برصغیر کی دینی تاریخ میں جو مقام شاہ اسماعیل شہید (۱۱۹۳ھ-۱۲۴۶ھ)کے عالی قدر خانوادے کو حاصل ہے، وہ کسی بیان کا محتاج نہیں۔ شاہ عبدالرحیم(۱۰۵۴ھ – ۱۱۳۱ ھ)، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(۱۱۱۴ھ-۱۱۷۴ھ)، شاہ عبدالعزیز(۱۱۵۹ھ -۱۲۳۹ھ )، شاہ رفیع الدین(۱۱۶۳ھ-۱۲۳۳ھ)، شاہ عبدالقادر(۱۱۶۶ھ-۱۲۳۰ھ)، شاہ عبدالغنی(متوفی:۱۲۰۳ھ) کی دینی اور علمی خدمات کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ تقلید جامد، عجمی تصوف اور غیر شرعی رسوم وروایات کی جن تاریکیوں میں برصغیر ڈوبا ہوا تھا اور جن کو دور کرنے کی کوششیں مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی(۹۷۱ھ-۱۰۳۴ھ) اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی(۹۵۸ھ-۱۰۵۲ھ) وغیرہم کے دور سے جاری تھیں، ان میں بڑی حد تک کامیابی خانوادۂ ولی اللہ کی مساعی جمیلہ سے ملی۔ ملت کے یہ علمائے کبار مغلوں کے سیاسی زوال کو تو نہ روک سکے لیکن سیاسی زوال کے نتیجے میں جس دینی زوال کا اندیشہ تھا، اس سے ملت بڑی حد تک محفوظ ہوگئی اور پھر چراغوں سے چراغ جلتے گئے اور توحید وسنت کا اجالا پھیلتا گیا۔ آج دین کا جو سرمایہ برصغیر میں محفوظ ہے، وہ اسی خانوادے کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔
شاہ اسماعیل شہید شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے اور شاہ عبدالعزیز، شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کے بھتیجے اور شاہ عبدالغنی کے صاحب زادے ہیں۔ پردادا، دادا اور عالی وقار چچاؤں نے دبی زبان میں جو کچھ کہنا چاہا تھا، اسے علی الاعلان کہنے اور لکھنے کا حوصلہ اورشرف اپنے دور کے اسی عظیم مجاہد اور مجدد کے حصے میں آیا۔ تقلید جامد، عجمی تصوف اور شرک وبدعات کے خلاف شاہ اسماعیل شہید نے اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے ایک بڑا محاذ قائم کیا، سیاسی محاذ پر بھی ان کی بھرپور توجہ رہی اور اپنے مرشد سید احمد شہید(۱۲۰۱ھ-۱۲۴۶ھ) کی قیادت میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو واپس لانے کے لیے جہاد کا سلسلہ شروع کیا لیکن زوال پذیر قوموں کی وہی مزمن بیماری منافقت اور غداری یہاں بھی سدراہ ثابت ہوئی اور میدان بالا کوٹ میں قدسیوں کی یہ جماعت شکست کھاگئی اور اس کے قائدین کی بڑی تعداد شہید ہوگئی۔ شہداء میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہیدسرفہرست تھے۔ اپنے خون سے دین اسلام کی حقانیت اور صداقت کی گواہی دینا ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑا شرف ہے جو اسے اس دنیا میں حاصل ہوتا ہے۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ آخرت میں بھی ان کے درجات بلند رکھے گا اور جنت الفردوس میں اپنے محبوب بندوں کی صف میں انھیں شامل فرمائے گا۔
مولانا ابوالکلام آزاد(۱۸۸۸ء-۱۹۵۸ء) کی دینی، علمی، سیاسی اور تاریخی بصیرت کی ایک دنیا معترف ہے۔ اسلام کی تاریخ دعوت وعزیمت کے کئی ایک لعل وگہر کا ذکر انھوں نے اپنی مایۂ ناز تصنیف ’’تذکرہ‘‘ میں کیا ہے۔ شاہ اسماعیل شہید کے سلسلے میں حقائق پر مبنی ان کی خوبصورت اور زبان وادب کی تمام خوبیوں سے آراستہ یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں:
’’حضرت شاہ ولی اللہ کا مقام ہر رنگ میں کس درجہ جامع وکامل ہے؟ بایں ہمہ یہاں جو کچھ ہوا، تجدید وتدوین علوم ومعارف اور تعلیم وتربیت اصحاب استعداد تک محدود رہا، اس سے آگے نہ بڑھ سکا۔ فعلاً عمل ونفاذ اور ظہور وشیوع کا پورا کام تو کسی دوسرے ہی مرد میدان کا منتظر تھا۔ اور معلوم ہے کہ توفیق الٰہی نے یہ معاملہ صرف حضرت علامہ ومجدد شہید رضی اللہ عنہ کے لیے مخصوص کردیا تھا، خود حضرت شاہ صاحب کا بھی اس میں حصہ نہ تھا:
