بھائی عبدالتواب عرف شبّن: جماعت اہل حدیث علی گڑھ کا ایک مخلص اور بے لوث ساتھی

رفیق احمد رئیس سلفی تذکرہ

علی گڑھ کی پینتیس سالہ زندگی میں بہت سے مخلص اور مسلک اور جماعت کے بے لوث خادم ملے جن کی وجہ سے میرے لیے یہاں کی علمی اوردعوتی زندگی آسان بھی ہوئی اور وسیع بھی، جو قدم قدم پر ساتھ رہے اور ایک بے غرض دوست اور ساتھی کی حیثیت سے میرے ساتھ کھڑے رہے، جماعتی اور تنظیمی سیاست کی تپش سے دور رکھا اور حاسدین اور مخالفین کے سامنے دیواربنے رہے۔ ان میں میرے دو بزرگ صبیح الدین عرف بابو بھائی (پھول چوراہا) اور بھائی عبدالقیوم (کالا محل) کا نام بہت اہم ہے جو پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ آج بھی زندگی کے ہر موڑ پر ان کی یاد آتی ہے اور دل سے ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور اپنے محبوب بندوں کی صف میں جگہ دے، دونوں کے بچے الحمدللہ دین دار بھی ہیں اور اپنی تجارت میں کامیاب بھی، اپنے والد کی طرح وہ بھی مجھ سے محبت کرتے اور وہی احترام دیتے ہیں جو انھوں نے اپنے باپ سے دیکھا تھا۔ اللہ رب العزت ان بچوں کو نیک اور صالح بنائے رکھے ۔ آمین

صبیح الدین عرف بابو بھائی کا مجھ سے تعلق ایک باپ اور بیٹے جیساتعلق تھا، انھوں نے اپنے اجداد کی مسجد (موتی مسجد) میں آنے والے ایک امام اور خطیب کو وہی اہمیت دی جو دینی اور شرعی اعتبار سے دینی چاہیے۔ دنیادار لوگ جب مساجد کے نظام پر مسلط ہوجاتے ہیں تو وہ خود کو علماء سے زیادہ بڑا عالم اور سیاسی اور سماجی مسائل کی تفہیم میں ان سے زیادہ سمجھ دار باور کرانے لگتے ہیں۔ عین نوجوانی اور ناتجربہ کاری کے سالوں میں میرا واسطہ کچھ ایسے ہی لوگوں سے ہوا اور قدم قدم پر مشکلات پیدا ہوئیں، ان دنوں میں ایک سائبان کی طرح جو شخصیت میرے ساتھ رہی، وہ بابوبھائی (صبیح الدین) کی تھی۔الحمدللہ ان کے تمام بیٹے راشد، ارشد، زکریا، طیب، ریان اور عبداللہ مجھ سے وہی خصوصی تعلق رکھتے ہیں جو ان کے والد صاحب رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام بھائیوں کو دین اور دنیا کی تمام خوشیاں عطا فرمائے۔آمین

صبیح الدین مرحوم عرف بابوبھائی ہی کا کارنامہ ہے کہ انھوں نے مسجد شمس قبائی میں خطبہ جمعہ کا میرے ذریعے آغاز کرایا اوراس وقت مسجد کے متولی اپنے چچا حاجی سمیع الدین مرحوم سے اجازت لے کر مسجد کی دوتین دکانیں بنوائیں اور مسجد کی آمدنی میں اضافہ کرکے میرے مشاہرے کا انتظام کیا۔ اللہ تعالیٰ بابو بھائی اور ان کے چچا حاجی سمیع الدین صاحب کو اس کا صلہ عطا فرمائے۔ ہمارے ہی حلقے کے بعض حضرات کو یہ پسند نہیں تھا کہ میرا خطبہ جمعہ مسجد میں جاری رہے، انھوں نے حاجی سمیع الدین صاحب کے بیٹے محمد اطہر شمسی صاحب(مسجد کے اس وقت کے متولی) سے مسلسل تین دنوں تک بات کی اور ان پر زور دیا کہ رفیق کی جگہ کسی اور کو خطیب مقرر کردیں۔ اطہر صاحب نے ان کی باتیں غور سے سنیں اور جواب دیا کہ مولانا صاحب! رفیق صاحب کی تقرری یہاں میرے والد صاحب نے کی تھی، وہ خود پابندی سے رفیق صاحب کا خطبہ سنتے تھے، میری ہمت نہیں ہے کہ میں رفیق صاحب کو منع کرسکوں، وہ جب تک چاہیں گے، یہاں جمعہ کے خطبات دیتے رہیں گے۔ علی گڑھ میں میری دعوتی زندگی کی یہ وہ مشکلات ہیں جن سے مجھے قدم قدم پر جوجھنا پڑا ہے۔ حسد بھی بہت بری بلا ہے، یہ اگر ایک بار لگ جائے تو انسان کو جلاکر ختم کردیتی ہے۔ اللہ ایسے حاسدوں سے ہر ایک کی حفاظت فرمائے۔آمین

