وصیت نامہ
مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ
وصی الالہ و وصت رسلہ فلذا
کان التاسی بھم من أفضل الأعمال
’’خدا تعالیٰ نے وصیت کی اور اس کے رسولوں نے بھی کی،اس امر میں ان کی پیروی افضل اعمال سے ہے‘‘۔
قال رسول اللہ ﷺ :ما حق امرء مسلم لہ شیء یوصی فیہ یبیت لیلتین الا ووصیتہ مکتوبۃ عندہ۔متفق علیہ (مشکوۃ، ص۲۵۷)
’’آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے،جو صحیح بخاری وصحیح مسلم میں مروی ہے کہ کسی مسلمان کا جس کے پاس وصیت کے لائق مال ہو،یہ حق (کام) نہیں کہ دو شب بسر کرے بجز اس حالت کے کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی اس کے پاس ہو‘‘۔
اس وصیت نبوی کے مطابق یہ خاکسار ہمیشہ اپنی وصیت کو کاغذات اور بیاضوں میں لکھ رکھتا ہے مگر اب خیال آیا ہے کہ حیات مستعار کا کوئی اعتبار نہیں اور متفرق کاغذ اور بیاض اکثر متعلقین کی نظر سے نہیں گزرتے، لہذا مناسب سمجھا کہ میں اپنی وصیت کو اپنے رسالے میں مشتہر کروں جو عام اہل اسلام کے ملاحظہ سے گزرتا ہے اور اس کی تعمیل پر ہر ایک مسلمان باغیرت اور دین دارمیرے وارثوں کو مجبور کرسکتا ہے۔اگر کوئی وارث اس سے انحراف کرے تو اس تعمیل کے واسطے گورنمنٹ کا حکم ایک قوی وموثر موجود ہے۔
میرے انتقال کے بعد اگر کچھ جائداد منقولہ میرے ترکہ میں رہے تو وہ بعد ادائے دَیْن (جو میرے ذمہ ہو اور وہ میرے کاغذات ورجسٹروں میں موجود ہو یا میرے قرض خواہوں کی دستاویزات، بہی کھاتہ یا میری دستخطی رقعات میں پایا جائے) مطابق حکم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ بطور وراثت تقسیم کیا جائے۔ (اس وقت جو میرے ذمہ قرض ہے وہ میری جائداد منقولہ سے کم ہے) اور جو جائداد غیر منقولہ اس وقت میرے قبض وتصرف میں ہے ،وہ بطور وراثت تقسیم نہ ہو بلکہ وہ میری اولاد اور (ان) متعلقین پر جن کا نفقہ میرے ذمہ واجب ہے،وقف ہو۔(اس وقف کو کتب فقہ میں وقف علی الاولاد والاقارب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے)۔اس میں نہ کسی وارث کو بیع کا اختیار ہو،نہ رہن کا، نہ ہبہ کا بلکہ سکونتی مکانات میں صرف ان کو سکونت کا اختیار رہے اور اراضی کی آمدنی سے بقدر گذارہ خرچ لینے کا استحقاق رہے۔ (خرچ کی تفصیل وتشریح میں اپنی اور اپنی اولاد کے موجود حالات اور طرز گذران کے اندازہ اور نظر سے ایک مفصل تحریر کروں گا، مثلاً لڑکوں کو سالانہ خرچ وخوراک وپوشاک اس قدر ملے، اور لڑکیوں کو اس قدر،اور دونوں بیویوں کو اس قدر، اور خرچ بیاہ شادی اولاد اس قدر، اولاد لائق تعلیم کا خرچ تعلیم اس قدر، وعلی ہذا القیاس اور سرکار میں اس کی رجسٹری کرادوں گا) اور جو ان کے اخراجات سے بچ رہے، وہ کسی مدرسہ اسلامیہ میں صرف تعلیم دین کے لیے دیا جائے (اور اگر خدانخواستہ باشدمیرے وارثوں سے کوئی نہ رہے تو میری جائداد کی کل آمدنی وقف تعلیم دینی ہو)۔
سکونتی مکان میری اپنی خداداد زر سے خریدے ہوئے (نہ وراثت جدی سے پہنچے ہوئے) تین ہیں: ایک حویلی قدیم، دوسرا دیوان خانہ، تیسرا مکان منہدم جس کا صرف ملبہ (خشت وچوب) وافتادہ زمین باقی ہے۔
حویلی اور دیوان خانہ میرے دونوں عیال کی سکونت کے لیے وقف ہو۔ دیوان خانہ میں والدہ حافظ عبدالشکور و ابواسحاق و عبدالباسط وغیرہم (معہ اپنی اولاد) سکونت کرے۔ حویلی قدیم میں والدہ عبدالسلام و عبدالرشید و محمد اطہر و احمد حسین وعبدالنور وغیرہم (اپنی اولاد کے ساتھ) رہے۔ منہدم مکان کو میری زندگی ہی میں اس کا ملبہ خشت وچوب کو اپنے تصرف میں لاکر میری بیٹی امۃ السلام جو صاحب اولاد ہے، (اور وہ اس مکان کی درخواست کرتی ہے) اپنے خرچ سے تعمیر کرلے۔یہ مکان اس کے واسطے اور اس کی اولاد کے لیے وقف رہے۔میرے کسی وارث کا حق نہ ہوگا کہ وہ اس مکان سے اس کو بے دخل کرے یا سکونت میں اس کی مزاحمت یا مشارکت چاہے، ہاں وہ اپنی رضامندی سے جس کو چاہے ساتھ رکھے۔
