیں مختلف ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سورج دیوتا کا ایک طلسم ہے جو وادی نیل کی حفاظت کرتا ہے۔ قدیم مصریوں کی حکایتوں میں مذکور ہے کہ اس قسم کے مجسمے فراعنہ کی الوہیت کے رموز جانے جاتے تھے اسی لئے بعض مجسموں میں مینڈھے یا عقاب کا سر بھی بنایا جاتا تھا۔ بہر حال اس بت کے بنانے والے نے اپنے فن کی عظمت کو دوام بخشا ہے اور اسکا سادہ سا مفہوم یہی سمجھنا چاہئیے کہ یہ ابوالہول ایک ایسا شاہکار ہے جس میں شیر کی قوت اور انسان کی دانائی دونوں شامل ہے۔ ابوالہول کی بناوٹ کے تعلق سے بتایا جاتا ہے کہ جیزہ کے ریگستان میں موجود چونے کے پتھر (Lime Stone) کی پہاڑی کی ایک ہی چٹان سے تراش کر بنایا گیا ہے۔
کافی دیر تک ہم ابوالہول کے چہرے اور جسم کے تابندہ نقوش دیکھتے رہے۔ عرض حال ایں کہ اس شاہکار کی قدامت کو دیکھ کر گزرے ہوئے انسان کے فن تعمیر پر رشک تو آیا تاہم اس عہد میں ٹیکنالوجی کی عدم فراہمی کے سبب مزدوروں پر ہونے والے ممکنہ جبر وقہر پہ رحم بھی آنے لگا جو آج بھی یہاں مصر میں اور ہمارے اپنے دیسوں میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔

اہرامات جیزہ


ابوالہول کے پیچھے کنگ خوفو کا عظیم ہرم ہے جو آج سے تقریباً ساڑھے چار ہزار سال قبل تعمیر کیا گیا اور آج تک اقوام عالم پر اپنی عظمت وہیبت کا سکہ جمائے ہوئے ہے۔ اس مقام پر تین بڑے اہرام ہیں؛ ان تینوں میں سب سے بڑا فرعون خوفو کا ہرم ہے، متوسط درجے کا ہرم اس کے بیٹے خَفرَع کا ہے اور اس سے چھوٹا مُنقرَع کا ہے۔ اہرام اور اہرامات کا مفرد ہرم ہے، انگریزی میں اسے (Pyramid) کہتے ہیں یہ مخصوص شکل کی مخروطی عمارت کو کہا جاتا ہے۔ جیزہ کے یہ اہرام قدیم مصری تہذیب کے سب سے پرشکوہ اور لافانی یادگار ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ میں اکثر کی رائے یہی ہے کہ ان اہرام کی تعمیر کا مقصد فراعنہ اور شاہی خاندان کے دیگر افراد کا مدفن اور مقبرہ تھا۔ لیکن یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ ان اہرام میں کوئی لاش نہیں ملی وہ تمام مومیاء جو تحنیط کے بعد اپنی اصلی شکل میں پائی گئیں وہ یہاں نہیں کسی دوسرے مقام سے حاصل ہوئیں۔ ہمارے سامنے خوفو کا یہ عظیم ہرم تھا جسے ہم بس دیکھے جارہے تھے۔ یقین نہیں ہورہا تھا کہ جس ہرم کے سامنے ہم کھڑے ہیں یہ دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک ہے اور ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ عظیم ہرم کے کچھ قریب پہونچا تو دیکھا اونٹ والے مجھ جیسے سیاحوں کی طرف بھاگے چلے آرہے ہیں، گائیڈ بھی پیچھا کر رہے ہیں۔ میں نے ایک اونٹ کے کوہان پر بیٹھ کر تھوڑی دیر چکر لگایا اور کچھ تصاویر لے کر ہرم سے مزید قریب آیا۔ اسکی ہیبت اور شکوہ کو دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ عین اسی جگہ کھڑے ہوکر کتنے سورماؤں نے ان اہرامات کو دیکھا ہوگا۔ اسی ریت پر نامور اور بے نام سب کے قدموں کے نشان بنے اور مٹ گئے ہوں گے۔ سکندر اعظم اور نپولین بوناپارٹ نے بھی یہیں کھڑے ہوکر ان پر نظر ڈالی ہوگی۔ نپولین اپنے جرنیلوں کے ساتھ آیا تھا لیکن ہرم کے اندر جانے کی ہمت نہیں جٹا سکا۔ میں نے تو ہرم کے اوپر چڑھنے کو سوچا لیکن اوپر چڑھنے کی کوئی ترکیب نہیں سوجھی تو خیال آیا کہ ہرم کے اندر ہی جا کر دیکھیں۔