علی گڑھ میں میرے مخلص احباب کی الحمد للہ کوئی کمی نہیں ہے، سول لائنس میں بھی اور قدیم شہر میں بھی۔ یہ تمام احباب دل سے مجھ سے محبت کرتے ہیں، مشکلات اور پریشانیوں میں کام آتے ہیں اور مخالفین اور حاسدین کی شرارتوں سے مجھے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں بھائی خلیل الرحمن، ان کے بڑے بھائی عبدالرحمن اور چھوٹے بھائی حفیظ الرحمن اور ان بھائیوں کے بچوں، عبدالرحیم، عبدالعزیز، عبدالحق، عبداللہ، عبدالرشید اور عبدالرقیب کی محبت مثالی اور قابل ستائش ہے۔ بھائی خلیل کا گھرانہ نیا نیا اہل حدیث ہوا ہے اور اپنے مسلک کا الحمدللہ سختی سے پابند ہے۔ پورا گھرانہ دل سے مجھ سے محبت کرتا اور میرا احترام کرتا ہے اور میری تمام خوشیوں اور غموں کا ساتھی ہے۔ اللہ ان سب کو شاد وآباد رکھے اور دینی اور دنیوی ترقی اور خوشیوں سے ہم کنارکرے۔آمین

۲۲؍دسمبر ۲۰۲۲ء کو رات ساڑھے دس بجے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ میں میرے ایک انتہائی مخلص دوست،بھائیوں سے زیادہ عزیز اور دل سے پیار کرنے والے ساتھی شبن بھائی کی وفات ہوگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، اللھم اغفرلہ وارحمہ وأدخلہ فی رحمتہ۔ ان کا اصلی نام عبدالتواب تھا لیکن وہ اپنے عرفی نام شبن بھائی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ان کی جدائی سے ایسا لگتا ہے کہ علی گڑھ کی زندگی سونی ہوگئی ہے۔ ان کی وہ پاٹ دار اوردم دار آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ، جس سے ہم لوگوں کو حوصلہ ملتا تھا۔

شبن بھائی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن علماء کی صحبت اور اپنے ذاتی مطالعہ کی وجہ سے انھیں اسلام اور اس کی تعلیمات کا وہ سرا مل گیا تھا جس کی وجہ سے وہ دینی مسائل کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے۔ مسلک اہل حدیث اور اس کی بنیادں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ کوئی مسئلہ سامنے آتا تو ان کی چھٹی حس کام کرتی اور فوراً وہ فون کرکے اس کی تصدیق طلب کرتے اور مسئلے کے ہر پہلو پر گفتگو کرتے۔

بھائی شبن بڑے جفاکش اور محنتی آدمی تھے۔ انھیں زمانے کے سردوگرم حالات کا مکمل ادراک تھا۔ ان کے والدین یکے بعد دیگرے بچپن میں ہی انتقال کرگئے تھے۔ ان کا چھوٹا بھائی محمد غوث اس وقت گود میں تھا۔ بھائیوں اور بہنوں کی ذمہ داری انھوں نے اس وقت نبھائی جب ابھی ان کی عمر پڑھنے اور کھیلنے کودنے کی تھی۔ انھوں نے علی گڑھ کے مشہور ٹیلر ’’البرٹ‘‘کے یہاں ملازمت کرلی اور جلد ہی اپنے کام میں ماہر ہوگئے ،تھوڑے دنوں کے بعد اپنی خود کی دکان کھول لی۔ شادی ہوئی اور اللہ نے ایک ایسی بیوی بطور نعمت عطا فرمائی جس نے مشکل وقت میں ان کا مکمل ساتھ دیا۔ ان کے چھوٹے بھائیوں کو اپنے بیٹوں کی طرح پالا پوسا اور یتیم بچوں کو ایک ماں کا پیار دیا۔زندگی کی گاڑی مزید آگے بڑھی تو علی گڑھ کی صنعت میں آگئے اور مختلف نوعیت کے کام کیے ۔ اس محنت اور لگن کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہارڈ ویر کی بڑی بڑی مشینیں بنانے لگے اور الحمد للہ گزشتہ کئی سالوں سے زندگی بڑی حد تک خوشگوار ہوگئی تھی۔

