قاہرہ کی متنوع تہذیب و ثقافت سے آشنائی کے بعد میرا اگلا سفر یوروپ کی باد پیمائی کا تھا۔ یوروپ ایک براعظم ہے جس میں تقریباً پچاس ممالک آتے ہیں۔ عہد قدیم اور علم جغرافیہ کے کچھ ماہرین کی نظر میں آج بھی یوروپ اور ایشیا کو ایک ہی براعظم سمجھا جاتا ہے، اسی مناسبت سے اسے یوریشیا (Eurasia) کہا جاتا ہے کیونکہ ایشیا اور یوروپ کے مابین ایک لمبے رقبے پر کوئی سمندری حاجز نہیں جو دونوں خطے کو الگ کرتا ہو۔ یہاں تک کہ اٹھارہویں صدی آئی جب یوروپ کو ایشیا سے الگ تصور کیا جانے لگا اور یورال پہاڑی سلسلے کے ساتھ یورال ندی کو حد فاصل بنا کر اس پہاڑی کی مغربی سمت کو یوروپین براعظم کا نام دے کر ایشیا سے الگ کردیا گیا۔ ہم نے عربوں کے بارے میں بہت کچھ پڑھ رکھا ہے کہ ان کا سماجی تانا بانا قبائل اور بدویت سے عبارت ہے اور آج تک دوسری متمدن اقوام انھیں بدّو کہہ کر عار دلاتے رہتے ہیں۔ حالانکہ یوروپین اقوام آج سے صرف آٹھ صدی پیشتر شہری بود و باش سے بالکل تہی دامن تھے۔ ان میں بیشتر بنجارے اور جپسی قبائل تھے۔ دنیا میں مسلمانوں کے عہد زریں تک یہ غاروں اور پہاڑوں میں سکونت کرتے تھے۔
یوروپ کا ویزا حاصل کرنا ہم ایشیائی لوگوں کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ جانے کیوں اس خطے کے لوگوں کو ایک الگ ہی رنگ ڈھنگ سے ہینڈل کیا جاتا ہے گویا ہم سیاح نہ ہو کر صعلوک بنے دریوزہ گری کرتے پھر رہے ہوں۔ ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوصف نہ جانے کیوں ہمیں شک کی نظروں سے دیکھتے دیکھتے شکی مریض دکھائی دینے لگتے ہیں۔ الغرض یوروپ کا ویزا حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا خاص طور پر جب سے شینگن ویزا کا زمانہ آیا۔ شینگن ویزا کم و بیش 26 ملکوں کا ایک ایسا یونیفارم ویزا ہے جو کسی ایک ممبر ملک کے سفارتخانے یا قونصلیٹ سے حاصل کرنے کے بعد تمام شنگن ملکوں میں جانے کا مجاز بنا دیتا ہے۔ مناسب ہوگا کہ شینگن کے بارے میں بھی بتاتا چلوں! جی ہاں تو یہ شینگن (Schengen) دراصل لکزمبرگ کا ایک گاؤں ہے جہاں بیسویں صدی کے نوّے کے دہے میں یوروپ کے کچھ لیڈروں نے تاریخ ساز شینگن ایگریمنٹ پر دستخط کیے تھے۔ لکزمبرگ (Luxembourg) ایک بہت چھوٹا سا یوروپین ملک ہے جو بیلجیئم، فرانس اور جرمنی کے حدود سے گھرا ہوا ہے۔
شینگن ویزا حاصل کرنے کا ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ آپ جس ملک میں پہلے داخل ہونا چاہتے ہیں وہیں کے سفارتخانے یا قونصلیٹ میں ویزے کی درخواست ڈالیں۔ چونکہ میرے اس سفر کا پہلا ڈیسٹنیشن جرمنی کا شہر فرینکفرٹ تھا اس لیے میں نے جرمن قونصلیٹ میں ویزے کے لیے اپلائی کیا۔ اگلے روز جب پاسپورٹ لینے قونصلیٹ پہنچا تو کاؤنٹر پہ میرا پاسپورٹ لوٹاتے ہوئے اسٹاف نے بس اتنا کہا کہ آپ کو ویزا نہیں دیا گیا۔ میں نے پوچھا کوئی خاص وجہ؟ ادھر سے جواب آیا ہم سبب بتانے کے مکلف نہیں ہیں۔ نہیں دیا گیا بس نہیں دیا گیا یہاں وجہ نہیں بتائی جاتی۔ بالآخر ویزے کے تعلق سے جب کوئی سبب نہیں بتایا گیا تو میں نے کہا چلو ویزا نہیں ملا کوئی بات نہیں اچھا ویزے کی فیس جو میں نے ادا کی ہے آپ وہ تو لوٹا دیں؟ ادھر سے جواب آیا: ہمارے یہاں ویزا فیس لوٹانے کا کوئی پروویژن نہیں۔ یہاں پتہ چلا یوروپین کس قدر مادہ پرست قوم ہے مال دیکھ کر رال ٹپکنے لگتی ہے اور یہی مادہ پرستی وہ پوری دنیا پر تھوپنا چاہتے ہیں لیکن اسی حد تک جہاں ان کا مفاد قربان نہ ہو!