اراضی جو خدا تعالیٰ نے گورنمنٹ سے مجھے دلوائی ہے، چار مربع ہے۔ازان جملہ دو مربعوں کی کاشت زمین وانتظام کا اختیار حافظ عبدالشکور اور اس کے بھائیوں کے سپرد رہے اور دو مربعوں کی کاشت وغیرہ انتظام کا اختیار عبدالرشید اور اس کے بھائیوں کے سپرد رہے۔ اس انتظام میں کوئی ایک فریق دوسرے فریق کی مزاحمت نہ کرے ہاں بہ تراضی طرفین جو چاہے دوسرے کا شریک رہے (آمد وخرچ چاروں مربعوں کا کھاتہ ایک جگہ رہے اور فریقین کے اشخاص کو اپنے ہم جنس سے مساوی طور پر گذارہ لینے کا حق رہے)
اس دخل واختیار واستحقاق گزارہ کے لیے ایک لازمی شرط یہ ہے کہ میری نرینہ اولاد نماز وروزہ وغیرہ احکام دین کی پابند اور دین کے خادم رہیں اور علم دین کم سے کم قرآن وحدیث پڑھیں پڑھائیں اور سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت اختیار نہ کریں جس میں پڑھنا پڑھانا ان سے چھوٹ جائے، ہاں جو شخص شغل تعلیم کے ساتھ ملازمت بھی کرے اور وہ اپنی تنخواہ کو آمدنی زمین میں شامل کردے تو وہ دوسروں کے ساتھ مساوی حق رکھے گا ۔جو شخص اس شرط کا خلاف کرے گا، اس کا کوئی استحقاق نہ ہوگا کہ وہ اس انتظام میں دخل دے یا اس سے گزارہ لے۔ (اس امر کی تحقیق وتصفیہ کے لیے کہ انھوں نے شرط کو پورا کیا ہے یانہیں، ایک جماعت ناظر وقف مقرر ہوگی۔ وہی جماعت قدر فاضل کو تعلیم دینے میں صرف کرنے کا استحقاق رکھے گی ۔)
میری اس وصیت میں میرے کسی وارث کو کوئی شرعی یا قانونی عذر ہو تو وہ اس کو بذریعہ تحریر ظاہر کرے خواہ اس تحریر کو کسی اخبار میں چھپوادے یا میرے پاس بھیج دے تاکہ میں اس کو رسالہ میں مشتہر کرکے اس کا جواب دوں اور اگر کسی نے کوئی عذر نہ کیا تو اس کے سکوت کو اس کی رضا سمجھا جائے گا اور بحکم حدیث نبوی اس کی رضامندی سے اس وصیت کو جائز تصور کیا جائے گا۔وہ حدیث یہ ہے:
قال قال رسول اللہ ﷺ :لا تجوز وصیۃ لوارث الا أن یشاء الورثۃ
یعنی وصیت کسی وارث کے لیے جائز نہیں ،ہاں اس صورت میں جائز ہے کہ باقی ورثہ اس کو مان لیں۔(ابوسعید محمد حسین)
مولانا مسعود عالم ندوی (۱۹۱۰ء-۱۹۵۴ء) کی ایک تحریر
مولانا مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک‘‘ کے حواشی میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’مولوی محمد حسین بٹالوی (ف ۱۳۳۸ھ) نے جہاد کی منسوخی پر ایک رسالہ (الاقتصادفی مسائل الجہاد) فارسی زبان میں تصنیف فرمایا تھا اور مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے بھی شائع کرائے تھے ۔معتبر اور ثقہ راویوں کا بیان ہے کہ اس کے معاوضے میں سرکار انگریزی سے انھیں ’’جاگیر‘‘ بھی ملی تھی۔ اس رسالہ کا پہلا حصہ ہمارے پیش نظر ہے، پوری کتاب تحریف وتدلیس کا عجیب وغریب نمونہ ہے۔ نمونہ کے لیے مندرجہ ذیل اقتباس کافی ہوگا:
نتیجۂ مسئلۂ اولی: ازیں مسئلہ ثابت ومتحقق شدکہ کمال اسلام وایمان ونجات اہل اسلام برجہاد موقوف ومنحصر نیست،اگر مسلمانان ما را از فرایض دینی باز ندارندمجرد عبادت برائے نجات وکمال ایمان کافی است۔پس آنانکہ۔۔۔ الخ۔ (ص:۸)
مولانا مسعود عالم ندوی (م۱۶؍مارچ ۱۹۵۴ء) اپنی اسی کتاب میں ’’وہابی اور اہل حدیث ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں:
’’اسی سلسلے میں ایک اور غلط فہمی کا ازالہ مناسب ہوگا۔ ہندوستان میں حضرت سید صاحبؒ کی دعوت تجدید وجہاد کے ساتھ ساتھ اتباع سنت اور عمل بالحدیث کا چرچا بھی شروع ہوا۔خود سید صاحبؒ اور ان کے خاص ماننے والے یعنی اہل صادق پور اپنے کو ’’حنفی مع القول بالترجیح‘‘ کہتے تھے مگر خود سید صاحب ؒ کی جماعت میں مولانا اسماعیل شہید (ش۱۲۴۶ھ) کے اثر سے خالص ’’عاملین بالحدیث‘‘کا بھی ایک طبقہ پیدا ہوگیا تھا۔ شروع شروع میں یہ دونوں طبقے یعنی حنفی اور اہل حدیث ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔ دونوں کا زور جہاد پر تھااور ان فروعی مسئلوں میں وہ روادار تھے مگر آگے چل کر جب مجاہدین کی داروگیر شروع ہوئی اور ہر آمین بالجہر کہنے والے پر ’’وہابی‘‘ کا شبہ کیا گیا اور ’’وہابی‘‘ کے معنی سرکاری زبان میں ’’باغی‘‘ کے ہوگئے (جیسا کہ آیندہ صفحات میں آتا ہے) تو ہندوستان کی جماعت اہل حدیث موجودہ شکل میں نمایاں ہوئی اور ان کے سرگروہ مولوی محمد حسین صاحبؒ بٹالوی (۱۲۵۶ھ-۱۳۳۸ھ) نے سرکار انگریزی کی اطاعت کو واجب قرار دیا اور حد یہ کہ وقت کے بعض مشہور حنفی علماء کو سرکار سے بغاوت کے طعنے دیے۔ (مولانا نے یہاں حاشیہ لگا کر ان حنفی علماء کی تعیین اس طرح کی ہے: مولانا فضل حق خیر آبادی (اسیر انڈمان: ف ۱۲۷۸ھ) اور حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکہ (ف: ۱۳۱۷ھ) وغیرہم)