شبن بھائی اپنے اہل خانہ سے بے حد پیار کرتے تھے۔ اہلیہ کی طبیعت گزشتہ کئی سالوں سے ناساز رہتی ہے۔دنیا جہان کے ڈاکٹروں سے رجوع کرکے ان کا مسلسل علاج کراتے رہے۔اسی طرح کسی بھائی کی طبیعت خراب ہوجاتی تو بے چین ہوجاتے اور دواعلاج کرانے میں کبھی روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔جن دنوں وہ بیمار ہوئے اور ہارٹ اٹیک ہوا ،افسوس ہے ہم ان کے لیے کچھ نہ کرسکے ،بھائی اور بچے کف افسوس ملتے رہے اور بھائی شبن ہم سے جدا ہوگئے۔ اللہ کے فیصلے کے آگے انسان کتنا بے بس ہے۔ اپنی بیماری میں اپنی ذات کے علاوہ انھیں اپنے بچوں کی فکر تھی۔ میں نے امراض قلب کے ماہر اپنے دوست ڈاکٹر اطہرکمال سے جب رجوع کیا اور انھیں رپورٹ بھیجی تو انھوں نے ایک پرائیوٹ اسپتال میں لے جانے کا مشورہ دیا۔انھوں نے مجھے بتایا کہ رفیق صاحب یہ کوئی معمولی اٹیک نہیں ہے بلکہ معاملہ کافی تشویش ناک ہے۔ جب میں نے بچوں سے مشورہ کیا اور بچوں کے ذریعے شبن بھائی کو پتا چلا کہ فلاں پرائیویٹ اسپتال میں لے جانے کو کہا جارہا ہے تو انھوں نے مجھے بلاکر اپنی نحیف آواز میں کہا کہ مولانا وہاں مت لے جائیں ،وہاں وہ اپنے بہنوئی کے علاج کی صورت حال دیکھ چکے تھے ۔میں بے بس ہوگیا ۔ڈاکٹر دوستوں کی ناراضگی بھی مول لینی پڑی ۔ میرے یہ ڈاکٹر دوست الحمد للہ میرا بڑا خیال رکھتے ہیں اور بے لوث مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ ان دوستوں کو سرسبز وشاداب رکھے اوروہ اسی طرح مسیحائی کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔ اہل خانہ اور خود شبن بھائی کی مرضی کے خلاف میں کوئی قدم نہیں اٹھاسکتا تھا اور بے چارگی کے عالم میں ایک دوست کو دنیا سے رخصت ہوئے دیکھتا رہ گیا۔ جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو ان کی یہی ادا یاد آرہی ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے اپنے بچوں اور بھائیوں کوکسی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے ۔ان کو یہ یقین اور اعتماد تھاکہ اللہ نے اگر زندگی لکھی ہے تو اسی علاج سے شفا مل جائے گی اور اگراللہ نے موت کا فیصلہ کردیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت کیسے بچاسکتی ہے۔اللہ ان کے اس یقین اور اعتماد کی لاج رکھ لے اور اپنے اس بندے کی بال بال مغفرت فرمائے۔

شبن بھائی کا گھرانہ دیوبندی اور بریلوی مسلک کا پابند رہا ہے۔انھوں نے علی گڑھ کے بعض دوستوں کی صحبت میں رہ کر اہل حدیث مسلک اختیار کرلیا تھا اور پھر جب ہم لوگوں نے ایک دعوتی مہم کا آغاز کیا تو اس سے وابستہ ہوگئے اور ایسے وابستہ ہوئے کہ زندگی کی آخری سانس تک یہ رشتہ باقی رہا۔ علمائے اہل حدیث سے تعلق اور محبت ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ مجھ سے قریب ہوئے اور پھر قریب ہوتے چلے گئے۔ میرا گھر سول لاینس یونیورسٹی کے علاقے ہمدرد نگر،جمال پور میں ہے لیکن خطبہ جمعہ کا سلسلہ گزشتہ پینتیس(۳۵)سالوں سے علی گڑھ کے قدیم شہر میں ہے۔ گزشتہ بارہ پندرہ سالوں سے جمعے کے دن دوپہر کا کھانا میں ان کے ساتھ کھاتا ہوں ۔ اس کے لیے وہ خصوصی اہتمام کرتے ،بار بار پوچھتے کہ کیا کھانا پسند کریں گے۔ ان کی اہلیہ محترمہ بھی بڑی محبت اور اہتمام سے کھانے تیار کرتیں اور پور ا گھرانہ ایک ساتھ کھانا کھاکر خوش اور مطمئن ہوتا ،ادھر جب سے پتھری کی وجہ سے میں نے پتے کا آپریشن کرایا ہے ، نظام ہضم درہم برہم ہوگیا ہے،مرغن غذائیں پریشانی پیدا کرتی ہیں،میں نے بہت منع کیا کہ اب یہ التزام اور اہتمام بند کردیں لیکن وہ اس پر کبھی راضی نہیں ہوئے اور کہا کہ آپ کے لیے سادہ کھانا تیار کراؤں گا۔ علی گڑھ میں گوشت خوری کی ایسی عادت پڑی تھی کہ اب بھی گوشت سے بہت دنوں تک فاصلہ بنائے رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ آپ کو شبن بھائی کی محبت کا اندازہ اس سے بھی ہوگا کہ جب برادر عزیزڈاکٹر عبدالحق بن مولانا عبدالسلام مدنی نے میرے پتے کاآپریشن کیا اور میں ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبدالباسط کے اسپتال میں تھا، کئی دنوں تک سادہ کھانا کھانے سے طبیعت مکدر ہوگئی تو میں نے اپنی بیوی کو بتائے بغیر شبن بھائی کو فون کیا کہ یار سادہ کھانا کھاتے کھاتے بور ہوچکا ہوں، گوشت تیار کراکے بھیج دو۔ انھوں نے ایک مریض کی رعایت سے بکرے کا گوشت بنواکر بھیجا۔میری بیوی نے دیکھا تو ناراض ہوگئی اور کہا کہ ڈاکٹر منع کرتے ہیں اور آپ سے صبر نہیں ہوتا ۔میں نے کہا کہ ایک دو وقت بد احتیاطی کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ڈاکٹر عبدالباسط صاحب نے بھی میری تائید کی اور اس دن میں نے خوب شکم سیر ہوکر کھانا کھایا اور الحمد للہ اس کا کوئی سائیڈ افیکٹ سامنے نہیں آیا۔