می خواست رستخیز زعالم برآورد
آں باغباں کہ تربیتِ ایں نہال کرد
اگر خود شاہ صاحب بھی اس وقت ہوتے تو انھی کے جھنڈے کے نیچے نظر آتے۔
حضرت پیر انصاری کا قول یاد رہے: ’’من مرید خرقانی ام لیکن اگر خرقانی دریں وقت می بود باوجود پیریش مریدیٔ من می کرد‘‘۔ شاہ صاحب نے مزاج وقت کے عدم تحمل واستعداد سے مجبور ہوکر بحکم :
بہ رمز نکتہ ادا می کنم کہ خلوتیاں
سرسبوبکشادندودر فرو بستند
دعوت واصلاح امت کے جو بھید پرانی دہلی کے کھنڈروں اور کوٹلہ کے حجروں میں دفن کردیے تھے، اب اس سلطان وقت واسکندر عزم کی بدولت شاہ جہان آباد کے بازاروں اور جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ان کا ہنگامہ مچ گیا، اور ہندوستان کے کناروں سے بھی گزر کر نہیں معلوم کہاں کہاں تک چرچے اور افسانے پھیل گئے۔ جن باتوں کے کہنے کی بڑوں بڑوں کو بند حجروں کے اندر بھی تاب نہ تھی، وہ اب برسر بازار کی جارہی اور ہورہی تھیں۔ اور خون شہادت کے چھینٹے حرف وحکایات کو نقوش وسواد بناکر صفحۂ عالم پر ثبت کررہے تھے:
آخر تو لائیں گے کوئی آفت فغاں سے ہم
حجت تمام کرتے ہیں آج آسماں سے ہم
پھر کیا اس وقت ہندوستان علم وعمل سے خالی ہوگیا تھا؟ یا حق پر چلنے والے اور حق کا درد رکھنے والے معدوم ہوگئے تھے؟ کون ہے جو ایسا کہہ سکتا ہے؟ خود اسی خاندان عالی میں کیسے کیسے اکابر واساتذۂ علم وعمل موجود تھے؟ حضرت شاہ عبدالعزیز کے درس وتدریس کی پادشاہت سمرقند وبخارا اور مصروشام تک پھیلی ہوئی تھی۔ شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین علم وعمل کے آفتاب تھے۔ خاندان سے باہر اگر ان کے تربیت یافتوں کو دیکھا جائے تو کوئی گوشہ ایسا نہ تھا، جہاں ان کا فیضان علم کام نہ کررہا ہو۔ بایں ہمہ یہ کیا معاملہ ہے کہ وہ جو وقت کا سب سے بڑا کام تھا، اس کے لیے کسی کے قدم کو جنبش نہ ہوئی، سب دوسرے دوسرے کاموں میں رہ گئے، یا حجروں کا کام یا مدرسوں کا لیکن میدان والا معاملہ کسی سے بھی بن نہ آیا۔ وہ گویا ایک خاص پہناوا تھا جو صرف ایک ہی جسم کے لیے تھا اور ایک ہی پر چست آیا۔ دنیا اس کے لیے خلعت عظمت اور تشریف قبول کاندھے پر ڈالے منتظرکھڑی تھی، زمانہ اپنے سارے زمانوں کے ساتھ کب سے اس کی راہ تک رہا تھا، امیدواروں پر امیدوار یکے بعد دیگرے گزرتے رہے، مگر اس کا مستحق کوئی نہ نکلا:
بارغم او عرض بہر کس کہ نمودم
عاجز شد وایں قرعہ بنامم زسر افتاد‘‘۔
(تذکرہ،ص:۲۴۴-۲۴۶،میری لائبریری،لاہور،فروری ۱۹۶۰ء)
معروف محقق مالک رام صاحب(۱۹۰۶ء-۱۹۹۳ء) جنھوں نے ’’تذکرہ‘‘ کو ایڈیٹ کیا ہے اور آخر میں حواشی اور اشاریے تحریر کیے ہیں، ان سے ایک بڑی بھول یہ ہوگئی ہے کہ انھوں نے اس اقتباس کا مصداق سید احمد شہید کو قرار دیا ہے جب کہ مولانا آزاد کا ایک ایک لفظ بتارہا ہے کہ اس کے مصداق شاہ اسماعیل شہید ہیں۔
زیر مطالعہ کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ اسی مرد مجاہد کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب اصلاً عربی میں ’’رد الاشراک‘‘ کے نام سے لکھی گئی تھی، اس کے دو ابواب تھے، پہلے باب میں توحید اور شرک کا بیان تھا جب کہ دوسرے باب میں اتباع سنت اور اجتناب بدعت کے مباحث تھے۔ عربی کتاب مختصر ہے، اس میں قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کو مختلف موضوعات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے۔ شاہ اسماعیل شہید نے کتاب کے باب اول کو اردو زبان میں تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ منتقل کیا اور کتاب کے دوسرے باب کو اردوجامہ ’’تذکیر الاخوان‘‘ کے نام سے ان کے شاگرد مولانامحمد سلطان ؒ نے پہنایا ہے۔