قونصلیٹ کا یہ غیر ذمہ دارانہ جواب سن کر میں دنگ رہ گیا! ایک تو ویزا نہیں دیا دوسرے فیس کی رقم بھی ہڑپ گئے، یہ تو سراسر ظلم ہے! میری آواز قدرے تیز ہونے لگی اور میں بضد ہوگیا کہ مجھے قنصل جنرل سے مل کر معاملے کا نپٹارا کرنا ہے لیکن اسٹاف بھی بڑا کائیاں تھا ٹس سے مس نہ ہوا۔ تھوڑی دیر کی تکرار کے بعد اس نے مجھ پر اتنا کرم ضرور کیا کہ مجھے ایک نمبر دے دیا اور بولا اس نمبر پہ رابطہ کرکے بات کرلو جو بھی کرنی ہے۔ میں قونصلیٹ سے باہر نکلا اور اس نمبر کو ڈائل کیا تو دوسری طرف سے کسی جرمن کی آواز آئی۔ میری بات سننے کے بعد اس نے صرف اتنا کہا آپ دوبارہ کاؤنٹر پہ جا کر پاسپورٹ جمع کردیں۔ میں بھاگ کر قونصلیٹ کے اندر گیا اور فٹافٹ پاسپورٹ جمع کردیا۔ اسٹاف پاسپورٹ لے کر اندر گیا اور کوئی دس منٹ بعد باہر آیا۔ کہنے لگا فیس دوبارہ جمع کردو۔ میں نے کہا پہلے والی فیس کو ایڈجسٹ کرلو تو مجھ سے کہا گیا اسے بھول جاؤ۔ مجبور و مقہور نظروں سے اسے دیکھا اور جیب سے پرس نکال کر فیس کی قیمت دوسری بار ادا کردی مگر اس بار کسی ناکردہ گناہ کے جرمانے کی شکل میں جو مجھ پر واجب بھی نہ تھا۔ یوں تو یوروپین اقوام اور وہاں کی حکومتیں بڑی اصول پسند، معقولیت سے بھرپور اور اخلاق کریمانہ سے بہرہ مند سمجھی جاتی ہیں لیکن میرا پہلا تجربہ مختلف رہا۔ پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں۔۔۔ دوسرے دن قونصلیٹ گیا اور پاسپورٹ لیا، الحمد للہ اس پر ویزا لگا ہوا دیکھ کر اطمینان ہوا اور سفر کی تیاری میں مصروف ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ یوروپ میں سرمائی موسم اپنی برودت کو نقطۂ انجماد تک لے جاتا اکتوبر 2000 کے اوائل میں جرمن ایئرلائنر لوفتھانزا (Lufthansa) کی فلائٹ سے میں فرینکفرٹ پہنچ گیا۔
فرینکفرٹ
فرینکفرٹ جرمنی کا ایک خوبصورت شہر ہونے کے ساتھ ایک اہم تجارتی شہر بھی ہے، میٹرو پولیس شہر ہونے کے باوجود پرسکون اور دلکش ہے۔ ماین (Main) ندی اس شہر کے بیچ سے گزرتی ہے اور آب و ہوا کو خوشگوار رکھتی ہے۔ ماین ندی کے دونوں طرف کشادہ سڑکیں، بارونق رہائشی مکان اور عالیشان ہوٹلوں کی قطار ہے۔
جرمنی کا مشہور ادیب و فلاسفر جون اولفگانگ گوئٹے (Johann Wolfgang Goethe) سن 1749 میں اسی شہر میں پیدا ہوا تھا۔ اس طرح فرینکفرٹ کو ناز ہے کہ اس نے جرمنی کو ایک ایسا رائٹر، فلاسفر، مدبر، سیاستدان، شاعر، ناولسٹ اور ڈرامہ نگار عطا کیا جو اپنی ہمہ جہات صلاحیتوں کی بدولت عالمی شہرت کا حامل اور اپنے عہد کے چیدہ ادبی شخصیات کا ہم پلہ رہا۔ ادبیاتِ یورپ کے اراکین اربعہ میں ہومر، ڈانٹے اور شکسپیئر جیسی قدآور شخصیات کے پہلو بہ پہلو گوئٹے کا نام بھی آتا ہے۔ یہ وہ عظیم شخص ہے جس پر جرمنی کیا پورا یوروپ ناز کرتا ہے۔ جرمنی کا یہ مایہ ناز عبقری شخص 1832 میں آسودۂ لحد تو ہوگیا لیکن اپنا بیش بہا ادبی سرمایہ چھوڑ کر گیا جو جرمن ادب کا گوہر نایاب ہونے کے علاوہ اس کا اپنا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ گوئٹے کا نام آ ہی گیا تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ گوئٹے اسلام اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد متاثر تھا، اس نے قرآن کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا اور کئی مقامات پہ اپنی تحریروں میں اس کا اظہار بھی کیا۔ گوئٹے کے ایک شعری مجموعے کا جرمن نام ہے (West–östlicher Divan) یعنی مغرب کا مشرقی دیوان یا پیام مغرب! گوئٹے نے اس دیوان کے نوٹس اور حواشی بھی لکھ رکھے تھے۔ اسی میں ایک نوٹ یہ بھی تھا کہ اس عظیم جرمن دانشور نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی تکریم میں ایک دفعہ لیلۃ القدر کی شب بھر بیداری بھی کی تھی۔ اس دیوان میں گوئٹے نے متعدد ابواب شامل کیے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ہر باب کا عنوان لفظ دیوان کے ساتھ مرکب ہے جو گوئٹے کی شخصیت پر حافظ شیرازی کے اثرات کا بھر پور عکاس ہے۔ اس دیوان کی ایک نظم بعنوان “Mohamet’s Gesang” (یعنی “نغمۂ محمدی”) گوئٹے کی شہرہ آفاق تخلیق ہے۔ اس نظم میں گوئٹے نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہمہ صفات کے لیے ایک ‘جوئے آب‘ کا استعارہ استعمال کیا ہے جو اوجِ فلک سے چٹانوں پہ اترا اور رفتہ رفتہ روئے زمین پر پھیلتا گیا اور جہاں تک پہنچا ہر طرف اس کے فیضان سے بہار آگئی اور سوکھی وادیاں لہلہا اٹھیں۔ شاید یہی نظم تھی جس نے اقبال کو گوئٹے سے بہت قریب کردیا تھا یہاں تک کہ اقبال نے گوئٹے کے دیوان ‘پیام مغرب’ سے متاثر ہوکر “پیام مشرق” لکھی اور گوئٹے کی اس مشہور نظم کا “جوئے آب” کے نام سے فارسی زبان میں خوبصورت آزاد ترجمہ بھی کیا۔ گوئٹے کو اردو دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا شاعر مشرق سر اقبال کے سر ہے۔ ایک مقام پر اقبال نے غالب کا موازنہ کرتے ہوئے عالمی سطح پر صرف گوئٹے کو غالب کا ہمنوا سمجھا اور دلی میں غالب کی آرامگاہ کی ویرانی دیکھ کر بصد افسوس کہا تھا:
آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہمنوا خوابیدہ ہے
ویمر جرمنی کا ایک شہر ہے جہاں گوئٹے کی قبر ایک کشادہ اور خوبصورت گلشن میں ہے۔
گوئٹے کی ذات ہی کچھ ایسی ہمہ گیر ہے کہ ایک بار انسان اس کا ذکر چھیڑ دے تو بات ختم ہی نہ ہو۔
آئیے پلٹتے ہیں رودادِ سفر کی طرف تو عرض احوال یہ ہے کہ میں نے یوروپ میں کہیں کے لیے بھی کسی ہوٹل میں ایڈوانس بکنگ نہیں کی تھی کیونکہ میں ورلڈ یوتھ اسوسی ایشن کا ممبر تھا اور تقریبا پوری دنیا کے تمام بڑے شہروں میں اس اسوسی ایشن کے ہوسٹلز موجود ہیں جو اپنے ممبر کو سستے داموں میں رہائشی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ میرے پاس فرانکفرٹ یوتھ ہوسٹل کا ایڈریس تھا ائیرپورٹ سے ٹیکسی لے کر سیدھا وہیں پہنچا۔ شیئرنگ روم میں ایک بیڈ بک کیا اور ایک لاک-اَپ میں اپنا سامان مقفل کردیا۔ شام کا یہی کوئی آٹھ بجے کا وقت رہا ہوگا جب میں ہوسٹل پہنچا تھا، بھوک بھی لگی ہوئی تھی، ہوسٹل میں ریسیپشن کے پاس ہی چھوٹا سا کافیٹیریا تھا وہاں گیا اور ایک سینڈویچ کا آرڈر دیا۔ کافیٹیریا کے کاؤنٹر پر موجود شخص نے فریج سے ایک سینڈویچ اٹھا کر مایکروویو اووین میں گرم کیا اور ایک نیپکن میں لپیٹ کر بڑی نفاست سے مجھے پیش کردیا۔ اسی وقت اچانک مجھے یاد آیا کہ میں دبئی میں نہیں فرانکفرٹ میں کھڑا ہوں، یہاں پبلک میں دستیاب ہر کھانا حلال نہیں ہوتا، چونکہ آرڈر غیر مشروط تھا اس لیے اب کوئی سوال کرنے میں سبکی محسوس ہو رہی تھی لیکن اپنے حواس درست کیا اور ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ جناب اس سینڈویچ میں کیا ہے؟ بندے نے بے جھجک بتادیا: پورک! میں نے معذرتی انداز میں منع کردیا اور اس نے بڑی نرمی سے جوابا کہا: کوئی بات نہیں اسے میں کھا لیتا ہوں اور میرے سامنے ہی وہ کھانے لگ گیا۔ پلٹ کر اس نے پوچھا اب بتائیں کیا چاہیے؟ میں نے کچھ بسکٹ اور مکسچر لیا کیونکہ میرا موڈ بگڑ گیا تھا اور اعتماد چکنا چور ہو چکا تھا۔ اس سینڈویچ کی قیمت تو اب یاد نہیں لیکن مجھے اس کا افسوس رہا کہ اس کا ہرجانہ اس بیچارے کو کچھ جرمن مارک میں ضرور بھگتنا پڑا ہوگا۔ ان دنوں بالکل نیا نیا یورو لانچ ہوا تھا لیکن جرمن مارک کا چلن زیادہ تھا ویسے جرمن مارک کو ڈویش مارک Deutschmark بھی کہتے ہیں۔ دراصل جرمنی کو جرمن زبان میں Deutschland، فرینچ میں allemagne اور اسی سے متقارب اسپینیش میں Alemania کہتے ہیں۔ اسی اسپینیول لفظ سے ہی عربوں کا المانیا ماخوذ ہے جبکہ برٹش اور امریکن اس ملک کو جرمنی Germany کہتے ہیں پھر انگریزی ڈومیننٹ ملکوں نے انگریزوں کی تقلید میں جرمنی ہی کہا اور یہی نام زبان زد ہوگیا۔