شبن بھائی کے بچوں کا اصرار ہے کہ میں ان کے والد کا جاری کیا ہوا سلسلہ باقی رکھوں لیکن کیسے ہمت جٹاپاؤں گا کہ اس بھائی کے بغیر دستر خوان پر بیٹھوں جو بڑی محبت سے میری پسند کی چیزیں برتن میں ڈالتا تھا اور اصرار کرکے کھلاتا تھا۔ اللہ بچوں کی محبت قائم رکھے اور میں ان کے گھر کو خوش گوار اور بہتر بنائے رکھنے میں اپنا خصوصی کردار ادا کرتا رہوں۔

اللہ نے انھیں تین بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا ہے۔ انھوں نے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت بڑی محنت اور ذمہ داری سے کی ہے۔ بڑی بیٹی نے پیرا میڈیکل کورس کیا ہے اور اب وہ ماشاء اللہ اپنے پھوپھی زاد بھائی سے منسوب ہوکر دو بچیوں کی ماں ہے۔دوسری بیٹی فاصلاتی نظام تعلیم سے بی۔اے کررہی ہے جب کہ تیسری بیٹی بارہویں کرنے کے بعدبی۔ایس،سی کی تیاری کررہی ہے۔ چھوٹا بیٹا محمد ایوب ماشاء اللہ حافظ قرآن ہے،اس نے ہائی اسکول پاس کیا ہے ۔اس وقت وہ اپنے کارخانے کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ بڑے بیٹے محمد عادل ہیں ،وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی۔ٹیک کے طلب علم ہیں۔ والد صاحب کی صحبت میں رہ کر وہ کئی سالوں سے اپنے گھر بننے والی مشینوں کو مزید بہتر بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بارہویں کے بعد یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں ڈپلومہ بھی کیا ہے۔ الحمد للہ ذہین اور محنتی ہیں ۔اپنے گھر کے کاموں میں پوری طرح مصروف رہنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اپنے خصوصی تعلق کی وجہ سے ذمہ داری میری تھی کہ نماز جنازہ میں پڑھاؤں لیکن محمد عادل نے بتایا کہ اپنی ایک بیماری میں والد صاحب نے پہلے سے مجھے وصیت کررکھی ہے کہ ان کی نماز جنازہ میں پڑھاؤں ۔ میں نے کہا کہ اس سے بڑی خوشی اور سعادت کی بات کیا ہوگی کہ باپ کی نماز جنازہ بیٹا پڑھائے ۔ آپ اندازہ کیجیے کہ باپ کی وفات ہوئی ہے ،خود بھی غموں سے نڈھال ہے،والدہ، بھائی بہن اور دوسرے عزیزواقارب اپنے سرپرست کی جدائی سے بے حال ہیں،ایسے عالم میں محمد عادل نے نماز جنازہ کا طریقہ سیکھا ،دعائے جنازہ یاد کی ،نہ صرف معروف دعا بلکہ صحیح مسلم میں موجود اللھم اغفرلہ والی لمبی دعا بھی حفظ کی ،معنوں سے سمجھا اور پھر بڑے اعتماد ،درد اور سوز سے باپ کی نماز جنازہ اس طرح پڑھائی کہ تمام نماز جنازہ کے شرکاء کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔دل سے جو دعا نکلتی ہے،اس میں جو درد وسوز ہوتا ہے ،اس کا بدل کچھ نہیں ہوسکتا۔ غالباًعادل نے اپنی زندگی میں پہلی بار نماز جنازہ پڑھائی تھی اور جس انداز میں پڑھائی ،اس سے مجھے نہ صرف اطمینان ہوا بلکہ شبن بھائی کی تربیت پر رشک آیا کہ انھوں نے اپنے بچوں کی تربیت کتنے بہتر انداز میں کی ہے۔ نماز جنازہ سری بھی پڑھ سکتے ہیں اور جہری بھی ،میں نے عادل سے کہا کہ اگر اعتماد نہ ہو اور بھولنے کا خدشہ ہو تو سری پڑھ دینا لیکن انھوں نے دعاؤں کو حفظ کیا اور نماز جنازہ جہری پڑھائی ۔ باپ کی وصیت کو پوری کرنے کے لیے انھوں نے اپنے مغموم دل کو قابو میں رکھا اور الحمد للہ اپنے والد محترم کی وصیت کو خوبصورتی کے ساتھ پورا کیا۔ ایسے بیٹے والدین کا فخر ہوتے ہیں،مجھے امید ہے کہ باپ کی تربیت کا اثر عادل کی زندگی میں برقرار رہے گا اور وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنی والدہ ،بھائی بہنوں ،چچاؤں اور پھوپھیوں کا خیال رکھیں گے۔ایک حدیث میں ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ والدین کی وفات کے بعد ان کے ساتھ حسن سلوک کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے پیاروں،دوستوں اور ان کے عزیزوں کا خیال اسی طرح رکھا جائے جس طرح ان کا خیال ان کے والدین اپنی زندگی میں کیا کرتے تھے۔