ان بیچارے کو یہ ہوش نہیں رہا کہ وہ اپنے کو سرکار کی زد سے بچانے کی فکر میں کیا کررہے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو کس پستی کی طرف لے جارہے ہیں؟ مولوی محمد حسین صاحب اور ان ہی جیسے بعض اہل حدیث کی روش کا یہ نتیجہ ہوا کہ موجودہ جماعت اہل حدیث کا عام رجحان فروعی مسئلوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ پوری جماعت ’’اہل حدیث‘‘ ایسی ہی ہے حاشا وکلا! ان ہی میں اہل صادق پور بھی ہیں جو سید صاحب ؒ کے عشق ومحبت میں خود ان کے اہل خاندان سے بھی بڑھ چڑھ کر ہیں نیز ہندوستان کے طول وعرض میں سیکڑوں اہل حدیث ایسے ملیں گے جن کے دل اب بھی جذبۂ جہاد سے معمور ہیں اور وہ اپنے اسلاف کی روش پر سختی کے ساتھ قائم ہیں۔ اس کے علاوہ سید صاحبؒ کے ماننے والے اور ان کے مسلک کے مطابق جہاد واصلاح کا ولولہ رکھنے والے اہل حدیث طبقہ کے اندر محدود نہیں۔ اہل دیوبند (جو پکے حنفی ہیں) کا ایک اچھا خاصا طبقہ سید شہیدؒ کے مسلک پر چلنا اپنے لیے سرمایۂ سعادت سمجھتا ہے ۔اہل دیوبند اور جماعت اہل حدیث کے علاوہ بھی سمجھدار مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سید صاحبؒ اور مولانا شہیدؒ کے مشرب ومسلک کو عین اسلام تصور کرتی ہے ۔یہ تمام طبقے عرف عام کے مطابق ’’وہابی‘‘ کی فہرست میں آتے ہیں مگر انھیں اہل حدیث نہیں کہا جاسکتا۔ اہل حدیث ایک بالکل دوسری جماعت ہے جو باطنیوں اور شیعوں کے توڑ کے لیے پیدا ہوئی تھی اور یہ کوئی نئی جماعت نہیں، بنوعباس کے اوائل عہد (دوسری صدی ہجری) ہی میں محدثین اور اہل حدیث کا گروہ ممتاز ومشہور تھا۔ یہ اور بات ہے کہ موجودہ جماعت اہل حدیث آمین ورفع یدین اور اس قسم کے دوچار فروعی مسئلوں پر قانع ہوکر رہ گئی ہے بلکہ اب اس کی حیثیت ’’جماعت‘‘ سے زیادہ ’’فرقہ‘‘ کی ہوگئی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ ہندوستان کے اصطلاحی ’’وہابی‘‘ اور ہیں اور ’’اہل حدیث‘‘ اور۔ اور راقم ان دونوں لفظوں کے استعمال میں اس فرق کو ملحوظ رکھتا ہے گو سچ پوچھئے تو لفظ ’’وہابی‘‘ کا اطلاق کسی گروہ پر صحیح نہیں۔
آخری پیراگراف کے لفظ ’’راقم‘‘ پر مندرجہ ذیل حاشیہ لگاتے ہیں:
راقم کو اگر کوئی طنز سے ’’وہابی‘‘ کہتا ہے تو تردید کی ضرورت نہیں سمجھتا لیکن اگر کوئی ’’اہل حدیث‘‘ کے نام سے یاد کرے تو اس سے براءت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ’’اہل حدیث‘‘ سے تحزب اور گروہ بندی کی بُو آتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے موجودہ دور میں حنفیت اور شافعیت وغیرہ فقہی مذہب ہونے کی جگہ مستقل ’’دین‘‘ بن کر رہ گئی ہیں۔ ہر طرف تحزب اور فرقہ بندی کا زور ہے، ضرورت اصول پر زور دینے اور فروع میں روادار ہونے کی ہے‘‘۔ (ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک، مکتبہ چراغ اسلام، لاہور، طبع ثالث ۱۹۸۹ء ، ص:۲۴-۲۶)
آغا شورش کاشمیری (۱۹۱۷ء-۱۹۷۵ء) کی ایک تحریر
(مولانا محمد حسین) بٹالوی حضرت شیخ الکل محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد تھے۔ آپ کو علماء حدیث میں ایک خصوصی شہرت حاصل ہوئی۔ آپ کے متعلق رئیس قادیاں کے مرتب ابوالقاسم رفیق دلاوری نے لکھا ہے کہ آپ مرزاصاحب (غلام احمد قادیانی) کے بچپن کے دوست اور ہم سبق تھے- مرزا صاحب کے دعاوی والہامات اور روپے پیسے میں بدمعاملگی سے آپ کا جی کھٹا ہوگیا۔ آپ نے مرزا صاحب کو ٹوکا لیکن وہ برطانوی استعمار کے گھوڑے پر سوار تھے، کیوں کر مانتے؟ نتیجتاً جانبین میں ٹکراؤ ہوگیا۔ مولانا بٹالوی نے مرزا صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ مرزا صاحب نے انھیں وہابی ہونے کے برطانوی الزام سے مطعون کرکے انگریزوں کو بد ظن کرنا چاہا اور حکام کو لکھا کہ وہابی سرشت کے مطابق وہ مسلمانوں کو برطانوی حکومت کے خلاف جہاد پر اکساتے ہیں۔ مولانا نے تنسیخ جہاد کا موقف اختیار کیا۔ انگریز ایک اہل حدیث عالم سے یہ فتوی پاکر نہ صرف مسرور ومطمئن ہوئے بلکہ (انھیں) شمس العلماء کا خطاب دیا اور انعام میں اراضی عطا کی؛ حتی کہ گورنر جنرل ہندوستان سے صوبائی گورنر کی سفارش پر اپنی جماعت کے لیے اہل حدیث کہلانے کی منظوری حاصل کی۔ مولانا بٹالوی کی فراست کا نتیجہ تھاکہ ان کی جماعت داروگیر سے محفوظ ہوگئی۔ مرزا غلام احمد کی مخبری اکارت گئی اور قادیانی متنبی علماء کے اڑنگے پر آگیا، ورنہ اس کا شیوہ تھا کہ وہ انگریز حکام سے مخبری کرکے ان کے خلاف داروگیر کا الاؤ روشن رکھتا‘‘۔ (تحریک ختم نبوت، شورش کاشمیری، مطبوعات چٹان لاہور، مارچ ۲۰۰۳ء، ص:۳۸)
مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانیؒ (۱۹۰۹ء-۱۹۸۷ء) کی تحریر
اس سے قبل کہ مندرجہ بالا مختلف تحریروں کے مندرجات کا تجزیہ کیا جائے مولانا مسعود عالم ندوی کی شخصیت سے متعلق ایک تحریر ملاحظہ فرمالیں: جماعت اہل حدیث کے معتبر اور مستند عالم دین مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’مولانا مسعود عالم کے ذاتی حالات کا راقم کو اسی قدر علم ہے کہ آپ کے ماموں مولانا سید عبدالکبیر صاحب رحمہ اللہ بڑے جید اہل حدیث عالم تھے جو مولانا محمد سعید بنارسی (م ۱۳۲۲ھ) کے تلمیذ رشید، ان کے دارالحدیث کے معلم اور ان کے اشاعتی کاموں میں مددگار ومعاون تھے۔ مولانا مسعود عالم کی والدہ محترمہ رحمہا اللہ بھی مسلک اہل حدیث میں نہایت پختہ تھیں۔ پھر ندوہ میں ان کو شیخ تقی الدین ہلالی المراکشی استاذ مل گئے جو اعتقاداً وعملاً پختہ اہل حدیث ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مسعود عالم بنیادی طور پر اہل حدیث تھے۔ اگرچہ اسی دور ۱۹۴۰ء – ۱۹۴۷ء کے ملکی حالات کے نتیجے میں ’’تحریک اسلامی کے سیاسی نظریات‘‘ اور فکروعمل میں ان پر ’’ندویت‘‘ غالب تھی چنانچہ ایسے معاملات میں تو ہم دونوں کی راہیں مختلف رہیں مگر اس اختلاف منہاج کا ہمارے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہ اول سے آخر تک یکساں رہے اور اسی قدر نہیں بلکہ ادارہ ’’الاعتصام‘‘ سے بھی تاحین حیات ان کا نہایت مخلصانہ رابطہ برابر قائم رہا۔ مولانا مسعود عالم کی تحریری یادگاروں میں ہمارے نزدیک اعلی درجہ کی ان کی تالیف ’’محمد بن عبدالوہاب:ایک مظلوم اور بدنام مصلح‘‘ کتاب ہے جو جامعیت اور اخلاص میں تاحال منفرد حیثیت کی حامل ہے‘‘۔ ( ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور، ۱۰؍ستمبر ۱۹۷۱ء بحوالہ آثار حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ ،ترتیب: احمد شاکر، المکتبۃ السلفیۃ، شیش محل روڈ، لاہور، طبع اول: اکتوبر ۲۰۱۷ء، جلد چہارم، ص۲۹۲)
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف (ولادت:۱۹۴۵ء) کی تحریر
جماعت اہل حدیث کی ایک دوسری معتبر شخصیت مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ مولانا ندویؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’آپ (مولانا مسعود عالم ندوی) کے دادا مولانا سید خدا بخش صاحب بھی اپنے وقت کے اچھے عالم اور اہل حدیث تھے ۔آپ کا ننھیال بھی اہل حدیث اور مشہور اہل حدیث عالم مولانا حافظ عبداللہ غازیپوری کا شاگرد تھا۔ مولانا مرحوم بھی معروف معنوں میں گو اہل حدیث کہلانے سے گریز کرتے تھے، تاہم سلفیت میں نہایت پختہ تھے‘‘۔ (مولف کتاب مولانا مسعود عالم ندوی: مختصرسوانح اور خدمات از صلاح الدین یوسف بر کتاب: مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے افکار وخیالات پر ایک نظر، مسعود عالم ندوی، دارالدعوۃ السلفیۃ، شیش محل روڈ، لاہور، طبع دوم، نومبر ۱۹۸۵ء، ص۸)
تبصرہ وتجزیہ