481 فٹ اونچا اور 57.5 لاکھ ٹن وزن کے پتھروں کے اس ہرم میں اندر جانے کا راستہ زمین سے 55 فٹ کی اونچائی پر ہے۔ اتنی عظیم عمارت کا مدخل بالکل سوراخ کے مترادف ہے۔ اندر جانے کا یہ راستہ صرف تین فٹ پانچ انچ چوڑا اور تین فٹ گیارہ انچ اونچا ہے جو سیاحوں کے آنے جانے کے کام آتا ہے۔ راستہ تنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اندھیرا بھی ہے۔ روشنی کے لئے کہیں کہیں بلب لٹکا دئے گئے ہیں۔ اس کے باوجود اس میں کہیں کہیں گھپ اندھیرا موڑ بھی آتا ہے۔ نتیجۃ سبھی لوگ جھک کر گھٹنوں کے بل نیہوڑے نیہوڑے چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ میں نے بھی ہمت کی اور اسی سوراخ نما راہ میں اتر گیا۔ تمام مشکلوں اور پیش آمدہ خطروں سے نپٹتے ہوئے فرعون مصر کے آخری آرامگاہ تک پہونچ ہی گیا۔ یہ کمرہ 34 فٹ لمبا اور 17 فٹ چوڑا ہے۔ وہیں پتھر کا ایک بڑا تابوت رکھا ہوا تھا جس میں مومیاء (Mummy) رکھی جاتی تھی اس پر بیٹھ کر لوگ تصویریں نکالنے لگے اور گائیڈ حضرات اپنا لیکچر مزید روانی سے ادا کرنے لگے۔ اس کمرے کی چھت 19 فٹ اونچی بتائی جاتی ہے وہ بھی پتھر کی بھاری بھرکم سلوں کو جوڑ کر بنائی گئی ہے۔ دیکھ کر نگاہیں حیرت سے پھٹی رہ جاتی ہیں کہ اس زمانے میں جب کوئی ٹیکنالوجی نہیں تھی آخر اس قدر بھاری پتھروں کو اتنی بلندی تک اٹھا کر اتنی نفاست سے کیسے جمایا گیا ہوگا۔
تعجب ہے موت کا اسقدر اہتمام کہ آدمی اپنا ہرم بناتے بناتے مر جائے اور اگر مکمل نہ ہوسکا تو آنے والا پہلے اسے مکمل کرائے اور اگر کچھ مزید فرصت کے لمحات نصیب ہوں تو اہتمام مرگ میں اپنے لئے بھی ایک ہرم بنوائے۔ موت کے اس قدر یقینی ہونے کے اعتقاد کے ساتھ ساتھ خود کو رب اعلی ثابت کرنے کا باطل دعوی بھی! آخر یہ سب کس لئے جب ساری زندگی مر مر کے ہی جینا ہے اور مرنے کے بعد کا انجام سامنے ہے! ہم آگے بڑھتے گئے اور راہداریوں سے گزرتے ہوئے ہمیں ہرم کے اندر چھوٹے بڑے کئی کمرے دکھائی دئے۔ اندر کے کمروں اور گزرگاہوں کی دیواروں پہ ہیروغلیفی زبان میں بے شمار عبارتیں بھی کندہ ہیں اور وہ بھی مختلف رنگوں کی آمیزش کے ساتھ۔ عبارتوں کا زیادہ تر حصہ ننھے منے پرندوں، چھوٹے بڑے جانوروں اور مختلف انسانوں کی تصویروں سے عبارت تھیں۔
فراعنہ اور قدیم مصری قوم نہ صرف سورج کو دیوتا مان کر اسکی پرستش کرتے تھے بلکہ موت کے بعد دوسری زندگی کا بھی اعتقاد رکھتے تھے۔ حیات بعد الممات کے تعلق سے وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ دوسری زندگی جینے کے لئے انہی اشیاء کی ضرورت درپیش ہوگی لہذا وہ اس مقبرے کے ایوانوں اور گیلریوں میں سامان تعیش کی ذخیرہ ندوزی کا بندوبست بھی کر لیتے تھے اور سامان کی فراہمی شایان شان ہوتی تھی۔ یہ سارا تصور روح اور جسم دونوں کے ساتھ تھا اسی لئے انہوں نے اپنے اجسام کو محفوظ رکھنے کے لئے تحنیط کی سائنس دریافت کی۔ فرعون خوفو نے اپنے تمام آرکیٹیکٹ اور انجینیئرس کی مہارتوں سے یہ ہرم بنایا اور اس میں سارا سامان فراہم کیا لیکن اس دور کے چور بھی کسی سے کم دماغ نہ تھے انہوں نے بارہا اہرام کے اندر سے زر جواہرات سمیت دیگر اشیاء غائب کردیں اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس ہرم اعظم کی تعمیر کے لئے زیادہ تر پتھر جنوب مصر میں ساحل نیل پر آباد اسوان کی پہاڑیوں سے کاٹ کر کشتیوں میں لاد کر نیل کے راستے جیزہ لایا جاتا تھا اور اس طرح اس ہرم کی تعمیر میں بیس سال لگ گئے۔ اتنے بڑے بڑے اور بھاری پتھروں کو جنوب سے شمال تک کیسے لایا جاتا تھا؟ اس موضوع پر بہت ریسرچ ہوچکا اور کچھ ہنوز جاری ہے مگر یہ راز اب تک معمہ ہی ہے۔ یہ عقدہ آج تک کوئی نہ حل کر سکا! نہ مصری نہ غیر مصری!
ہرم اکبر کے ساتھ دو مزید اہرام ہیں جو نسبتا کوتاہ قامت ہیں؛ ان میں سے ایک فرعون خوفو کے بیٹے خفرع کا اور دوسرا خفرع کے بیٹے منقرع کا ہے۔ اتفاق سے انہیں ایام میں وہاں کچھ ترمیم واصلاح کا کام چل رہا تھا اس لئے داخلہ بند تھا۔ ویسے بھی ہم ایک ہی ہرم دیکھ کر ایک طرف دم بخود تھے تو دوسری طرف تھکان اور بھوک نے نڈھال کر رکھا تھا، ہمارے جسم ناتواں میں مزید توانائی نہ تھی کہ وہاں کچھ اور دیکھنے کی ہمت جٹا پاتے۔ ویسے ان تین بڑے اہرامات کے علاوہ کئی چھوٹے اہرامات بھی وہاں تھے جو غالبا ان فراعنہ کی بیگمات کے لئے بنوائے گئے تھے۔