شبن بھائی کے ساتھ میں ان کے فیملی ممبر کی حیثیت سے رہا۔گھر کے بہت سے مسائل میں وہ مجھے بھی شریک مشورہ رکھتے اور میں اپنے علم کے مطابق گھر کے مسائل کو سلجھانے میں ان کی مدد کرتا۔ کبھی ان کے اور میرے فیصلے میں تضاد اور ٹکراؤ بھی ہوتا تو اس کو برا نہیں مانتے تھے بلکہ اپنے موقف کو مختلف انداز میں پیش کرکے خود مجھے اور متعلقین کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے۔ میرے سامنے منجھلے بھائی عبدالجواد اور چھوٹے بھائی محمد غوث کی شادی کے معاملات آئے ۔ بہت سی پیچیدگیاں اور الجھنیں بھی پیدا ہوئیں لیکن آج جب کہ بہت سے حالات ومسائل سامنے آچکے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ شبن بھائی نے جو بھی قدم اٹھایا،اپنے بھائیوں کی بہتری کے لیے اٹھایا ،وہ کبھی بھی اپنے ان بھائیوں کا برا نہیں چاہتے تھے جن کو والدین کی وفات کے بعد انھوں نے اپنے بچوں کی طرح پالا پوسا تھا۔ آج جب شبن بھائی ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، بھائیوں کو لازمی احساس ہوگا کہ ہمارے بڑے بھائی نے ماں باپ بن کر کس طرح ہماری پرورش کی تھی اور کاروبار اور ہنرمندی میں کس طرح آگے بڑھایا تھا۔ ان کی اہلیہ محترمہ نے بھی کبھی شوہر کے حکم اور ان کے منشا کے خلاف بھائیوں کے ساتھ کبھی کوئی زیادتی نہیں کی بلکہ اپنے دیوروں کو وہی پیار دیا جو ایک ماں اپنے بچوں کو دیتی ہے۔مجھے امید ہے کہ عبدالجواد اورمحمد غوث اپنی بیوہ بھابھی کا نہ صرف خیال رکھیں گے بلکہ دکھ کی اس گھڑی میں ان کے غموں کو ہلکا کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

بھائی شبن نے اپنے منجھلے بھائی عبدالجواد عرف بوبی کی شادی اپنی چھوٹی سالی سے کی تھی۔ اس شادی سے بہت سے لوگ متفق نہیں تھے اور طرح طرح کے اندیشے ظاہر کیے جارہے تھے کہ یہ رشتہ نہیں نبھے گا اور ٹوٹ جائے گا لیکن شادی کے بعد تمام اندیشے غلط ثابت ہوئے ۔شادی کے بعد انھوں نے اور ان کی اہلیہ نے عبدالجواد کی اہلیہ کا بہت خیال رکھا اور گھر کی بہن اور بیٹی جیسی محبت دی ۔انھوں نے بھی اپنے اس رشتے کو مضبوط رکھنے کے لیے اپنی بہن اور بہنوئی کا بھرم باقی رکھا۔ اور اس محبت اور اپنائیت کو سمجھا جو شبن اور ان کی اہلیہ نے انھیں دیا۔ آج وہ الحمد للہ دوپیاری بیٹیوں کی ماں ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ پرسکون اور پرمسرت زندگی گزار رہی ہے۔ جن قریبی عزیزوں کو اس رشتے سے اتفاق نہیں تھا اور وہ طرح طرح کے خدشات کا اظہار کررہے تھے،اب وہ بھی اس رشتے سے خوش اور مطمئن ہیں۔عبدالجواد کی اہلیہ کی بھی اب ذمہ داری ہے کہ بہنوئی کی وفات کے بعد اپنی بہن کو آرام پہنچائیں اور ان محبتوں کو یاد رکھیں جو انھیں اس گھر میں ملا ہے اور مل رہا ہے۔ ان کی بڑی بیٹی ہدیٰ تو اپنی خالہ کو ہی اپنی ماں سمجھتی ہے کیوں کہ بچپن سے خالہ نے اسے اپنے سینے سے لگاکر رکھا ہے اور ایک ماں کی ذمہ داریاں پوری کی ہیں۔ شبن کی اہلیہ کو بچوں سے فطری محبت ہے اور اپنی اس محبت کو انھوں نے اول دن سے اس گھر میں برقرار رکھا ہے۔

شبن بھائی کو اس وقت ایک بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا جب ان سے ایک صاحب نے یہ کہا کہ شبن یا تو مجھے قبول کرو یا رفیق کو۔ انھوں نے بہت سمجھایا کہ مولانا مجھے آپ دونوں کی ضرورت ہے،میں دونوں کی عزت کرتا ہوں اور دونوں سے استفادہ کرتا ہوں۔ مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ میں خود سے کسی کو چھوڑدوں ۔ وہ صاحب ناراض ہوگئے اورشبن بھائی سے کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن شبن بھائی نے اس کی پرواہ کبھی نہیں کی اور میری ذات سے جو ان کا والہانہ تعلق اور لگاؤ تھا، اس میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ حدیث میں ایک مومن کی صفت یہی بیان ہوئی ہے کہ اس کی محبت اور دشمنی صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے، اس میں وہ اپنی خواہشات کو داخل نہیں کرتا۔ شبن بھائی کو اللہ نے یہی مومنانہ فراست عطا کی تھی جس کی بنیاد پر وہ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتے تھے۔