ہوسٹل میں میرے روم میں دو مزید یوتھ تھے ایک ارجنٹین اور دوسرے کا تعلق غالبا میکسیکو سے تھا۔ ارجنٹینا کے بندے سے تھوڑی بہت گفتگو ہوئی وہ کافی ملنسار اور خوش مزاج تھا۔ اس نے ارجینٹین کا نام لے کر میراڈونا کا نام بھی لیا کہ لوگ ارجینٹین کو بھلے نہ جانیں میراڈونا کو تو جانتے ہی ہوں گے۔ وہ بندہ باتیں تو بہت کرنا چاہتا تھا مگر انگریزی بہت معمولی جانتا تھا اس لیے افہام و تفہیم میں مشکل آرہی تھی سو ہم نے زبان کو لگام دیا اور نیند کی پناہ میں چلے گئے۔
ہوسٹل بالکل ماین ندی کے چھور پہ تھا اس لیے اگلی صبح ماین ندی پر کچھ دور تک یونہی گشت لگاتا رہا۔ کچھ ہی فاصلے پر ندی کے ایک پل سے گزر کر دوسری طرف گیا تو ایک بہت اچھا اور خوشنما پارک نظر آیا کچھ دیر وہیں بیٹھا وہاں کے پھولوں کی بھینی خوشبو سے معطر ہوتا رہا۔ پھر وہاں سے اٹھ کر یونہی شہر دیکھنے لگا۔ دن بھر شہر میں گردِ راہ بنا گھومتا رہا یہاں تک کہ شام ہوگئی، احتیاط کی وجہ سے پورا دن کہیں کچھ نہیں کھایا تھا بس ابوالعلاء المعرّی کی طرح کچھ فروٹ پر گزر بسر ہوتا رہا لیکن جرمنی میں ایک رات کا کھانا تو ڈھنگ سے کھانے کی طبیعت ہو رہی تھی اور اسی غرض سے کسی ایشیائی مسلم ریستوران کی تلاش میں نکل گیا۔ معدے کی آگ اور دل کی پیاس بجھانے کے چکر میں ہوسٹل سے کافی دور نکل گیا۔ یکایک دو دوکانوں کے بیچ ایک بہت ہی مختصر سا بورڈ اردو میں دکھائی دیا۔ عمدہ اور لذیذ پاکستانی کھانوں کا مرکز! ٹھیک سے تو یاد نہیں لیکن ایسا ہی کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں ہوٹل کے اندر گیا سامنے دو پاکستانی موجود تھے اور کچھ لوگ میزوں پر کھا بھی رہے تھے جو شکل و شباہت سے جرمن لگ رہے تھے۔ میں نے ایک پاکستانی بندے سے پوچھا کیا یہاں حلال کھانا ملے گا؟ اس نے کہا جی ہاں یہ مسلم ہوٹل ہے یہاں صرف حلال کھانے ملتے ہیں۔ میں نے بریانی طلب کی اور ایک خالی میز کی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ پاس میں بیٹھے ہوئے جرمنوں کی زبان سنتا رہا لیکن غوں غوں کے سوا کچھ نہ سمجھ سکا۔ اس سے پہلے کہ جرمن سمجھنے کی بے وجہ کوشش کرتا بریانی آ چکی تھی جو واقعتا لاجواب اور ذائقے دار تھی۔ خوب مزے سے کھایا اور بل ادا کرکے چہل قدمی کرتا ہوا ہوسٹل واپس آگیا۔
یہاں فرانکفرٹ میں مجھے کوئی خاص چیز نظر نہ آئی اس لیے دوسرے دن میں نے میونخ جانے کا پلان کیا لیکن صبح کی پو پھٹتے ہی جانے کیا ایک موہوم سا خیال آیا کہ میونخ کا پلان رد کردیا اور یکایک یورواسٹار کا ٹکٹ لے کر جرمن شہر بون (Bonn)، کولون (Cologne) اور ڈوسلڈروف (Dusseldorf) کے راستے جرمنی کی سب سے بڑی اور مشہور ندی رائن (Rhine) کی سیر کو نکل گیا۔ یہ سارے شہر اسی ندی کے سواحل پر آباد ہیں۔ رائن ندی جرمنی ہی نہیں یوروپ کی مشہور ندی اور آبی گزرگاہ ہے۔ یہ ندی سوئٹزرلینڈ میں الپس پہاڑی سلسلے کے جنوب مشرقی حصے سے نکلتی ہے پھر فرانس کے راستے جرمنی میں داخل ہوتی ہے اور جرمنی کے بیشتر حصے کو سیراب کرتی ہوئی نیدرلینڈ (ہالینڈ) کے کچھ علاقوں سے گزر کر 1233 کلومیٹر کا طویل راستہ طے کرکے نارتھ سی (North Sea) میں اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ دریائے نیل کی طرح یہ ندی بھی جنوب سے شمال کی طرف بہتی ہے!