ممفیس
جیزہ کے اہرامات اور ابوالہول کی زیارت کے بعد ستائیس کلومیٹر دور فراعنہ کے قدیم دارالحکومت ممفیس کے باقیات اور وہاں سے قریب ہی سقارہ کا ہرمستان دیکھنے کے لئے میں نے ٹیکسی لی اور آدھے گھنٹے میں ممفس پہونچ گیا۔ اپنے عہد زریں میں ممفیس کا امتداد نیل کے مغربی کنارے تک پہونچ چکا تھا۔ سننے میں آیا کہ سکندر اعظم نے مصر پر جب چڑھائی کی تو اس نے ممفیس کی بھی زیارت کی تھی۔ مجھے تو وہاں کوئی خاص چیز نظر نہ آئی۔ چند ٹوٹے ہوئے مجسموں کے تراشوں، کچھ فرعونی دیوتاؤں کے تماثیل اور کھنڈرات کے سوا وہاں کچھ نہیں تھا۔ اس جگہ پر مزید رکنا بے سود تھا اس لیے وہاں سے سیدھے سقارہ کی طرف چل پڑے۔

سقارہ کے اہرامات
کچھ دیر بعد ہم سرسبز وشاداب کھیتیوں والے میدان سے گزر رہے تھے۔ سامنے نخلستان تھا وسیع وعریض کھجوروں کا باغ، اس کے آگے تا حد نگاہ ہرے بھرے کھیت! کھجوروں پہ یاد آیا مصر میں ایک خاص قسم کا کھجور ہوتا ہے جو کہیں اور نہیں پایا جاتا اس کا نام “الزغلول” ہے جس کا رنگ بالکل سرخ اور حجم کافی بڑا ہوتا ہے۔ تھوڑی سی بلندی پر سقارہ کا لق ودق صحرا اور ریت میں پھیلے ہوئے کئی اہرامات جو جیزہ کے اہرامات سے کافی چھوٹے اور پراگندہ تھے نظر آنے لگے۔ وہیں کچھ ویران وثنی عبادت گاہیں بھی نظر آئیں جن کا حال بالکل خستہ اور منظر ناقابل دید تھا۔ جغرافیائی نقطہ نظر سے وہاں کا منظر بالکل عجیب لگا ایک طرف دور تک سرسبز کھیتیاں اور نخلستان کی ہریالی تو وہیں دوسری طرف ریت کے صحراء کی ویرانی ہی ویرانی! سقارہ کی یہی ریت جس نے کتنے ہی اہرامات اپنے گہوراۂ آغوش میں سمو لئے جو آئے دن مصریوں کو کھود کھود کر سطح زمین پر لانا پڑتا ہے، وہاں کے کھیتوں کی طرف بڑھنے سے باز رہی گویا دونوں کے بیچ کوئی دیوار کھڑی کردی گئی ہے اور ایک دوسرے کو اپنی حدوں میں ہی رہنے کی پابندی ہے!
یہاں فرعون زوسر کا ہرم ہے جس کی حالت وہاں کے دوسرے اہرام سے قدرے بہتر ہے اور دیکھ کر لگتا ہے کہ اسکے کچھ حصوں کی ترمیم بھی کی گئی ہے۔ اس ہرم کی بلندی جیزہ والے اہرامات کی طرح نہیں ہے لیکن اندر کا نقشہ کم وبیش ویسا ہی ہے۔ ایوان فرعون، گیلری اور دوسرے حجرے۔ کچھ دیر وہاں گھومتا رہا پھر وہاں سے واپس شہر آگیا۔ ہوٹل پہونچتے پہونچتے تاخیر ہوچکی تھی اس لئے سوچا ڈنر سے فارغ ہو لیا جائے۔ ٹیکسی والا نہایت شریف النفس آدمی تھا میں نے کہا کسی اچھے ریستوران میں لے چلو جہاں اچھا کباب وغیرہ دستیاب ہو۔ اس نے کہا: حاضر یا باشا (ٹھیک ہے جناب)۔ اب مجھے ریستوران کا نام یاد نہیں رہا لیکن وہاں کے لذیذ کھانوں اور ملٹی گرین کی چھوٹی چھوٹی روٹیوں کی لذت اچھی طرح یاد ہے۔ تندور میں پکی ہوئی ملٹی گرین کی تازہ اور ذائقے دار روٹی میں نے پہلی بار جیزہ کے اسی ریستوران میں کھائی۔ ٹیکسی ڈرائیور تکلف سے کام لے رہا تھا لیکن میرے ایک دو بار کی مداخلت نے اسے فری کردیا تھا اور وہ کھل کر دوستانہ ماحول میں بات کرنے لگا۔ ریستوران سے فارغ ہوکر ہوٹل آ گیا اور فریش ہو کر بیٹھا ہی تھا کہ بیرے نے گھنٹی بجا کر طلسم سکوت توڑ ڈالا۔ بیرے نے روم میں ضرورت کی کچھ چیزیں رکھیں اور چلا گیا۔ میں کچھ دیر ٹی وی پر مصری چینلوں کو گھماتا رہا وہاں کچھ دیکھنے کے لائق تھا ہی نہیں اس لئے روم سے نکل کر باہر بالکنی پر چلا گیا۔ بالکنی سے دریائے نیل صاف دکھ رہا تھا۔ رات میں نیل کا پرسکون منظر طلسماتی قوت کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ کچھ دیر یونہی دور سے نیل کی دید کا لطف لیتا رہا اور پھر اندر جا کر بستر پہ سو گیا۔
اگلی صبح قاہرہ کا میوزیم دیکھنے کا پلان تھا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر زرد رنگ کی ٹیکسی لی اور چند ہی منٹوں میں نیل کا پل پار کر کے دوسری طرف تحریر اسکوائر پہونچ گیا جہاں دنیا کا سب سے بڑا عجائب گھر موجود ہے۔
مصری میوزیم (المتحف المصري)