شبن بھائی جماعت اہل حدیث کے ایک نڈر اور باہمت شخص تھے، جس بات کو کتاب وسنت کی روشنی میں دلائل کے ساتھ حق سمجھتے تھے ،اس کے لیے نہ کوئی سمجھوتا کرتے تھے اور نہ کسی سے خوف کھاتے تھے۔ اپنے محلے کی جس دیوبندی مسلک کی مسجد میں وہ نماز پڑھاکرتے تھے،اس میں کئی ایک مسائل کے حوالے سے مسجد کے امام سے ان کی کشمکش ادب اور تہذیب کے دائرے میں چلتی رہی اور اپنے دلائل سے انھوں نے مسجد کے بہت سے نمازیوں کو مطمئن کیا اور ان کو بھی مسائل کی نوعیت سمجھ میں آئی۔ علمائے احناف کی مشکل یہ ہے کہ وہ مساجد میں کتب ستہ(بخاری،مسلم،ابوداود،ترمذی،نسائی اور ابن ماجہ) کا درس نہیں دیتے اور نہ کسی کو دینے دیتے ہیں ،نتیجہ یہ ہے کہ مسلک اہل حدیث کے جن مسائل سے ان کو پریشانی ہوتی ہے ،وہ ان کے سلسلے میں اپنی عوام کو اندھیرے میں رکھتے ہیں اور مسلک اہل حدیث اور اس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بارے میں پروپیگنڈہ کرتے اور غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں۔ شبن بھائی نے دسیوں مسائل کو حدیث کی روشنی میں مجھ سے تیار کرایا اور عوام میں اسے پھیلایا اور تقسیم کیا۔

شرک وبدعت اور غیر شرعی رسوم وروایات سے وہ بہت دور رہے ،اپنے بچوں اور اہل خانہ کو بھی ان سے دور رکھا اور اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی حقائق سے آگاہ کرتے رہے ۔ کسی غیر شرعی تقریب میں وہ شریک ہونا گوارا نہیں کرتے تھے خواہ وہ اپنے کسی عزیز اور رشتے دار ہی نے کیوں نہ منعقد کی ہو۔ وہ خود برابر قرآن کا ترجمہ پڑھتے ،انھوں نے صحیح مسلم کا اردو ترجمہ بھی گھر میں رکھ چھوڑا تھا جسے وہ خود اور ان کے بچے اہلیہ سمیت پڑھا کرتے تھے ۔ جہاں کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو فون پر یا ملاقات ہونے پر اسے پوچھتے اور مسائل کی نوعیت کا علم حاصل کرتے۔ دنیاوی معاملات ہوں یا کاروبار کی مختلف صورتیں ،اگر انھیں معلوم ہوجاتا کہ اسلام میں یہ تجارت یا تجارت کی نوعیت جائز نہیں ہے تو اس کے قریب بھی نہیں جاتے اور اپنے بھائیوں اور بچوں کو بھی اس سے دور رکھتے۔

سود اسلام میں حرام ہے اور اس میں کسی طرح کی شرکت جائز نہیں ہے۔ مجھے اس وقت دوواقعے یاد آرہے ہیں جن سے شبن بھائی کی دین داری اور ان کے تقوے کا پتا چلتا ہے۔ ہماری ہی جماعت کے ایک کاروباری شخص نے اپنی دکان کی خریداری کے معاملات طے کرانے کے لیے انھیں بلایا ۔اسی دکان میں وہ پہلے کرایہ دار تھے،اب اسی کو خریدنا چاہتے تھے، اس کی ایک بڑی رقم وہ پہلے ادا کرچکے تھے۔ شبن بھائی کے سامنے جب یہ بات آئی کہ وہ کئی سالوں پہلے ادا کی گئی رقم پر سود بھی دکان کی اصلی قیمت میں جوڑ رہے ہیں تو انھوں نے پہلے اس سے انھیں منع کیا اور جب وہ نہیں مانے تو یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلے آئے کہ گناہ کے اس کام میں میں نہ مشورے میں شریک ہوسکتا ہوں اور نہ اس معاملے پر گواہ کی حیثیت سے دستخط کرسکتا ہوں۔ ایک قریبی دوست سے انھوں نے کنارہ کرلیا لیکن ایک ناجائز کام میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔

کئی سالوں پہلے جماعت اہل حدیث کے ایک ذمہ دار نے علی گڑھ ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے ایک بڑی زمین قسطوں میں رقم کی ادائیگی کی شرط پر خریدی تھی۔بعد میں انھوں نے اسی زمین پر ایک مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کرلیا، اس کی بنیادیں بھردیں ،ستون کھڑے کردیے اور سمر سیبل پمپ بھی لگوادیا ،قبل اس کے کہ وہ مسجد تعمیرکراپاتے ،ان کی اچانک وفات ہوگئی۔ان کے بچوں نے زمین کے کاغذات میرے پاس بھجوادیے ،جب میں نے متعلقہ آفس سے پتا کرایا تو معلوم ہوا کہ پہلی قسط کے علاوہ باقی قسطیں جمع ہی نہیں کی گئیں تھیں ،اور اس پر سود کی رقم زمین کی قیمت کے برابر ہوچکی تھی ۔ کچھ نوجوانوں کا خیال تھا کہ چندہ کرکے رقم جمع کی جائے اور اس پر مسجد تعمیر کرادی جائے لیکن شبن بھائی نے اس کی پرزور مخالفت کی اور مجھے سختی کے ساتھ منع کیا کہ مولانا رفیق صاحب آپ اس معاملے سے دور ہوجائیں اورزمین کے کاغذات ان کے بچوں کے حوالے کردیں ۔ سود کی رقم کے حوالے سے میں بھی متردد تھا،آخر وہی ہوا جو شبن بھائی نے چاہا۔اب وہ زمین ان کے بچوں نے کسی دوسرے آدمی کے ہاتھ بیچ دی ہے۔