قارئین ذی احترام کو حیرت ہوگی کہ ان متفرق تحریروں کو زیر نظر مضمون میں کیوں جمع کیا گیا ہے۔ دراصل طالب علمی کے زمانے سے جماعت اہل حدیث کے بارے میں مولانا مسعود عالم ندوی کی مندرجہ بالا تحریر الجھن پیدا کرتی رہی ہے اور دل ودماغ کو مطمئن کرنے والی کوئی توجیہ سامنے نہیں آئی۔ مجھے یاد پڑتا ہے استاذ محترم ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ نے بھی اس تحریر کا نوٹس لیا تھا اور اس کے منفی پہلووں پر تفصیلی روشنی ڈالی تھی۔ ماہنامہ محدث، بنارس کا وہ شمارہ اس وقت میرے سامنے نہیں ہے، ورنہ اس کے بھی چند اقتباسات یہاں نقل کیے جاتے۔ مناسب ہوگا اگر اسی موقع پر وہ مضمون بھی پورٹل پر ڈال دیا جائے تاکہ ڈاکٹر ازہری صاحب کا تجزیہ بھی قارئین کے سامنے آجائے۔
مولانا مسعود عالم ندوی برصغیر کی دینی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ یہاں کی دینی فضا جن تنازعات کی وجہ سے اب تک مسموم بنی ہوئی ہے،اس کے مالہ وماعلیہ سے بھی وہ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ ان کے کسی تجزیہ کو یہ کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تحریک اسلامی سے وابستہ تھے۔ ایک دیدہ ور مسلمان مورخ کی حیثیت سے ان کا اپنا مطالعہ وتجزیہ تھا، ہمیں اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔مولانا بھوجیانی ؒ اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی تحریر وں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اہل حدیث تھے اور اس جماعت اور اس سے وابستہ علماء سے انھیں انسیت تھی۔
کتاب وسنت کو اپنے فکروعمل کا محور اور مصدر قراردینے والی یہ جماعت اگر فقہی فروعات پر اکتفا کربیٹھی ہے اور ان سے متعلق تنازعات میں الجھ گئی ہے،تو یہ ایک تشویش ناک بات ہے۔مولانا ندوی نے اپنی اسی تشویش کا اظہار کیا ہے۔واقعہ یہی ہے کہ جماعت اہل حدیث فقہ کے چاروں مکاتب فکر کے مقابلے میں کوئی پانچواں مکتب فکر نہیں ہے اور نہ وہ نسلی اور خاندانی چیز ہے بلکہ اسلام کے اصول وضوابط اس کے اصول وضوابط ہیں اور وہ قرون مشہود لہا بالخیر کے اسلام کو اپنے فکروعمل کا محور بناتی ہے۔جتھے بندی کی ریس میں جماعت اہل حدیث نے اپنے بنیادی اصولوں کو پامال کرڈالا ہے ،اب اہل حدیث بنے رہنے کے لیے پانچ وقت کی نماز پڑھنا بھی ضروری نہیں بلکہ ضروری صرف یہ ہے کہ جب کبھی نماز پڑھی جائے تو آمین بالجہر، رفع یدین اور قراءت خلف الامام کا اہتمام کرلیا جائے۔اہل حدیث معاشرے کی عملی تصویر یہی ہے ،اس پر اگر کوئی چراغ پا ہوتا ہے تو اسے اہل حدیث آبادی میں نمازیوں کی تعداد کا سروے کرکے اپنی حزبیت اورعصبیت کا قبلہ درست کرلینا چاہیے۔اسلام کے دوسرے احکام وقوانین جن پر ہم اس ملک میں بآسانی عمل کرسکتے ہیں،ان کی صورت حال بیان کرنے کی ضرورت نہیں ،اگر بصیرت وبصارت سلامت ہے تو اس کا ادراک اور مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے اس جماعت سے وابستگی کا دم بھرنے والے بعض علماء خود احتسابی کے کسی بھی عمل کو جماعت اہل حدیث پر تنقید سمجھ بیٹھے ہیں اور وہ ہر ایسی تحریر کا جواب اپنی ’’مہذب‘‘ گالیوں سے دیتے ہیں اور خدائی فوجدار بن کر اس کے لکھنے والے کو سلفیت سے خارج کرنے میں بڑی عجلت سے کام لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پوری جماعت نے ایسے جاہل خود سروں کو سلفیت کا ٹھیکہ دے رکھا ہے کہ وہ جسے چاہیں سلفیت میں داخل کریں اور جسے چاہیں باہر کا راستہ دکھادیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی شریف انسان اس قسم کی نامعقول تحریروں کا کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا ،اس لیے ایک جاہل شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس نے میدان مار لیا ہے۔فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ پر جس قسم کی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں،ان سے اخلاق وشرافت شرمسار بھی ہوتی ہے اور لکھنے والے کی سطحیت اور اس کے ذہنی مریض ہونے کا پتا بھی چلتا ہے۔
مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کا شمار بڑے اہل حدیث علماء میں ہوتا ہے ۔معاصر اہل حدیث علماء سے ان کے نظریاتی اختلافات بھی تھے۔اشاعۃ السنۃ میں مجھے کئی ایک مضامین ایسے ملے ہیں جن میں انھوں نے خود اپنے لوگوں کے افکار وخیالات کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ جہاں تک سوال انگریزی حکومت سے تعلق اور اس سے اظہار وفاداری کا ہے تو اس مسئلے میں ان کا نقطۂ نظر واضح ہے ۔وہ انگریزوں سے جہاد کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے ۔اس مسئلے میں مولانا بٹالوی تنہا نہیں ہیں بلکہ ان کے معاصر کئی علماء نیک نیتی سے یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے سلسلے میں انگریزی حکومت کی جو غلط فہمیاں ہیں، وہ دور کی جائیں اور برادران وطن کی طرح سرکاری ملازمتوں اور دیگر مراعات میں مسلمانوں کی بھی حصہ داری ہو۔
۱۸۵۷ء کے انقلاب کو بری طرح کچل دینے کے بعد انگریزوں کے عتاب کا سب سے زیادہ شکار مسلمان تھے- ہندوستانی فوجیوں نے جگہ جگہ حملہ کرکے جس طرح انگریز مردوں، عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ کیا تھا، اور ایک افراتفری کی صورت حال ملک میں ابھرآئی تھی، اسلامی اصول جنگ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کی واقعی حقیقت سامنے آجائے گی۔ بعض انگریز خواتین جو ۱۸۵۷ء میں ظلم وجبر کا نشانہ بنی تھیں ،انھوں نے اپنی یادداشتیں ترتیب دی ہیں، کئی ایک کے اردو تراجم بھی موجود ہیں، ان کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بے لگام اور غیر منظم فوج نے بغیر کسی فرق وامتیاز کے گولیاں چلائیں بلکہ بہت سے ایسے ہندوستانیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن پر یہ الزام تھا کہ وہ انگریزی حکومت سے قریب یا اس کے وفادار ہیں۔ اگر اس مسئلے کو ہم ایک مسلمان کی حیثیت سے دیکھیں تو تصویر صاف ہوجائے گی ۔ایک متعصب اور اندھے بہرے ہندوستانی کی حیثیت سے جب بھی اس قضیہ پر غور کیا جائے گا تو حق وانصاف کا خون ہوگا اور سچائی سامنے نہیں آسکے گی۔
مولانا بٹالوی کی متنازعہ کتاب ’’الاقتصاد فی مسائل الجہاد‘‘ کو اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کتاب کا اردو ایڈیشن میرے پاس موجود ہے۔ اس میں مولانا نے کتب فقہ وعقائد کے طول طویل اقتباسات کی روشنی میں شرائط جہاد کی تعیین کی ہے اور اپنے وقت کے ہندوستان میں ان شرائط کے مفقود ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ ایک خالص علمی بحث ہے ۔ مولانا کی نیت کیا تھی، مسلمانوں کے وہ ہمدرد وبہی خواہ تھے یا وہ اسلام کے مسئلۂ جہاد کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینا چاہتے تھے؟ ایک عالم دین کے سلسلے میں یہ رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہے کہ وہ بدنیت یا مسلمانوں کے بدخواہ تھے ۔
مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کا آلۂ کار بن کر جس طرح کی سازشوں میں مصروف ہوگیا تھا اور جس طرح کی مخبری کرکے اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کررہا تھا، اگر مولانا بٹالوی وہ رخ نہ اپناتے جو انھوں نے اپنی کتاب میں اپنایا ہے تو خدا جانے ان کا اور ان کے ہم مسلک افراد کا کیا حال ہوتا؟ اگر تمام اہل حدیثوں کو وہابی کہہ کر قتل کردیا جاتا تو اس وقت کے ہندوستان میں کس کی مجال تھی کہ انگریزی حکومت کا راستہ روک دیتا۔ حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے مولانا نے نہ صرف مسئلۂ جہاد پر قلم اٹھایا بلکہ جماعت اہل حدیث سے وابستہ افراد کو وہابی نہ کہنے کا فرمان انگریزی حکومت سے جاری کرایا۔ شورش کاشمیری نے بجاطور پر اسے مولانا بٹالوی کی ’’فراست‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