میوزیم میں داخلے کا ٹکٹ غالبا پچاس مصری پاؤنڈ کا تھا میں نے ٹکٹ خریدا اور عہد عتیق کے عجائبات دیکھنے کے لئے تیار ہوگیا۔ مصریوں نے فرعونی دور کے بعض مجسمے میوزیم کے باہر بھی نصب کر رکھے تھے تاکہ لوگوں کا تجسس اور بڑھے۔ میوزیم کے گیٹ پر ہی ہدایت دے دی گئی کہ اندر تصویریں کھینچنا ممنوع ہے۔
مجھے تاریخ سے دلچسپی ضرور ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ انسانی ہاتھوں سے تراشے گئے ان مجسموں اور اس قسم کی تمام چیزوں کو بنظر عقیدت دیکھوں اور اس کی باریکیوں پر دماغ کھپاتا پھروں اس لئے اکثر میوزیم میں مجھے بوریت ہونے لگتی ہے۔ قاہرہ کے اس عظیم الشان میوزیم میں بھی یہی سب تھا بس دوسری جگہوں سے کچھ مختلف تھا اس لئے دلچسپی برقرار رہی۔
میوزیم کے اندر جا کر ہم نے فرعون توت عنخ آمون کا دیو ہیکل تابوت دیکھا۔ اس عہد کے یہ تابوت ماسک کی شکل کے ہوتے تھے جو دراصل دھات یا پتھر سے تیار کئے جاتے تھے اور بعد میں ان پر فرعون کا چہرہ بنا دیا جاتا اور حنوط شدہ ممی (مومیاء) کو اس کے اندر رکھ کر پتھر کی بنی ہوئی قبر میں رکھ دیا جاتا۔ آخر میں اس قبر کو تابوت اور لاش سمیت اہرام میں رکھ دیا جاتا تھا۔
توت عنخ آمون قدیم مصر کے حکمراں خاندان کی اٹھارہویں پیڑھی کا مشہور فرعون ہے۔ اس کا عہد غالبا ساڑھے تیرہ صدی قبل مسیح کا ہے۔ وہ عین عنفوان شباب میں ہی دنیا سے کوچ کر گیا اور اپنی عمر عزیز کی صرف اٹھارہ بہاریں ہی دیکھ سکا۔ اس میوزیم کا سب سے اہم اور مشہور فرعون یہی توت ہے اسکی وجہ یہ نہیں کہ اسکے عہد میں کوئی نمایاں کام ہوا بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ توت عنخ آمون ہی وہ فرعون ہے جسکا مقبرہ اور خزانہ بغیر کسی نقصان کے دریافت ہوا۔ اس مقبرے کا اکتشاف مصر کے جنوبی شہر الاقصر (Luxor) کے وادی الملوک مقابر میں 1922 میں ہوا۔ اس میوزیم میں زیادہ تر آثار اسی مقبرے کی مرہون منت ہیں۔
پتھروں اور دھاتوں سے تیار شدہ بے شمار تابوتوں اور اس میں بند حنوط شدہ ممیوں کو دیکھتے ہوئے جب ہم اوپر کی منزل پر پہونچے تو معلوم ہوا کہ فرعونی خانوادے کے کچھ اہم ملوک کی ممیوں کا مخصوص سیکشن بھی ہے اور ان سوکھے ہوئے انسانی ڈھانچوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے سو مصری پاؤنڈ کا علیحدہ ٹکٹ لینا لازمی ہے۔ اتنی دور کی مسافت طے کرنے کے بعد ایک ایکسٹرا ٹکٹ خریدنے کی وجہ سے کوئی سیاح یہ ممیاں دیکھنا نہیں چھوڑے گا لہذا میں بھی ایک ٹکٹ خرید کر رویال ممیز سیکشن میں چلا گیا۔
فراعنہ کے اس ہال میں تقریبا بارہ فرعونوں کی ممیاں تھیں۔ یہ ممیز صدیوں پرانی انسانی جسموں کی ہڈیوں کے فقط سالم ڈھانچے تھے جن پر کھال چڑھی ہوئی تھی اور ان پر کوئی لینن یا عمدہ قسم کا ٹاٹ لپیٹ دیا گیا تھا، ان چہروں کو رونق بخشنے والا گوشت تو کب کا سوکھ چکا تھا۔ ان ممیوں کو شیشے کے بنے ہوئے مستطیل شو کیس میں رکھا گیا ہے، اندر کی رطوبت اور ٹیمپریچر کو ممی کی حفاظت کے لئے حسب حال رکھنے کی خاطر ایک مشین بھی نصب کی گئی ہے۔
آثار قدیمہ کے کچھ جان کاروں کی رائے ہے کہ رمسیس ثانی اور اس کا بیٹا مرنبتاح ہی وہ فراعنہ ہیں جو نبی موسی علیہ السلام کے زمانے میں تھے، ان کی ممیاں بھی وہاں موجود تھیں۔ وہیں ہال کے پاس ایک مصری بزرگ سے بات کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ ان میں سے فرعون موسی کون تھا تو انھوں نے اسی رمسیس ثانی کی طرف اشارہ کیا تاہم سبھی دعوے کھوٹے ہیں کسی کے پاس کوئی پختہ دلیل نہیں ہے۔ یہ میوزیم بھی ایک جائے عبرت ہی ہے، اب دیکھیئے نا کیسے کیسے سورما اور اپنے وقت کے جابر حکمراں شیشے کے ان صندوقوں میں بے حس وحرکت ولاچار پڑے ہوئے ہیں۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے۔۔۔۔ ہال سے باہر آئے تو کچھ مجسمے اور تصویریں دکھیں لیکن ان میں جاذبیت نہ تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ قدیم ہندوستان کی مصوری اور مجسمہ سازی مصری نمونوں سے زیادہ ترقی یافتہ تھی۔
میوزیم میں قدیم مصر کی لکھاوٹ کے بہت سارے نمونے تھے۔ اس رسم الخط میں تصویریں تھیں یا کچھ لکیریں۔ مصر کے لوگ انہی چھوٹی چھوٹی تصویروں کے ذریعے اپنی بات بیان کر لیتے تھے۔ قدیم مصر کے اس رسم الخط کو ہیروغلیفی خط کہا جاتا ہے۔
میوزیم دیکھ کر سیدھا ہوٹل چلا گیا اور فندق الفراعنہ کو چیک آوٹ کرکے قریب میں ہی ایک دوسرے ہوٹل “فندق نوران” چلا آیا۔ یہ ہوٹل پہلے کی بنسبت زیادہ صاف، سستا اور روڈ سے قریب تھا، اس کی سروس بھی قدرے بہتر تھی۔ ہوٹل کی کارروائی سے فارغ ہوکر روم میں سامان رکھا اور ہاتھ منہ دھو کر ظہرانے کے لئے ریسٹورانٹ کی تلاش میں نکل گیا۔ کچھ دور چلتا رہا لیکن کوئی معقول ہوٹل نظر نہیں آیا تو میں نے سوچا کیوں نہ آج مصریوں کا عوامی کھانا “کشری” کھایا جائے۔ کشری ہماری کھچڑی سے مشابہت کے باوصف بہت مختلف ہے۔ یہ ڈِش عموماً مصری چاول، دال، معکرونی، کابلی چنا اور پیاز و دیگر مصالحہ جات سے تیار کی جاتی ہے اور ہر جگہ سستے داموں میں میسر آجاتی ہے۔ ایک نکڑ پہ چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھ کر ایک پلیٹ کشری کھایا اور شکم سیر ہوکر برج القاھرہ یعنی Cairo Tower دیکھنے کے لئے نکل گیا۔

برج القاھرہ


قاہرہ کا یہ ٹاور دریائے نیل کے وسط میں موجود زمالک کے جزیرے پر واقع ہے جو 1960 میں بن کر تیار ہوا۔ یہ ٹاور سولہ فلور کا ہے اور اس کی اونچائی خوفو کے ہرم اعظم سے بھی زیادہ یعنی 187 میٹر ہے۔ اس ٹاور کی چھت سے قاہرہ شہر کا بہت حسین نظارہ ہوتا ہے۔ وہاں کئی ایک دوربین بھی نصب ہے جس سے قاہرہ کے اہم مقامات بآسانی دکھائی دیتے ہیں۔ اس ٹاور میں ایک ریستوران اور ایک کافیٹیریا بھی ہے جہاں سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ اس ٹاور پہ چڑھ کر قاہرہ کا ایریئل منظر واقعی بڑا دلکش اور دلفریب لگا۔