علی گڑھ میں دہی کی گلی والی مسجد جو مسجد شمس قبائی کے نام سے جانی جاتی ہے، اور جس میں میں گزشتہ بیس بائیس سالوں سے خطبہ جمعہ دیتا ہوں،ہماری اپنی تولیت کی بے توجہی اور کمزوری کا فائدہ اٹھاکر ایک دیوبندی گروپ نے وقف بورڈ سے سازباز کرکے مسجد کی تولیت اپنی کمیٹی کے نام ٹرانسفر کرالی۔ یہ نئی کمیٹی تین سالوں کے لیے بنی تھی ،ان تین سالوں میں شبن بھائی نے عزیزم محمد راشد اور شعیب بھائی کے ساتھ مل کر لکھنو اور بریلی کے کئی ایک سفر کیے ،لکھنؤ سنی وقف بورڈ کے ذمہ داروں کو قائل کیا کہ مسجد غلط ہاتھوں میں چلی گئی ہے اور آخر تین سالوں کے بعد مسجد اہل حدیث کمیٹی کی تولیت میں آگئی جس کے سکریٹری محمد راشد صاحب ہیں اور صدر محمد شعیب ہیں اور شبن بھائی اس کے مضبوط رکن جنھوں نے ایک دن بھی احناف کی کمیٹی کو مسجد میں جگہ بنانے اور اس کا نظام ہاتھ میں لینے کا موقع نہیں دیا ،شبن بھائی کا خوف احناف کی کمیٹی پر اتنا غالب تھا کہ وہ تین سالوں تک دکانداروں سے کرایہ تو وصول کرتے رہے لیکن مسجد میں کسی طرح کی دخل اندازی نہ کرسکے۔ موذن کو اس کی تنخواہ اہل حدیث کمیٹی باہمی تعاون سے دیتی رہی۔مسجد کے امام حافظ محمد زبیر صاحب بغیر کسی تنخواہ کے تین سالوں تک اپنی ذمہ داری ادا کرتے رہے اور میں بھی تین سالوں تک خطبہ جمعہ بغیر کسی وقفے اور تعطل کے دیتا رہا۔

حافظ محمد زبیر صاحب علی گڑھ ہی کے رہنے والے اور صالح نوجوان ہیں ،نئے اہل حدیث ہیں اور قرآن کی تعلیم کو عام کرنے کا بے پناہ جذبہ رکھتے ہیں ،ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ان کی صلاحیتوں اور ان کے جذبات کا صحیح اور معقول استعمال نہیں کرپارہے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے حافظ زبیر صاحب کسی جتھے سے تعلق نہیں رکھتے اور ان سے میرا تعلق برادرانہ اور مخلصانہ ہے۔ مجھ سے اس تعلق کی انھیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہم صالح نوجوانوں کی تربیت کریں ،ان کو اپنے جتھے کا ساتھی بنانے پر اصرار نہ کریں۔

احناف کی کمیٹی نے بہت کوشش کی کہ حافظ محمد زبیر صاحب اپنی تنخواہ ان سے قبول کرلیں، ان کے عزیزوں کے ذریعے بھی ان کو گھیرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے اس نئی کمیٹی سے مشاہرہ نہیں لیا۔ احناف کی کمیٹی کو توخیر مجھ سے بات کرنے کی ہمت نہیں تھی ،وہ مجھے میرا مشاہرہ کیا دیتے بلکہ بعض ممبران یہ کہا کرتے تھے کہ جیسے ہی مسجد کا مکمل اختیار ہمارے ہاتھ میں آئے گا، سب سے پہلے مولانا رفیق کا خطبہ جمعہ بند کرائیں گے۔ اللہ نے ان کی تمام تر کوششوں اور آرزووں کو خاک میں ملادیا اور تین سالوں کی طویل جدوجہد کے بعد مسجد کی اہل حدیث کمیٹی بحال ہوگئی اور نئے انتظام کے تحت مسجد میں صفائی ستھرائی، وضوخانہ اور واش روم وغیرہ پہلے سے الحمد للہ بہت بہتر ہوگیا۔

حیرت ہے کہ احناف کی کمیٹی کے ذمہ داران تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں لیکن انھوں نے ابھی تک تین سالوں کا حساب نہیں دیا اوروہ مسجد کی دکانوں سے حاصل ہونے والے کرایے کے کئی لاکھ روپے اپنی جیب میں رکھ کر گھوم رہے ہیں۔ ان کے اندر ذرا بھی خوف خدا نہیں ہے،کل قیامت کے دن وہ اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے ۔ مسجد کے روپیوں کے تعلق سے یہ بددیانتی دین داری کے کس خانے میں ڈالی جائے؟