رائن ندی کا صاف شفاف بہتا ہوا پانی اور اس کے دونوں جانب سبز و شاداب پہاڑیوں اور وادیوں کے خوبصورت مناظر آنکھوں کو خیرہ کر دیتے ہیں۔ کچھ مقامات اتنے دلکش اور پرفتن تھے کہ دل میں ایک للک سی ہوتی تھی کہ اب بس یہیں قیام کرکے یہیں کے آب و گل میں سما جائیں۔ اس ندی کے کنارے عہد قدیم سے آج تک کافی عمدہ قسم کے انگوروں کی اچھی کاشت کی جاتی ہے۔ اس ندی کے پرکیف اور طرب آگیں ماحول سے لطف لینے کا سب سے اچھا ذریعہ ہے وہاں کی کشتیوں میں بیٹھ کر سیر کرنا لیکن یہ اگر ممکن نہ ہو تو ٹرین کا سفر بھی خوشگوار ہوتا ہے۔ میں نے ٹرین سے ہی سفر کیا اور تجربہ دلچسپ رہا۔ دریائے رائن کے کنارے کی آبادی کا حسن اور وہاں کے دلفریب قدرتی مناظر دیکھ کر میں حیرت و استعجاب کا تمثال بن گیا۔ فرحت و سرور لیے اس ندی کی ساحرانہ لہروں میں ایک ایسی کشش محسوس ہونے لگی گویا ہم دریا کی گرفت میں آگئے ہوں اور دل وہیں قیام کرنے کے لیے سینے سے باہر آنے کو بیتاب ہو رہا ہو۔ دریا کے کنارے اونچے اونچے پہاڑ اور ان پہاڑوں پر سبزہ و مرغزار، ندی کے صاف پانی میں ان سبز پہاڑوں کا عکس، پہاڑوں کی اوٹ میں ملگجے بادلوں کا جماؤ، پھر ان بادلوں کا ایک جگہ سے دوسرے مقام پر دھیرے دھیرے سرکنا یہ سارا سماں اتنا سہانا اور دلنشیں تھا کہ بیان کرنا ممکن ہی نہیں! یوروپ اور خاص کر دیہی جرمن مکانوں میں یکسانیت بہت ہوتی ہے، سرمائی موسم کے ناطے اکثر مکان بند ہوتے ہیں۔ وہاں کے لوگ کھڑکیوں اور چھتوں کو محرابی شکل میں کسی ایک رنگ میں مزین کرتے ہیں جس سے پورا گاؤں اور قصبہ بہت پیارا اور نیارا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاعر مشرق سر اقبال نے اسی ندی کے آبشاروں اور کہساروں کے دلفریب مقامات کی آغوش میں بیٹھ کر بانگ درا کی ان نظموں کو تشکیل دیا تھا جو مناظر فطرت کی تصویر گری کا پرتو ہیں۔
میں فطرت کے انہی مناظر میں کھویا ہی رہا کہ جرمنی پیچھے رہ گیا اور ٹرین نیدرلینڈز کی سرحد میں داخل ہوگئی۔ 364 کلومیٹر کا فاصلہ تقریبا پانچ گھنٹے میں طے ہوا اور ایمسٹرڈیم آگیا لیکن دوران سفر کسی قسم کی تھکان محسوس نہیں ہوئی۔
ایمسٹرڈیم
ایمسٹرڈیم نیدرلینڈز کا دار الحکومت ہے۔ نیدرلینڈز نارتھ سی کا ساحلی علاقہ ہے۔ اسی ملک کو ہالینڈ بھی کہتے ہیں حالانکہ ہالینڈ کا اطلاق اصلا نارتھ ہالینڈ اور ساؤتھ ہالینڈ کے صرف دو صوبوں پر ہوتا ہے۔ اس ملک کا آفیشیل نام (Kingdom of Netherlands) مملکت نیدرلینڈز ہے۔ یہاں کا سیاسی نظام دستوری بادشاہت ہے جہاں ایک عدد بادشاہ رمزی طور پر براجمان رہتا ہے لیکن اس بیچارے کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ سبھی فیصلے وہاں کے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں۔ اس ملک کی بڑی آبادی ڈچ قبائل سے تعلق رکھتی ہے اسی لیے وہاں کے لوگ ڈچ کہلاتے ہیں اور وہاں کی سرکاری زبان کا نام بھی ڈچ ہے۔ اس ملک کا زیادہ تر حصہ سمندر کی سطح سے نیچے ہے اس لیے سیلابی خطرہ زیادہ رہتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے وہاں کے لوگوں نے جھیلوں اور نہروں کا جال بچھا رکھا ہے۔ ایک کہاوت مشہور ہے:
(God created the earth, but the Dutch created the Netherlandsزمین تو اللہ نے بنائی لیکن نیدرلینڈز ڈچ لوگوں نے بنائی ہے)
ایمسٹرڈیم کی کل آبادی تقریبا سات لاکھ ہوگی۔ برطانوی، ہسپانوی اور فرانسیسی طاقتوں کی طرح انھوں نے بھی اپنا استعماری جال پھیلانا شروع کیا چنانچہ افریقہ اور ایشیا تک اپنا پرچم لہرایا۔ ساؤتھ افریقہ ایک لمبی مدت تک ان کے زیر نگیں رہا یہاں تک کہ انگریزوں نے انھیں زیر کرکے اپنے زیر نگیں کرلیا۔ دوسری طرف انڈونیشیا ایک لمبے عرصے تک نیدرلینڈز کے قبضے میں رہا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945 میں آزاد ہوا۔
بہر کیف رات آٹھ بجے کے قریب ایمسٹرڈیم سینٹرل اسٹیشن پہنچا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ دن اتوار کا تھا اسی روز شہر میں میراتھن کا آیوجن تھا، اس کے علاوہ کچھ اور بھی ایونٹس اسی روز طے تھے جس کی وجہ سے شہر کے تمام ہوٹل اور ہوسٹل پیک ہوگئے تھے۔ میں ایمسٹرڈیم کے یوتھ ہوسٹل میں ایک بیڈ کے لیے زور لگا رہا تھا، فرینکفرٹ سے فون بھی کرایا لیکن گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے کوئی جگاڑ نہیں بن پایا، رات گزارنے کا کوئی بندوبست نہیں ہو رہا تھا، ایکونومیکل ہوٹل سبھی فل تھے البتہ کچھ بڑے ہوٹلوں میں ایک آدھ روم خالی تھا لیکن بہت مہنگا اور میری بساط سے باہر تھا۔