دریائے نیل


اگلا پڑاؤ دریائے نیل تھا۔ کہتے ہیں نیل دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔ یہ دریا براعظم افریقہ کے دس ملکوں میں بہتا ہے۔ اس دریا کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ جنوب سے شمال کی طرف بہتا ہے جبکہ دنیا بھر کی دوسری ندیاں اور نہریں شمال سے جنوب کی طرف بہتی ہیں۔ اسی وجہ سے مصر والے جنوبی خطے کو بالائی مصر ‪(Upper Egypt)‬ اور شمالی خطے کو زیریں مصر ‪(Lower Egypt)‬ کہتے ہیں۔ نیل کا لفظ یونانی اصطلاح (Neilos) سے ماخوذ ہے جسکا معنی وادی ہے۔ دریائے نیل دراصل دو دریاؤں کا مجموعہ ہے۔ ایک النیل الازرق ہے جسکا منبع ایتھوپیا کا “تانا” جھیل ہے۔ دوسرا النیل الابیض ہے جو روانڈا کے پاس ویکٹوریا لیک سے شروع ہوتا ہے۔ یہ دونوں ندیاں سوڈان کی راجدھانی خرطوم میں مل کر سنگم بن جاتی ہیں اور وہاں سے یہ ایک دریائے نیل کی شکل میں پورے سوڈان سے گزرتا ہوا مصر میں داخل ہوتا ہے اور مصر کو سیراب کرتا ہوا قاہرہ پہونچ کر پھر دو شاخوں میں بٹ کر ڈیلٹا نیل بن جاتا ہے پھر آگے جا کر اسکندریہ کے پاس بحیرۂ روم میں گرتا ہے اور اس طرح یہ دریا بحر متوسط میں ضم ہوجاتا ہے۔
مصریوں نے نیل کے دونوں کناروں پر خوبصورت سڑکیں بنا رکھی ہیں اور نیل کے کنارے عالیشان ہوٹلوں اور ریستوران کی بھرمار ہے۔ کورنیش پر جا بجا قہوہ خانے ہیں جو سیاحوں کو لبھاتے رہتے ہیں۔ وہیں ایک گھاٹ پر کچھ کشتیاں بھی تھیں جو نیل کا سیر کراتی تھیں۔ میں بھی ٹکٹ لے کر کشتی پر سوار ہونے لگا تو دیکھا ایک جگہ پر لکھا ہوا تھا: احذر! السائق صعيدي!! (ہوشیار رہنا! ڈرائیور صعید کا رہنے والا ہے) یہ معمہ میری سمجھ سے باہر تھا، میں پریشان تھا کہ اس کشتی والے کو کیا سوجھی ہے کہ اپنا بیڑا غرق کرنے کے لئے اس قسم کا اشارہ دے رہا ہے۔ آخرکار میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک مصری شخص سے پوچھ ہی لیا کہ یہ سامنے جو لکھا ہوا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ اس نے بتایا میاں ایسی کوئی بات نہیں یہ کسی مسخرے نے لکھ مارا ہے۔ دراصل مصر میں ایک جگہ صعید ہے وہاں کے لوگوں پر آئے دن چٹکلے بنتے رہتے ہیں یہ بھی اسی کا ایک نمونہ ہے! بہر حال کشتی نیل میں تیرنے لگی اور کنارا چھوڑ کر کچھ دور اندر تک گئی جہاں پانی تھا اور نیل کا افسوں! کہنہ صدیوں کی افسوں زدہ خامشی۔۔۔
یہ سفر بیس منٹ کے قریب جاری رہا۔ اس دوران ہم سب نیل کے پانی کا لطف لیتے رہے اور یہ خیال بھی رہ رہ کے آتا رہا کہ یہی وہ نیل ہے جس میں موسی علیہ السلام کو جب وہ شیرخوار تھے، اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا تھا اور وہ اسی فرعون کی آغوش میں آن پہونچے جس کے غیظ وغضب سے بچنے کے لئے ایک بے کس ماں کو یہ انتہائی مشکل اور روح فرسا قدم اٹھانا پڑا تھا۔ یہ اور اسی قسم کے دوسرے خیالوں میں ہم الجھے ہی رہے کہ کشتی ساحل پہ آ لگی۔ شام کا وقت تھا اور نیل سے اٹھنے والی ٹھنڈی ہوائیں شدت پکڑ رہی تھیں، ہم کشتی سے اتر کر باہر آئے اور کچھ دیر وہیں کورنیش پر گھومتے رہے کہ اندھیرا چھانے لگا اور پھر وہاں سے کوچ کرگئے۔

نیل میں کشتیوں پر بنے ہوئے تفریحی اڈے
دریائے نیل کی دوسری جانب سیر کرتا ہوا کچھ دور نکل گیا۔ سامنے شاہراہ سے متصل ہی ایک لکزری کشتی دکھائی دی، قریب جا کر دیکھا تو وہاں مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا تاہم کشتی کی دوسری طرف شام کے دھندلکوں میں نیل کا منظر بڑا دلفریب معلوم ہورہا تھا۔ استقبالیہ پر جا کر استفسار کیا تو پتہ چلا کہ یہاں کشتی پر ایک ریستوران ہے جہاں لوگ نفیس اور عمدہ مصری کھانوں کا داد عیش دیتے ہیں اور یہاں بہم مختلف تفریحی پروگراموں سے دل بہلاتے ہیں۔ کشتی لمبی چوڑی اور کئی منزلوں والی تھی، کچھ دیر کشتی میں اوپر نیچے گھومتا رہا لیکن وقت تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ دھیرے دھیرے لوگوں کی آمد شروع ہوئی جن میں مطرب بھی تھے، فرعونی حسن کی بہاریں بھی تھیں اور اس طرح ہال میں چہل پہل بڑھنے لگی۔ جواں مرگ شاعر مجاز لکھنوی نے اپنی شاعری میں جس شامِ مصر اور رشکِ زنانِ مصر کا ذکر کیا ہے اسکی وجہ آج سمجھ میں آئی! تقریبا گیارہ بجے پوری ہنگامہ آرائی کے ساتھ ڈنر شروع ہوا۔ کیف وانبساط کے اس طرب آگیں ماحول میں لوگ مست ہو کر جھومنے لگے اور جب طبیعت کہتی تو ایک آدھ لقمہ حلق میں بھی اتار لیا کرتے تھے۔ اس محفل میں موسیقی کا شور اسقدر شدید تھا کہ کشتی پر ہیجان طاری ہوگیا۔ اسی اثناء بعض لمحات ایسے بھی آئے کہ کشتی ہچکولے کھانے لگی۔ آج دمِ تحریر اس کیفیت کو سوچ کر ملک زادہ منظور کا شعر یاد آیا:
دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا
مجھے کشتی کے اندر کے تلاطم نے خوف میں مبتلا کردیا آپ کو یقین نہیں آئے گا محفل ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ میں اٹھ گیا اور جانے کے لئے بل کی ادائیگی پر مصر ہوگیا۔ کشتی کا مینیجر آگیا وہ بیچارہ سمجھ رہا تھا شاید میں کسی سے ناخوش ہو کر جارہا ہوں وہ منانے میں لگ گیا اور میں جانے کے لئے بضد رہا۔ مجھ پر سخت نیند کا غلبہ طاری تھا کچھ کھایا کچھ گنوایا اور محفل سے اداس ہو کر سیدھا ہوٹل چلا آیا اور اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔
اگلی صبح میرے پلان کے مطابق اسلامی دور کا شہر فسطاط، پرانا قاہرہ اور وہاں کے تاریخی مقامات کی زیارت تھی اس لئے ناشتے سے فارغ ہوکر جلدی نکلنا تھا لیکن کچھ غیر مرئی وجوہات کی بناء پر تھوڑی سی تاخیر ہو ہی گئی اور ہوٹل سے نکل کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے قلعہ تک پہونچنے میں کافی وقت لگ گیا۔