مولانا مسعود عالم ندوی نے انگریزی حکومت کی جانب سے عطا کی جانے والی جس جاگیر کا تذکرہ کیا ہے اور کسی معتبر اور ثقہ ذریعے سے وہ بات نقل کی ہے، وہ بالکل درست ہے اور یہ بات خود مولانا بٹالوی کے وصیت نامے سے واضح ہے، اس کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی اور میری نظر میں اس کی تاویل کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اس وقت کے ہندوستان میں انگریزی حکومت ایسے تمام لوگوں کو خطابات اور جاگیروں سے نوازتی تھی جن کے بارے میں اسے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہماری حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے موید اور وفادار ہیں۔ بہت سے علمائے ہند کے لیے شمس العلماء کا خطاب یہی پس منظر رکھتا ہے۔ کیا آج شمس العلماء کا خطاب پانے والے تمام علمائے اسلام کو کوئی شخص اسلام اور اہل اسلام کا بدخواہ کہنے کی ہمت جٹا سکتا ہے۔ البتہ مولانا ندوی کی یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کہ انھوں نے جماعت اہل حدیث کا رخ فروعی مسائل کی طرف موڑدیا تھا، اس کے برعکس ہمیں ان کے رسالے میں ایسے مقالات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں وہ بین المسالک افہام وتفہیم کی فضا قائم کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ ان کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ برادران وطن انگریزی حکومت کے خیرخواہ بن کر تمام سرکاری ملازمتیں حاصل کررہے ہیں اور مسلمان ان سے محروم ہیں۔ سیاسی سطح پر اس ملک میں مسلمانوں کو جو بالادستی حاصل تھی، وہ ختم ہوتی جارہی ہے اور مسلمان اس کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے باہم فقہی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں- انھوں نے کفر اور کافر کے موضوع پر ایک طویل علمی مقالہ تحریر کیا جس میں یہ بات ثابت کی کہ اہل اسلام کا باہم ایک دوسرے کو کافر کہنا درست نہیں ہے ۔یہ مقالہ راقم کے پاس موجود ہے، اسے ایڈیٹ کرکے ایک کتابچہ کی شکل میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ان کا ایک مقالہ بدعت اور بدعتی کے عنوان سے بھی ہے جس میں انھوں نے مسلمانوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ باہم ایک دوسرے کو بدعتی کہنے سے پرہیز کریں۔ اگر اللہ نے فرصت دی تو راقم ان کے بعض مقالات کو مرتب کرکے ان کی اشاعت کا انتظام بھی کرے گا ۔
مسئلہ جہاد پر ان کا نقطۂ نظر مختلف فیہ رہا ہے اور اس سے کلی طور پراتفاق کرنا مشکل ہے لیکن شورش کاشمیری نے مسئلۂ جہاد پر ان کے نقطۂ نظر کا جو پس منظر بیان کیا ہے، وہ معقول معلوم ہوتا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی، مولانا بٹالوی کے شائع کردہ علمائے ہند کے متفقہ فتوے سے اس قدر ناراض ہوا تھا کہ وہ کسی بھی حد تک جاسکتا تھا، چوں کہ مولانا بٹالوی اس کو بہت قریب سے جانتے تھے بلکہ اس کی کتاب براہین احمدیہ کا بہت تفصیلی تعارف بھی انھوں نے اپنے رسالے میں کرایا تھا لیکن یہ بات اس وقت کی ہے جب ابھی مرزا غلام احمد نے کسی قسم کا دعوی نہیں کیا تھا۔ مولانا بٹالوی نے اس کے تمام دعووں اور الہامات کے غبارے کی ہوا نکال دی تھی اور وہ کسی بھی طریقے سے ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں جٹا سکتا تھا۔ اس لیے اس نے مولانا اور ان کے ہم مسلک افراد پر وہابیت کا الزام عائد کیا تاکہ ان کو انگریزی حکومت کا باغی باور کراکر ان کو سلاخوں کے پیچھے پہنچادے یا تختۂ دار پر لٹکوادے ۔ جن حضرات نے ہنٹر کی کتاب ’’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ پڑھی ہے، وہ جانتے ہیں کہ انگریزوں کی نظر میں وہابی ہونا کتنا سنگین جرم تھا اور اس نے وہابیوں کی جو پہچان بتائی ہے،اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اشارہ سید شہید ؒ کے پیرو کاروں کی طرف تھا جو عمل بالحدیث کو مقدم رکھتے تھے۔ ان حالات میں مولانا نے سب سے محفوظ راستہ یہ تلاش کیا کہ انگریزوں سے قربت اختیار کی جائے اور ان کو بتایا جائے کہ اہل حدیث افراد پر وہابیت کا اطلاق درست نہیں ہے، اہل حدیث حکومت کے باغی نہیں بلکہ اس کے بہی خواہ ہیں۔ رخصت اور عزیمت کے دو راستوں میں سے ایک راستہ رخصت کا مولانا نے اختیار کیا اور لاکھوں مسلمانوں کو انگریزی سرکار کے عتاب سے بچایا اور ان کی عزت وآبرو کی حفاظت فرمائی۔ ۱۸۵۷ء کے معاً بعد کی صورت حال جن حضرات کے پیش نظر نہیں ہے، ان کے لیے یہ کہنا بہت آسان ہے کہ مولانا کی پالیسی غلط تھی لیکن جو حضرات ان حالات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، وہ اسے مولانا کی ’’فراست‘‘ ہی سے تعبیر کرسکتے ہیں جیسا کہ شورش کاشمیری نے کیا ہے۔