میں نے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارا، ہوٹل کی تلاش میں کافی دور نکل گیا مگر مسئلہ حل نہیں ہوا۔ جو بھی راہ گیر سامنے آ جاتا اسی سے پوچھ بیٹھتا کہ بھائی میں اس شہر میں اجنبی ہوں بدقسمتی سے کسی ہوٹل میں ایڈوانس بکنگ نہ کرسکا اور اب دیوانوں کی طرح گھوم رہا ہوں اگر یہاں آس پاس کوئی ہوٹل ہے تو ذرا رہنمائی کردو۔ کوشش بہت کی لیکن کسی ہوٹل میں کوئی ٹھکانہ نہ ملا۔ کافی دیر یونہی گردِ راہ بن کر بھٹکتا رہا کبھی تھک کر بیٹھ جاتا تو کبھی اٹھ کر چلنے لگتا غرض:
رہِ حیات کٹی اس طرح کہ اٹھ اٹھ کر
میں بیٹھ بیٹھ گیا گردِ کارواں کی طرح
میں نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ ایمسٹرڈیم کی راتیں بڑی بھیانک ہوتی ہیں۔ شام ہوتے ہی چاروں طرف اندھیروں کے مہیب سائے منڈلانے لگتے ہیں اور وہاں کی سڑکوں اور پارکوں میں ہر طرف خوفناک سناٹا سا چھا جاتا ہے، بازار حسن کا فتنہ اپنی جگہ، یہاں وہاں کچھ نشیڑھیوں کے غول بھی نظر آتے ہیں کیونکہ ایمسٹرڈیم میں نشے کا استعمال ممنوع نہیں کہ ان کی نظر میں وہ حریت ذات کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے وہاں کے قہوہ خانے ایک محدود مقدار میں نشہ آور مصنوعات بیچنے اور اپنے کسٹمرز کو سَروْ کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ ٹھیک یہی منظر اس وقت میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ راہ میں کئی صاحب اسرار نظر آئے جو کبھی نیم ہوش غنودگی میں ڈگمگاتے تو کبھی دھت مستی میں کچھ گنگناتے گزر جاتے!
ظاہر ہے جس شہر میں حریت ذات کے نام پر نشہ کرنے کی قانونی اجازت ہو وہاں کیا کیا مراعات نہ حاصل ہوں گی بس تصور کیجیے اور حقیقی دنیا سے ورچول دنیا کا سفر کیجیے وہاں کی دنیا بخوبی سمجھ جائیں گے، یوروپ نے علم و ٹیکنالوجی میں بے شک ترقی کے منازل طے کیے ہیں اور اس پر ناز کرنے کا انھیں حق بھی ہے لیکن حیا اور شرافت ان سے چھن گئی ہے۔ وہ اپنے ہوس کی آگ کھلے عام جانوروں کی طرح بجھاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اسی کو ماڈرن تہذیب کہتے ہیں اور ایمسٹرڈیم اس تہذیب کا شہوار ہے۔ اپنے یہاں تمام شہروں کے ہوٹلوں میں کسی بھی وقت اندر جا کر استفسار کرسکتے ہیں لیکن ایمسٹرڈیم میں رات کے وقت تو ہوٹل والے پوچھ تاچھ کے لیے اندر جھانکنے بھی نہیں دیتے باہر ٹاک سسٹم پہ دو لفظ بول کر ٹرخا دیتے ہیں۔ میں غریب الدیار ایمسٹرڈیم کی چمکتی سڑکوں پر رات دس گیارہ بجے آوارہ پھرتا رہا۔ اسرار الحق مجاز کی آوارہ نظم کا مجسم بن چکا تھا اور زبان حال سے انہی نغمات کا زمزمہ جاری تھا:
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارا پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارا پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
ہر طرف بکھری ہوئی رنگینیاں رعنائیاں
ہر قدم پر عشرتیں لیتی ہوئی انگڑائیاں
بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
یہ رات کیسے بسر ہوگی؟ بسر بھی ہوگی یا طلوعِ سحر تک آنکھوں میں ہی کاٹنی پڑے گی، کچھ ایسے ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ دور چہل قدمی کرتے ہوئے دو سکھ گرو سیوک نظر آئے۔ قریب جا کر ان سے ملا، وہ دونوں حضرات بڑے منکسر المزاج اور ڈاؤن ٹو ارتھ تھے۔ میرا دکھڑا سن کر موم ہوگئے۔ پہلے تو انھوں نے قریب کے کچھ ہوٹلوں کی طرف رہنمائی کی لیکن جب میں نے ان سے بتایا کہ پچھلے دو گھنٹوں سے میں نے ان تمام ہوٹلوں پہ دستک دی اور ہر جگہ سے نو روم کا ہی جواب ملا تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔ کچھ دیر توقف کے بعد انھوں نے مجھ سے پوچھا: اچھا بتاؤ تم گرودوارہ میں رہ سکتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں بالکل رہ سکتا ہوں (آخر اندھے کو کیا چاہیے؟ دو آنکھیں) گرودوارے کی روایت کے تحت وہاں قیام کے لیے انھوں نے نو اسموکنگ اور شاکاہاری کھانے کی شرط لگادی جو مجھے ہر حال میں منظور تھی۔ وہ مجھے اپنے ہمراہ ایک سنسان گلی میں لے گئے جہاں ایک بڑے مکان کو گرودوارہ میں بدل دیا گیا تھا۔ باہر سے وہ ایک عام سی بلڈنگ تھی لیکن اندر سے مکمل گرودوارہ ہی تھا۔ ہال میں کچھ سکھ عبادت میں مصروف تھے تو دوسرے گپیں لگا رہے تھے۔ وہاں موجود کچھ لڑکوں کو مجھے کھانا (لنگر) کھلانے اور میرے سونے کا انتظام کرنے کے لیے ہدایات دے کر وہ چلے گئے۔ میں نے وہاں رکنے کی ہامی تو بھر لی تھی لیکن ایک غیر مانوس جگہ اور نا آشنا لوگوں کے جھرمٹ میں کچھ وحشت ہو رہی تھی، اب دل میں طرح طرح کے وسوسے بھی جنم لینے لگے، بہر حال حالات کا سامنا کرنے کے لیے دل پہ جبر کیا اور ڈائننگ ہال کی طرف چل پڑا۔ کسی گرودوارے میں لنگر کھانے کا یہ پہلا حادثہ تھا اس لیے دل مضطرب سا تھا۔ وہاں دسترخوان پہ کم از کم بیس لوگ موجود تھے جو کھانے کے منتظر تھے۔ کھانے میں روٹی، دال اور سبزی پہ مشتمل بہت ہی سادہ کھانا تھا۔ گرودواروں میں ایسے اجتماعی کھانے کو لنگر کہتے ہیں اور لوگ بڑی نیاز مندی سے کھاتے ہیں۔ لنگر سے فارغ ہو کر مجھے ایک چھوٹے سے روم میں لے جایا گیا جو دیکھنے میں اسٹور روم لگ رہا تھا۔ وہاں کا ماجرا کچھ اور ہی تھا۔ وہاں پہلے سے موجود لڑکوں کے علاوہ چند اور بھی آگئے اور میرے گرد ہالہ بنا کر سب بیٹھ گئے گویا میں انہی کی مانند ایک مانَو نہیں دانَو تھا۔ وہ مجھے حیرت سے تکتے اور سوال پر سوال کرتے رہے۔ میں تھا کہ جواب دیتے دیتے تھک گیا۔ کیسے آیا کس راستے سے آیا کتنے کا ویزا طے کیا؟ کیا کیا پریشانی جھیلی؟ اسی قسم کے سوالات سے سر بوجھل ہورہا تھا اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ ایک منڈا آگے بڑھ کر بولا: اچھا چل تو اپنا پاسپورٹ دکھا ہم سمجھ جائیں گےتو کیسے آیا ہے؟ چونکہ وہ میری باتوں کا یقین نہیں کر رہے تھے اس لیے انھوں نے ویزا دیکھنے کے لیے پاسپورٹ مانگا تھا۔ ویزا دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ وہاں کوئی نوجوان ریگولر ویزا حاصل کر کے نہیں پہنچا تھا وہ ایجنٹوں کے رحم وکرم پر نہ جانے کہاں کہاں دھکے کھا کر یوروپ پہنچے تھے، ان میں اکثر کی کہانی درد بھری تھی۔ یہی وہ لوگ تھے جن کے بارے میں انسانی تجارت یا Human trafficking کی اصطلاح مستعمل ہوتی ہے۔ خیر مجلس برخاست ہوئی اور سب اپنے اپنے بستروں پر سونے چلے گئے۔ صبح اٹھتے ہی میں نے ان کی ضیافت کا شکر ادا کیا اور وہاں سے کوچ کی اجازت طلب کی تو وہ سب مبہوت ہوگئے کہ یہ تو چنگا بھلا یہاں آ گیا ہے اب جا کیوں رہا ہے۔ بہر حال میں نے انھیں سمجھایا تو وہ مان گئے اور میں نے انھیں الوداع کہہ دیا۔ انسان بھی کس قدر رقیق القلب ہے چند گھنٹوں کی ملاقات کے بعد کی جدائی بھی اس کی آنکھوں کو نم کر دیتی ہے۔
گرودوارے کی گلی سے نکل کر ایک نکڑ پہ آیا تو وہاں کا منظر دیکھ کر ایسا لگا جیسے میں ہالینڈ میں نہیں بلکہ بھارت کے کسی شہر میں ہوں۔ وہاں فٹ پاتھ پہ درجنوں ریڑھی بانوں نے چھوٹا چھوٹا اسٹال لگا رکھا تھا۔ فروٹ، سبزیاں، غلے، مچھلی، کپڑے اور دیگر گھریلو سامان سستے داموں میں بک رہے تھے۔ تھوڑی دیر کھڑا ہو کر یہی دیکھتا رہا کہ ڈچ عوام میں بھی غربت ہے جبھی تو یہ میونسپلٹی کی مخالفت کرتے ہوئے ریڑھیاں لگاتے ہیں اور انھیں ہر وقت میونسپلٹی کی آمد کا کھٹکا لگا رہتا ہے اس لیے وہ ہرن کی طرح چونکے ہوئے دکھ رہے تھے! ترقی یافتہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس ملک کا ہر فرد بشر آسودہ حال اور تونگر ہے۔
وہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ٹرام اسٹاپ تھا۔ واضح رہے ٹرام ایمسٹرڈیم میں ٹرانسپورٹ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اکثر سڑکوں پر ٹرام وے (TramWay) بنا ہوا ہے جہاں ٹرام ریل دوڑتی رہتی ہے۔ اسی دوران ایک ٹرام آئی اور میں اس پر سوار ہو کر شہر کی سیر کے لیے چل پڑا۔ شہر کا نظارہ کرتے ہوئے لگا کہ سچ مچ یہاں زندگی پنپتی ہے، یہ شہر زندہ دلوں کا ہے، کافی چہل پہل ہے اور ڈچ لوگوں کا یہ مقولہ غلط نہیں کہ امیسٹرڈیم کی تخلیق ہماری پیہم رواں ہر دم جواں زندگی کا اعلی ثبوت ہے۔ وہاں کے محنت کشوں نے سمندر کا سینہ چاک کرکے اس کی طوفانی لہروں پر باندھ بنا کر یہ خوبصورت شہر بسایا ہے۔ ویسے تو ایمسٹرڈیم جو متعدد نہروں سے گھرا ہوا ہے وہاں کی نہریں، نہروں پر بنے بے شمار پُل اور صاف ستھری خوبصورت عمارتیں دعوت نظارہ تو دیتی ہی ہیں اس کے علاوہ وہاں کے وینڈملز (windmills) یعنی پن چکیاں، مختلف میوزیم اور ٹولیپ جیسے بے شمار خوشنما اور مہکتے پھولوں کے باغات کچھ کم جاذبِ نظر نہیں ! ایمسٹرڈیم کی ایک اور چیز جو ایشیائی سیاحوں کی خاص توجہ کا مرکز ہے وہ ہے سائیکلنگ!