صلاح الدین ایوبی کا قلعہ


صلاح الدین ایوبی کا قلعہ مقطم پہاڑی کے ایک ٹیلے پر بنایا گیا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے کافی اسٹریٹیجیک اور اہم ہے۔ قلعے کی فصیل سے پورا قاہرہ نظر آ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس قلعے کی تعمیر کا مقصد شہر کی دید کا لطف اٹھانا ہو لیکن پتہ چلا اس کا اہم مقصد تو شہر کی نگہداشت تھا۔ یہ قلعہ یوسف بن ایوب التکریتی نے 1176 میں بنوانا شروع کیا اور 1183 میں مکمل ہوا لیکن کچھ حصہ باقی رہ گیا جو بعد میں سلطان الکامل العادل نے پورا کیا۔ یہ یوسف بن ایوب وہی شخص ہیں جنہیں عرب وعجم سبھی سلطان صلاح الدین الایوبی کے نام سے جانتے ہیں جنہوں نے 1174 میں فاطمیوں کو پسپا کرکے زمام حکومت سنبھالی اور اپنے عہد میں صلیبیوں کے نہ صرف دانت کھٹے کردئے بلکہ مسلمانوں کا قبلہ اولی سمیت پورے فلسطین کو آزاد کرایا۔ ملت اسلامیہ کا یہ مایہ ناز سورما اپنی عمر عزیز کے 55 یا 56 برس گزار کر 1193 میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملا اور دمشق میں مدفون ہوا۔

صلاح الدین ایوبی کا قلعہ
صلاح الدین ایوبی کا قلعہ

اپنے اسٹریٹیجیک محل وقوع کی وجہ سے اس قلعے کا شمار عہد وسطی کے عظیم جنگی قلعوں میں ہوتا ہے۔ اس قلعے کے متعدد دروازے اور کئی ابراج (Towers) ہیں جو وقت کی ضرورت اور اہمیت کے حساب سے بنوائے گئے تھے۔ قلعے کے میدان کے ایک زاویے میں ایک کنواں بھی کھودوایا گیا تھا جس سے فوجیوں اور قلعے کے باسیوں کو پانی فراہم کیا جاتا تھا وہ کنواں بئریوسف کے نام سے مشہور ہے، اس زمانے کے اعتبار سے جبل مقطم میں اس کنویں کا کھودنا ایک حیرت انگیز کام معلوم ہوتا ہے۔ زمانے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اس قلعے نے کئی جنگی حملے برداشت کئے یہانتک کہ محمد علی پاشا کا دور آیا جس نے اس قلعے کو تابندگی بخشی اور اسکی عظمت کو از سر نو بحال کیا۔

جامع محمد علی پاشا

(عربوں کی ثقافت میں بڑی مسجد کو عموماً جامع اور بطور جمع جوامع کہا جاتا ہے) اس مسجد میں دو رکعت نماز پڑھی اور مشاہدہ شروع کردیا۔ اس مسجد کا شمار قاہرہ کی چند اہم اور خوبصورت مسجدوں میں ہوتا ہے۔ اسے 1856 میں محمد علی پاشا نے استنبول کی مسجد جامع سلطان احمد کے طرز پہ بنوایا۔ چونکہ وہ خود ترک تھے اس لئے ترکوں کا فن معماری انہیں زیادہ عزیز تھا۔ باہر سے یہ مسجد خالص ترکی طرز تعمیر کا نمونہ دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت میں ترک مساجد جیسی دلکشی اور حسن اس مسجد میں دور دور تک نہیں۔ اس مسجد کے صحن میں وضو کے لئے ایک فوارہ ہے جس کے اطراف میں کئی ستون بنائے گئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مسجد کے شمال مغربی برآمدے کے اوپر جو گھڑی لگی ہے وہ فرانس کے بادشاہ لوئس فلپ (Luis Philip) نے محمد علی پاشا کو ہدیۃً دی تھی۔ مسجد کشادہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت اور جگہ جگہ سنگ مرمر سے آراستہ ہے۔ مسجد کے اندرونی حصے میں دھیمی روشنی، رنگ برنگے شیشوں کا عکس اور دیوار و محراب کی سادگی کافی اچھی لگی۔ وہیں ایک گوشے میں محمد علی کی قبر ہے۔

قصر الجوھرہ (جوہرہ پیلیس)
مسجد سے متصل ہی قصر الجوھرہ ہے جسے محمد علی پاشا نے 1814 میں بنوایا اور وہیں سکونت اختیار کی۔ یہ محل اندر سے کافی عالیشان اور نقش و نگاری میں اپنی مثال آپ ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ اس محل کی کرسیاں اور میز پیرس سے منگوائے گئے تھے۔ حافظ شیرازی فرماتے ہیں:

عاقبت منزلِ ما وادئِ خاموشان است
حالیا غلغلہ در گنبدِ افلاک انداز

(آخر ہماری منزل خاموشوں کی وادی یعنی قبرستان ہے۔ لہٰذا آسمانوں کے اس گنبد میں جس قدر شور مچا سکتے ہو مچا لو)
عین ممکن ہے محمد علی پاشا نے دلی کے میر حسن کا یہ شعر کہیں سن لیا ہو:
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
اور قدرت نے جو وقت اسے ودیعت کیا تھا اس سے بھر پور لطف اندوز ہونے کا سامان کرنے میں ہمہ تن مصروف ہوگیا ہو!
وہاں قلعے میں اور بھی مسجدیں تھیں لیکن سب کی حالت خستہ تھی۔ الغرض قلعہ اور اسکے ملحقات کی سیر کے بعد جامع عمرو بن العاص کی طرف نکل گیا۔

جامع عمرو بن العاص


صحابی جلیل عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے مصر فتح کرنے کے بعد جب فسطاط شہر کی نیو رکھی تو وہاں ایک مسجد کی بھی ضرورت پیش آئی چنانچہ انہوں نے وقت کی ضرورت کے لحاظ سے 22 ہجری یعنی 642 عیسوی میں یہ مسجد بنائی۔ یہ مسجد اس ناحیے سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ افریقہ کی پہلی مسجد تھی اور اس کی تعمیر اور سپرویزن میں ابوذر غفاری، زبیر بن العوام، مقداد بن اسود، عبادہ بن صامت اور عقبہ بن عامر جیسے جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ اسلامی دور کی سطوت کا یہ شاہکار سامنے تھا اور ہمارے گناہگار قدم اس کے تقدس کو آلودہ کر رہے تھے لیکن صحابہ کے ہاتھوں تعمیر شدہ اللہ کے اس گھر میں دو رکعت نماز پڑھی اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت کی دعا کی تو بے چین دل کو تھوڑا سا قرار آیا اور مسجد کا مشاہدہ شروع کردیا۔ اس مسجد کی ترمیم وتجدید اور اسکی توسیع مسلمانوں کے ہر دور میں ہوتی رہی۔ آج یہ مسجد کافی کشادہ ہے، اسکا ایک بڑا صحن بھی ہے۔ مسجد میں ستون بہت ہیں اور کافی دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ اب اسکا رقبہ بھی پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس مسجد میں امام شافعی رحمہ اللہ بھی درس اور خطبہ دے چکے ہیں۔