شبن بھائی جب سے اس مسجد کی کمیٹی میں آئے ،پوری تندہی اور اخلاص سے اس کے سارے کام کرتے رہے۔ کئی کئی گھنٹے مسجد میں رہتے اور اس میں ہونے والے کاموں کی نگرانی اور دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ مساجد کے اوقاف کا جو حال ہم مسلمانوں نے بنارکھا ہے،اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔شبن بھائی نے اس سلسلے میں بعض مناسب اور سخت قدم اٹھائے اور ممبران کو اعتماد میں لے کر کئی ایک دکانوں کا معقول کرایہ بڑھوایا،آج الحمد للہ مسجد اپنے پیروں پر کھڑی ہے اور اس کا سارا نظام اس کی اپنی دکانوں کی آمدنی سے بحسن وخوبی چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسجد کے تعلق سے ان کی ان خدمات کو ان کے حق میں صدقۂ جاریہ بنائے اور ہمیشہ ان کی نیکیوں اور حسنات میں اضافہ ہوتا رہے۔ ایک مسلمان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اپنے پیچھے اپنے بعض ایسے کام چھوڑجائے جس سے دین کی خدمت ہوتی رہے، مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ شبن بھائی کے ان مخلصانہ کا موں کا انھیں بھرپور صلہ دے گا۔

شبن بھائی کی وفات اور ان کی جدائی کا غم ہلکا ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ان کا وہ مسکراتا چہرہ بار بار سامنے آتاہے جس کا مظاہرہ وہ ہر ملاقات کے وقت کرتے رہتے تھے۔ وہ علماء سے بڑی محبت کرتے تھے اور علماء کو اپنے دسترخوان پر بلاکر خوشی محسوس کرتے تھے۔ ایک بار استاذ محترم مولانا عبدالسلام مدنی رحمہ اللہ نے میری جگہ خطبہ جمعہ دیا اور شبن بھائی نے اصرار کرکے انھیں اپنے گھر مدعو کیا۔اسی طرح علی گڑھ کے بعض دوستوں اور احباب کو بھی مدعو کیا کرتے تھے۔ ان کے عزیزوں میں ان کے کئی خالہ زاد بھائی ان سے خاصے بے تکلف تھے۔اطہر بھائی جان کا وہ ایک بڑے بھائی کی حیثیت سے احترام کرتے تھے اور کبھی کبھی جمعہ کے دن ظہرانے میں وہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوجاتے تھے۔ایک دوسرے خالہ زاد بھائی محمد سہیل تو خاصے بے تکلف تھے،وہ شبن بھائی سے چھوٹے تھے اور ایک بڑے بھائی کی حیثیت سے شبن بھائی کا احترام کرتے تھے۔ حنفی اور اہل حدیث مسائل کے حوالے سے ان سے اکثر نوک جھونک ہوتی رہتی تھی۔ عام طور پر وہ بھی جمعے کی دعوت میں ہمارے ساتھ دسترخوان پر موجود رہتے تھے۔افسوس کہ وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں ممبئی چلے گئے تھے،اس لیے اپنے اس خالہ زاد بھائی کی نہ تیمارداری کرسکے اور نہ ان کے جنازے میں شریک ہوسکے،جس کا غم انھیں لازمی طور پر ہوگا۔

شبن بھائی کے ساتھ گزارا ہوا وقت کئی سالوں پر محیط ہے،ان کی بہت سی یادیں سینے میں محفوظ ہیں۔ سوچتا ہوں کہ کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں ۔ ان کی زندگی اور شخصیت کو سمجھنے کے لیے جتنا ضروری تھا،صرف وہی زیر تحریر لایا گیا ہے۔آخر میں یہی کہوں گا کہ اللہ رب العالمین اپنے اس مخلص اور سادہ مزاج بندے کی تمام خدمات کو قبول فرمالے،ان کی کوتاہیوں اور خطاؤں کو معاف فرمادے اور انھیں اپنے محبوب اور مقبول بندوں کی صف میں جگہ دے۔آمین

شبن بھائی رخصت ہوگئے اور ہمارے پاس اپنی یادیں اور محبتیں چھوڑ گئے۔ میری عمر ساٹھ سال کی ہوچکی ہے،معلوم نہیں کہ اللہ نے ابھی کتنی زندگی لکھی ہے۔ لیکن اس زندگی میں شبن بھائی کو بھول پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔اللہ ان کے بچوں کو شاد وآباد رکھے اور وہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے رہیں۔آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Abdul Rehman Siddiqui

اللہ سارے مرحومین کی مغفرت کرے آمین۔جماعت اور اس کی فکر اللہ کے فضل سے ایسے ہی مخلص لوگوں کی کوششوں سے زندہ ہے ۔
مولانا کیا ایک،اہل حدیث کی،نماز غیر ایل حدیث کے پیچھے ہو،جاتی ہے ؟؟؟ وہ تو پکے اہل حدیث تھے ۔اپ کا،موقف کیا،ہے ؟؟؟