۱۸۵۷ء کے بعد انگریزوں نے منصوبہ بندی کی کہ ہندوستان میں مذہبی تنازعات کو خوب ہوا دی جائے اور مسلمانوں کی توجہ کا رخ موڑ دیا جائے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے ہندومذہب اور عیسائی مذہب کے خلاف ایسی تحریریں شائع کیں جن کو پڑھ کر ابکائی آجائے۔ دشنام طرازی سے لبریز اس کی کتابیں عام لوگوں تک پہنچیں تو انھوں نے بھی اسلام، پیغمبر اسلام، قرآن مجید اور تمام شعائر اسلامیہ کو موضوع بحث بنانا شروع کردیا اور ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ خود مسلمانوں میں بین المسالک تنازعات اٹھ کھڑے ہوئے، شیعہ سنی، وہابی غیر وہابی، دیوبندی اور بریلوی، اہل حدیث اور دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی مناظروں کی ایک باڑھ آگئی اور انگریز بہادر ان تنازعات میں منصف بن کر فیصلے صادر کرنے لگا۔ ایک ہزارسالہ مسلم دور حکومت میں یہ تنازعات دکھائی نہیں دیتے لیکن انگریزوں کے دو سو سالہ دور میں پورا ملک مذہبی جنگ وجدال کی لپیٹ میں آگیا اور ابھی تک اس کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے۔
اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اور جس قسم کے منصوبے ترتیب دیے جارہے ہیں، ان کو روکنے کا واحد طریقہ مسلمانوں کا باہمی اتفاق واتحاد ہے۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت صرف جماعت اہل حدیث میں ہے،شرط صرف یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت کی روح کو سمجھنے کے لیے تیار ہوجائے ۔فقہ کے دوسرے مکاتب فکر میں اس قدر تنگی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے شرح صدر کے ساتھ نماز پڑھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔خاص مناظرانہ ماحول میں ہمارے جن علماء کی تربیت ہوئی ہے، وہ بین المسالک اتحاد واتفاق کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے ۔ان کو تو یہی سمجھایا اور بتایا گیا ہے کہ بریلویت اور دیوبندیت ہی اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں، پہلے ان کو درست کیا جائے،اس کے بعد کوئی اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔ یاد رکھیے کہ اس قسم کی احمقانہ باتیں نہ دین کا حصہ ہیں اور نہ ان سے اسلام کا کوئی بھلا ہونے والا ہے بلکہ مولانا آزاد کے بقول بغداد پر حملے کی دعوت دینے والے بعض مسالک کے شدت پسند علماء ہی تھے لیکن جب حملہ ہوا اور کشت وخون کا بازار گرام ہوا تو نہ کوئی سنی بچا، نہ شیعہ، نہ کسی شافعی کی عزت وآبرو محفوظ رہی اور نہ کسی حنفی کی۔ نوشتۂ دیوار پڑھنے سے اگر ہماری بصیرت وبصارت آج محروم دکھائی دیتی ہے تو بغداد کی تاریخ کا اعادہ یہاں بھی کیا جاسکتا ہے۔ ذرا سوچیے!اس وقت ہمارا کیا حال ہوگا؟ اور اپنی ملت کے لیے جائے پناہ ہم کہاں تلاش کریں گے؟
مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کے اس وصیت نامے کے لیے ملاحظہ فرمائیں: اشاعۃ السنۃ جلد ۱۹، شمارہ ۹،ستمبر ۱۹۰۲ء،ص۲۷۴ ۔ ۲۷۸۔مولانا مسعود عالم ندوی کی یہ بات درست نہیں ہے کہ مولانا بٹالوی نے الاقتصاد فی مسائل الجہاد فارسی زبان میں لکھی تھی بلکہ اولاً یہ کتاب اردو میں ہی لکھی گئی تھی ،اس کے بعد دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا تھا۔فارسی ترجمہ کے سلسلے میں رسالے میں جو اشتہارات شائع کیے گئے ہیں،ان میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ فارسی ترجمہ کچھ اضافوں کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔مضمون میں یہ دونوں باتیں لکھنے… Read more »