معلق گرجا گھر (الكنيسة المعلقة)
یہ ایک قدیم قبطی آرتھوڈوکس کنیسہ ہے جو جامع عمرو بن العاص سے بہت قریب ہے۔ یہ کنیسہ رومن عہد کے بابلیون قلعے کے قدیم برجوں میں سے دو برجوں پر تعمیر کیا گیا اس لئے اسے معلق (hanging) کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کنیسہ اس گھر کے ملبے پر بنا ہے جس میں مریم علیہا السلام ظالم فلسطینی فرمانروا کے قہر سے بھاگ کر اپنے بچے عیسی علیہ السلام اور راہب یوسف النجار کے ساتھ پناہ گزین رہی تھیں۔ وقت کے ساتھ اس کنیسہ میں بھی کافی تبدیلیاں آئیں اور اس وقت وہ عام کلیساؤں کی طرح ایک قبطی کلیسا ہے۔ یہاں سے نکل کر سیدھا جامع الازھر پہونچا۔

جامع الازھر


قاہرہ کی تاسیس کے بعد فاطمی حکمراں المعز لدین اللہ نے اپنے سپہ سالار جوھر الصقلی کے ہاتھوں 972 میں ایک شاندار جامع مسجد بنوائی اور سیدہ فاطمۃ الزھراء کی طرف منسوب کرکے اسکا نام جامع الازھر رکھا۔ اس مسجد کی تعمیر کا اہم مقصد شیعہ مذہبِ فکر کی ترویج تھا۔ اس مسجد میں شروع سے نماز کے علاوہ باقاعدہ دروس کا انتظام تھا تاکہ شیعہ مذہب کا فروغ ہو سکے اور عوام پر فاطمیوں کی گرفت ڈھیلی نہ پڑے۔ عربی زبان وادب کا ایک طالبعلم ہونے کے ناطے جامع الازھر سے ایک فطری سا لگاؤ تھا کیونکہ ہندوستان میں اگر کسی عالم کے نام کے ساتھ ازہری کا لاحقہ لگا ہوتا تو وہ عموما علم کا سمندر ہوتا تھا اور طلبہ کے ذہن میں اس عالم کے وقار کے ساتھ ساتھ جامع ازہر کا مقام اور اسکا احترام ثبت ہوجاتا تھا۔ مسجد کے اندر داخل ہوا دو رکعت نماز پڑھی، ادھر ادھر مسجد کی گیلریوں میں گھومتا رہا۔ آخر میں ایک ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور یہ سوچنے لگا کہ یہی وہ منارۂ علم ہے جس کے نور کی ضیاباریوں سے کبھی ابن خلدون، ابن حجر العسقلاني اور حسن بن الهيثم جیسی عبقری شخصیتیں مستنیر ہوئیں تو کبھی جمال الدين افغانی، محمد عبدہ اور محمد رشید رضا جیسی شخصیتیں کسب فیض کر کے آفتاب وماہتاب بن کر ابھرے اور یہاں کے علمی سوتے کبھی خشک نہ ہوئے، یہی وہ مرکز علمی تھا جہاں طٰہ حسین جیسے ادیب کو علم وآگہی کا شعور آیا لیکن فرانس کی تعلیم نے ان کی فکر میں انحراف پیدا کردیا اور انہوں نے ایک نئی روش اپنالی۔ اسی مرکز علم وفن سے مصطفی لطفی منفلوطی نے بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے منفرد اسلوب میں النظرات والعبرات جیسی ادبی کتابیں تالیف کیں جو ہندوستان کے بیشتر تعلیمی اداروں میں عربی کورسیز کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ قدیم اسلامی ادوار میں مسجدوں کا اپنا ایک مقام اور اثر تھا، اسی لئے فاطمی حکمرانوں نے اسماعیلی شیعیت کی ترویج کے لئے جامع ازھر کی تأسیس کی اور اس میں باقاعدہ تعلیم کا نظم وضبط کیا یہانتک کہ ایوبی دور آیا اور انہوں نے اس جامع میں جمعے کی نماز اور خطبے پر مکمل پابندی عائد کردی اور رفتہ رفتہ اس شیعی مرکز کو سنی مرکز میں تبدیل کردیا۔ یہ سلسلہ ایک صدی تک چلتا رہا پھر مملوک سلطان ظاہر بیبرس نے اس جامع کی اہمیت کو سمجھا اور جمعے کے نماز اور خطبے کی باقاعدہ اجازت دے دی۔ آج یہ جامع الازھر باقاعدہ ایک یونیورسٹی کی شکل اختیار کر گیا ہے جہاں فقہی علوم کے ساتھ دیگر سائنسی علوم و فنون اور انجینئرنگ کی تعلیم بھی ہوتی ہے۔ مسجد کے علاوہ یونیورسٹی کی الگ عمارت ہے، اب الازھر ایک موڈرن انٹرنیشنل یونیورسٹی بن چکا ہے۔

جامع الحسین
جامع الازہر سے متصل سڑک کی دوسری جانب جامع الحسین ہے۔ یہ مسجد بھی فاطمیوں کے ہی دور کی یادگار ہے جو 1154 میں بنائی گئی۔ مسجد کافی خوبصورت اور جدید طرز تعمیر کی اعلی مثال ہے۔ مسجد میں جگہ جگہ شمعدان اور فانوس لٹکے ہوئے ہیں۔ شیعہ کہتے ہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر یہیں دفن ہے جس کے گرد ہمہ وقت زائرین کا ہجوم لگا رہتا ہے۔