سائیکلنگ ایمسٹرڈیم کی ایک خاص پہچان ہے، یہاں کی اکثر سڑکوں پر سائیکل ٹریک بنا ہوا ہے۔ یہاں سائیکل سوار اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ مخصوص ٹریک پر چلے اور دوسری گاڑی والے اس ٹریک پر ہرگز نہ آئیں۔ بصورت دیگر سخت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور اچھا خاصا جرمانہ بھی دینا پڑتا ہے۔ سائیکلنگ وہاں کی عوام کی پسندیدہ سواری ہے اور حفظانِ صحت کے لیے بھی کارآمد ہے تبھی تو وہاں کا پرائم منسٹر بھی بسا اوقات سائیکل پر آفس آتا جاتا ہے۔
اس صاف ستھرے اور بارونق شہر کی حتی الامکان سیر کے بعد ایک ڈائمنڈ میوزیم میں گیا جہاں ڈائمنڈ بزنس میں ہالینڈ کے تاجروں کی دلچسپی اور ڈائمنڈ کی تراش خراش میں ڈچ لوگوں کی فنکاری کے نمونے اور مختلف زیورات کی نمائش دیکھی۔ ایمسٹرڈیم ہیروں کی تجارت میں بھی مشہور ہے اسی لیے یہاں ہیروں کے بڑے بڑے تجارتی مراکز قائم ہیں۔ ہیرے کی تراش خراش میں ڈچ لوگ بڑی مہارت رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے عالمی مارکیٹ میں ایمسٹرڈیم کٹ ہیروں کی ڈیمانڈ بہت ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کوہ نور ہیرے کی تراش خراش بھی یہیں ہوئی تھی۔
نیدرلینڈز کا میدانی علاقہ دیکھنے کی بڑی خواہش تھی لیکن کچھ لغو وجوہات کی بنا پر نہ دیکھ سکا اور یہ حسرت دل میں لیے شام کا دھندلکا چھانے سے پہلے پہلے میں ایمسٹرڈیم سینٹرل اسٹیشن پہنچ گیا۔ یہ ریلوے اسٹیشن بہت بڑا اور کافی ماڈرن ہے۔ ٹرینوں کی آمد ورفت کے لیے کئی ٹَنَل بنے ہوئے ہیں۔ پورا اسٹیشن جدید ٹیکنالوجی اور ہر طرح کے ایکوپمنٹ سے لیس ہے۔ وہاں ایک ایکسپریس ٹرین پر سوار ہوکر برسیلز کے لیے روانہ ہوگیا۔ رات کا وقت تھا اس لیے دوران سفر کی حکایت دھری کی دھری رہ گئی۔ تقریبا دو گھنٹے بعد بلجیئم کا خوبصورت شہر برسیلز آ گیا۔
(جاری)
اس طرح کے علمی سفرنامے تنقیدی بصیرت،وسیع علم اور تیز مشاہدے کے بعد ہی لکھے جاسکتے ہیں۔یہ صنف ادب ہماری جماعت میں معیاری تحریروں سے خالی ہے۔ریاض الدین مبارک اپنے گہرے علم اور منفرد اسلوب کے ذریعے اس خلا کو پر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔موصوف سے درخواست ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنے ملک عزیز کی قیادت کو بھی آئینہ دکھاتے رہیں تاکہ یہاں بھی تہذیب وثقافت کی وہ اعلیٰ قدریں پروان چڑھ سکیں جن سے یہ ممالک فیض یاب ہورہے ہیں۔
بہت بہت شکریہ مولانا! آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی میرے لئے بڑا انعام ہے! اللہ تعالی آپ کو اس کا اجر عظیم دے!
بہترین سفر نامہ ریاض بھائی۔ بچپن کے بعد اب سفرنامے پڑھنے مل رہے ہیں۔ اور آپ لکھ رہے ہیں تو انداز بھی نرالا ہے اور صداقت کا یقین بھی۔ سفر نامہ پڑھنے میں مزہ تبھی ہے جب پڑھنے والا خود کو سفر میں محسوس کرے۔ لفظوں کی مدد سے خیالی کینوس میں رنگ بھرتے جائے اور لطف لیتے رہے۔
ایک جزوی فائدہ یہ بھی ہورہا ہے کہ دیار غیر میں کسقدر پراعتماد رہنے کی ضرورت ہے یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ونڈر فل۔ جیو ریاض بھائی۔