اصل عربی کتاب ’’ردالاشراک‘‘ جماعت اہل حدیث کی محبوب شخصیت اور ہمارے محترم فاضل دوست شیخ محمد عزیز شمس ؒ(۱۹۵۷-۲۰۲۲ء) کی تحقیق وتخریج کے ساتھ ۱۹۸۳ء میں ’’المکتبۃ السلفیۃ،لاہور‘‘ سے شائع ہوچکی ہے۔ اسی ادارے نے اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۸ء میں شائع کیا تھا جو اب انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔ خاکسار نے ’’ردالاشراک‘‘ پر ایک مفصل مضمون لکھا ہے جو thefreelancer.co.inپر موجود ہے۔
برصغیر کے دینی ماحول میں فکرونظر کے جو انحرافات پائے جاتے ہیں اور شرک وبدعت کے جن مظاہر نے توحید وسنت کی چمک کو دھندلا کردیا ہے، اس کی نشان دہی کے لیے خاص طور پر دو کتابیں تصنیف کی گئیں، ایک یہی تقویۃ الایمان اور دوسری تحریک شہیدین سے تعلق رکھنے والے مولانا خرم علی بلہوری(متوفی:۱۲۷۳ھ) کی نصیحۃ المسلمین۔ ان دونوں کے مطالعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ توحید وسنت کے خلاف کن کن باتوں نے مسلمانوں کی زندگی میں دین کی شکل اختیار کرلی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے خلاف عجمی تصوف کے پرستاروں نے بڑا واویلا مچایا، ان کی ذات کو مطعون کیا گیا اوران پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ بدعتی حلقوں میں آج بھی یہی ہنگامہ برپا ہے جب کہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ مخالفین کی نناوے فیصد تعدادنے آج تک کتاب کا مطالعہ بھی نہیں کیا ہوگا۔ ایک مرد مجاہد اور عالم ربانی سے یہ عداوت!!
شاہ اسماعیل شہید اور ان کی برپا کی ہوئی تحریک جہاد کی مخالفت کا پس منظر یہ ہے کہ انگریز بہادر کو یہاں آکر یہ اندازہ ہوا کہ اس ملک کا مسلمان دینی اعتبار سے خانوادۂ شاہ ولی اللہ سے وابستہ ہے جس کی قیادت شاہ اسماعیل شہید کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے اس دینی اتحاد اور مرکز کو توڑنے کے لیے انھوں نے ہمارے چند علماء کی وفاداریاں خریدیں اور انھیں میدان میں اتار کر ایسے مسائل میں ملت کو الجھادیا جن کی دینی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں تھی اور نہ وقت ان مسائل کا متقاضی اور متحمل تھا۔ امتناع نظیر یعنی کیا اللہ محمد ﷺ جیسا کوئی اور نبی پیدا کرنے پر قادر ہے اور امکان کذب باری تعالیٰ یعنی کیا اللہ جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے۔ کوئی بھی ہوش مند اور دینی بصیرت رکھنے والا سمجھ سکتا ہے کہ ایک طرف تقریباً آٹھ سوسالہ مسلم حکومت زمیں بوس ہوچکی ہے، مسلمانوں کی عظمت رفتہ خاک میں مل چکی ہے اور ہمارے چند اصحاب جبہ ودستار ان نامعقول اور بے کار قسم کے مسائل میں مسلمانوں کو الجھانے میں مصروف ہیں۔ سب اللہ کے دربار میں ہیں، کس کی کیا نیت تھی، کون ملت کے لیے مخلص تھا اور کون دین کے دشمنوں کا آلۂ کار بناہوا تھا، ان سب کا حساب لینے کے لیے اللہ کی ذات کافی ہے۔
شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کی یہ کتاب بعض اہل حدیث مدارس میں داخل نصاب ہے۔ طلبہ وطالبات کے لیے مشکل یہ تھی کہ وہ کتاب کے موضوعات پر اپنی گرفت مضبوط نہیں کرپاتے تھے کیوں کہ عمر کے اس مرحلے میں اپنی درسیات میں جو کتابیں وہ پڑھتے ہیں، ان کا انداز بالکل جداگانہ ہوتا ہے، ان میں چھوٹے چھوٹے اسباق ہوتے ہیں اور ہر سبق کے ذیل میں ضروری تمرینات ہوتی ہیں جن سے کتاب کو یاد کرنے اور اس کا امتحان دینے میں ان کو آسانی ہوتی ہے۔ کتاب کی اہمیت، نصاب تعلیم میں اس کی شمولیت اور ضرورت کی وجہ سے لازم تھا کہ کتاب کو درسی کتاب کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ مجھے انتہائی خوشی ہورہی ہے کہ برادر محترم شیخ ابوالمرجان فیضی صاحب استاذ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں نے کتاب کی تسہیل کی ہے اور اسے سوال وجواب کے انداز میں اس طرح مرتب کیا ہے کہ شاہ اسماعیل شہید کی کوئی بات نظر انداز نہیں ہوئی ہے اور شاہ صاحب نے جہاں زیر بحث مسئلے کی تشریح وتوضیح فرمائی تھی، اسے انھوں نے جوابات کے ذیل میں درج کردیا ہے جسے استاذ طلبہ کو سمجھادیا کریں اور جوابات کو زبانی یاد کرلیں تاکہ امتحان کے موقع پر وہ سوالوں کے جواب تحریر کرسکیں۔ عزیز گرامی نے ایک کام یہ بھی کیا ہے کہ مشکل الفاظ، بعض رسومات، اصطلاحات اور فارسی اشعار کی شرح وتوضیح کتاب کے حاشیہ میں کردی ہے جس سے طلبہ اور اساتذہ دونوں فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
یہ ایک پتہ ماری کا بڑا مشکل کام تھا جسے عزیز مکرم نے بہ حسن وخوبی مکمل کیا ہے۔ اللہ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے اور اصحاب مدارس کو توفیق بخشے کہ وہ اب اسی ایڈیشن کو درس میں شامل کریں۔ اس سے نہ صرف جماعت کے ایک نوجوان صاحب قلم کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ دوسرے نوجوانوں کو بھی اس طرح کے علمی کاموں کی ترغیب ملے گی۔ الحمد للہ اس وقت جماعت اہل حدیث کے پاس نوجوان علماء کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو تحریر وتصنیف کا ستھرا اور پاکیزہ ذوق رکھتی ہے۔ کاش ان کی صلاحیتوں کو ہم جماعت کی علمی ترقی کے لیے استعمال کرپاتے۔
آخر میں عزیز محترم کو تین ضروری باتوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں: (۱)مولانا غلام رسول مہر رحمہ اللہ(۱۸۹۵ء-۱۹۷۱ء)نے تقویۃ الایمان کے متن کو جس انداز میں مرتب کیا ہے، وہ کسی قدیم متن کو ایڈیٹ کرنے کے اپنے اصولوں سے میل نہیں کھاتا۔ میں نے تقویۃ الایمان کے بعض نسخے دیکھے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا غلام رسول مہر نے متن میں ضرورت سے زیادہ مداخلت کی ہے۔ شاہ صاحب کی زبان اردو کے ابتدائی دور کی زبان ضرور ہے لیکن وہ اتنی مشکل نہیں کہ اسے سمجھا نہ جاسکے۔ بعض الفاظ کے املا، رموز و اوقاف اور بعض جملوں کے الفاظ کی ترتیب بدل دینے سے عبارت رواں ہوسکتی ہے۔ اگر آپ یہ کام کرسکیں تو تقویۃ الایمان کا اپنا متن محفوظ ہوجائے گا۔ (۲)دوسری بات یہ عرض کروں گا کہ دوسرے ایڈیشن میں اسے اسباق کی شکل میں ڈھال دیں اور تمرینات کا اضافہ کرکے اسے ایک درسی کتاب کی طرح بنادیں۔ (۳)تیسری بات یہ ہے کہ کتاب کا سائز بڑا کردیں۔ ناشر کاغذ عمدہ استعمال کرے اور سرورق بھی خوبصورت اور دیدہ زیب بنائے۔ بدقسمتی سے اردو اور دینیات کی کتابیں ہمارے یہاں معروف عصری ذوق کا ساتھ نہیں دے پارہی ہیں۔
۲۴؍جون ۲۰۲۴ء،ایک بجے شب
ماشاءاللہ اہم اور عظیم کام ہے۔ اس عظیم کتاب پر کرنے کے متعدد ناحیے ہیں۔ خوشی کا مقام ہے کہ شیخ ابو المرجان صاحب نے اس کی جانب توجہ دی۔ اس عظیم کتاب کے اصل متن کی بازیافت بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کی جانب حضرت سلفی صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ بارك الله فيكم اجمعين.