مسجد وضریح زینب بنت علی بن ابی طالب
قاہرہ کے ایک مشہور تجارتی علاقے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی زینب بنت علی سے منسوب ایک عالیشان مسجد ہے جو ان کا مدفن بھی ہے۔ اسی طرح دمشق میں بھی مقام سیدہ زینب بنت علی ہے جہاں ایک مسجد اور ان کا مزار ہے۔ شیعوں کو کیا کہا جائے بیچارے دونوں جگہوں کی زیارت کرتے ہیں اور دونوں مقام کو یکساں تقدیس کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی شخص کی دو مختلف ملکوں میں قبریں موجود ہوں؟ تاریخی اعتبار سے شیعوں کی ان تینوں زیارتوں کے اصحاب قبور کا کوئی ثبوت نہیں ہے پھر بھی ہر شیعہ دل سے یقین کرتا ہے کہ یہ انہیں اصحاب کی قبریں ہیں اور وہاں جانے کی تمنا اپنے سینے میں لئے مچلتا رہتا ہے! مسلمانوں کے عقیدے میں ایسی ایسی خرافات بھر گئی ہیں کہ بس اللہ ہی بچائے!!
قاہرہ شہر میں مسجدیں بے شمار ہیں جدھر دیکھو مینارے ہی مینارے، گنبد ہی گنبد! ہر مسجد اپنی شان و شوکت میں ایک دوسرے سے مختلف، اسی لئے قاہرہ شہر کو مدینة الالف مئذنة کے لقب سے سرفراز کیا گیا ہے۔
اسی شہر میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ایک مسجد ہے اور وہی ان کی آخری آرامگاہ بھی ہے۔ شومئ قسمت کہ امام شافعی کی آخری قیام گاہ جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے کچھ گرانقدر سال گزارے اور پھر مسلکی نفرتوں کی بھینٹ چڑھا دئے گئے، نہ دیکھ سکا۔

خان الخلیلي


خان الخلیلی جامع ازھر سے قریب اور مسجد حسین کی بائیں جانب بالکل متصل مصر کا وہ قدیم چھتے دار بازار ہے جس کی رونق سچ مچ قابل دید ہوتی ہے۔ اس بازار میں مصری صنعت وحرفت کے سبھی نمونے بآسانی مل جاتے ہیں۔ جا بجا فرعونی تہذیب کے سوینیئرز، مصری طرز تحریر میں قرآنی آیات والے طغرے، خواتین کی حسن آرائی اور ان کی زیب وآرائش کے زیورات خاص طور پر دکھائی دئے۔ یہ بازار تقریبا چھ سو سال پرانا ہے اور فلسطین کے شہر الخلیل سے فروکش ایک مملوک شہزادہ جرکس الخلیلی نے اس کی نیو رکھی۔ یہاں کی ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں کا گورکھ دھندا کافی دور تک پھیلا ہوا ہے۔ ان گلیوں کو دیکھ کر مجھے پرانی دلی کا صدر بازار یاد آنے لگا جہاں شیطان کی آنت کی مانند بے شمار گلیاں ہیں۔ خان الخلیلی کے تاجروں نے اپنے آباء واجداد سے صرف تجارت کے گُر نہیں سیکھے بلکہ چالبازی بھی سیکھ رکھی ہے۔ وہ بھاؤ تاؤ کے ایسے خوگر ہیں کہ کھرے کھوٹے سب بیچ ڈالتے ہیں اور گاہک کو مطمئن کرنے میں انہیں صبر کی بھی اچھی عادت ہے۔ یہاں کے دوکان داروں نے سیاحوں کو لبھانے کے لئے کیا کیا طریقے اپنا رکھے ہیں بس دیکھتے جائیں اور جیب خالی کرتے جائیں۔ اگر آپ کسی دوکان یا کھوکھے میں چلے گئے تو آپ کو رِجھانے کے لئے وہ بول پڑے گا: “مصر نورت” (آپ کی آمد سے مصر روشن ہوگیا) اب بھلا کون ہوگا جو خالی ہاتھ لوٹ جائے!
خان الخلیلی کے بازار، قہوہ خانے اور ریسٹورانٹ وہاں کی خاص کشش کا سامان ہیں۔ یہی وہ بازار ہے جس کے ایک قہوہ خانے “مقهى الفيشاوي” میں بیٹھ کر نجیب محفوظ نے “خان الخلیلی” جیسی شاہکار ناول کے خیالات یکجا کئے اور یہاں کی دوڑتی ہوئی زندگی کا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا۔ میں نے اس بازار میں صرف ونڈو شاپنگ کی اور خریدا کچھ بھی نہیں تاہم بازار اور وہاں کے سامان تجارت کو دیکھنے کے لیے خوب گھوما۔ آخر میں دن بھر کے تھکے ہوئے جسم وجاں کو تازگی دینے کے لئے میں ایک قہوہ خانے میں بیٹھ گیا۔ پودینے والی چائے کے جرعے کے ساتھ کچھ دیر نرجیلہ یا شیشہ کے کش لیتا رہا اور پھر اس عتیق بازار اور اسکی رونق کو الوداع کہہ کر تحریر اسکوائر چلا گیا۔
تحریر اسکوائر کی دوکانوں میں اچھی رونق رہتی ہے وہاں ہر طرف ہوٹلوں کا جال کو پھیلا ہوا ہے۔ وہیں ایک دوکان سے کچھ شاپنگ کی اور گھومتا پھرتا ہوٹل واپس آگیا۔ اگلے روز دوپہر کے قریب میری روانگی تھی۔ صبح ناشتے کے بعد ہوٹل کا بل ادا کیا اور وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے قاہرہ میٹرو کا تفریحی سفر کیا۔ الدقی میٹرو اسٹیشن گیا وہاں سے اگلے اسٹیشن کا رٹرن ٹکٹ خریدا اور میٹرو میں سوار ہوگیا۔ میٹرو سفر کا یہ پہلا تجربہ تھا، صفائی ستھرائی اور ازدحام کے معاملے میں قاہرہ اپنے ہندوستانی شہروں جیسا ہی ہے تاہم میٹرو کی صاف شفاف اور چمکتی ہوئی ٹرین دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ واپس ہوٹل آیا اور اپنا سامان اٹھا کر ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔
اے مصر کے باسیو اے فراعنہ کی عظمت پارینہ پہ فخر کرنے والو اے نیل سے سیراب ہونے والو اے تہذیبوں کے گہواروں کے رکھوالو اے جامع ازھر کے موتی سمیٹنے اور بکھیرنے والو اے خوش گفتار لہجے کے متوالو الوداع الوداع !

4
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif Shakeel

خدا کی قسم لاجواب
بہت خوب
لفظ لفظ معطر
قلم توڑ دیا ہے ریاض بھائی نے
اللہ جلدازجلد استنبول کا بھی سفر کرادے
آمین ثم آمین یارب العالمین

ریاض الدین مبارک

بہت بہت شکریہ! جزاک اللہ کل الخیر ویحفظک من کل شر!

زاھد

بہت خوب
آپ کے سفر کے ساتھ ساتھ ہم نے بھی اہراموں کا خیالی چکر لگا لیا
لا جواب سفر

عبد الرحمن محمدي محمد

مصر کی سیر فری میں کرادئے ریاض بھائی.
لاجواب تحریر.
اللہ آپ کے قلم میں مزید روانی پیدا فرمائے