مسلم خواتین میں قرآن فہمی کا ذوق: کیوں اور کیسے پیدا کیا جائے؟

رفیق احمد رئیس سلفی قرآنیات

مسلم معاشرے میں مسلم خواتین کی صورت حال پر جب گفتگو کی جاتی ہے تو عام طور پر ان کا موازنہ غیر مسلم معاشرے کی خواتین سے کیا جاتا ہے اور کئی ایک پہلووں سے یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلم معاشرے میں صورت حال قدرے غنیمت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بحمد اللہ اس گئی گزری حالت میں بھی وہ کئی ایک لحاظ سے بہتر ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مسلم معاشرے میں ایک مسلمان عورت ان حقوق سے بہرہ ور ہے جو قرآن مجید نے اسے دیے ہیں، کیا ایک ماں، ایک بیوی اور ایک بیٹی کی حیثیت سے وہ اسی اکرام واحترام اور شفقت ومحبت سے سرفراز ہے جو اسلام نے اسے عطا کیے ہیں، یا اس کے کئی ایک حقوق سلب کیے جاچکے ہیں اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ وہ ظلم وتعدی کا شکار ہے، اس کی آزادی اس سے چھین لی گئی ہے اور اپنے ہی گھر میں وہ ایک خادمہ جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔کبھی وہ اپنے شوہر کی زیادتی کا شکار ہوتی ہے، کبھی ساس اور نند اس کی زندگی اجیرن بنادیتی ہیں اور کبھی وہ نافرمان بیٹے اور اپنی بہو کے ظلم کا شکار ہوتی ہے۔ وہ الفت ومحبت جو ایک شوہر سے اسے ملنی چاہیے، کیا وہ اس سے بہرہ ور ہے، کیا اسے وہ مالی حقوق حاصل ہیں جو قرآن نے اسے دیے ہیں۔

ان سوالات پر غور کرنے اور مسلم معاشرے کی صورت حال کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قرآن مجیدنے اسے جو بلند مقام عطا کیا تھا، کہیں نہ کہیں آج وہ اپنے اس مقام سے نیچے گرادی گئی ہے۔ اسے یہ سوچنے اور جاننے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ اس کے حقوق کیا ہیں، خوش قسمتی سے اگر کوئی شریف شوہر مل گیا تو وہ اس کی محبت کے سہارے اپنی زندگی ہنسی خوشی گزارلیتی ہے لیکن اگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور ساتھ کسی بداطوار اور اخلاق وشرافت سے عاری شوہر کا مل گیا تو اس کے پاس گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنا دکھڑا کسی کو سنا نہیں سکتی، اس کے آنسو پوچھنے والا کوئی نہیں، اس کی فریاد کہیں سنی نہیں جاسکتی بلکہ اگر شوہر یا اس کے اہل خانہ کے خلاف اس نے زبان کھولی تو زندگی مزید اذیتوں سے دوچار ہوجائے گی اور بے حیائی اور بے شرمی کا ایک نیا الزام اس کے سر مزید آجائے گا۔

صورت حال کی یہ تصویر بتاتی ہے کہ آج کے دور میں کس قدر ضروری ہوگیا ہے کہ مسلم خواتین اپنے ان حقوق سے واقف ہوں جو قرآن مجید نے انھیں عطا کیے ہیں۔ اسی طرح جن لوگوں پر ان حقوق کی ادائیگی کی ذمہ داری ہے، انھیں قرآن وسنت کے احکام سے واقف کرانا ضروری ہے۔ عورت ایک مستقل وجود رکھتی ہے، اس کے اندر بھی ویسے ہی جذبات ہیں جیسے مردوں کے اندر ہیں، وہ بھی مردوں کی طرح اپنی بہت سی خواہشات رکھتی ہے۔ اگر ایک مرد سے اس کے جذبات اور اس کی خواہشات چھین لی جائیں تو کیا وہ اپنا وجود باقی رکھ پائے گا، اسی طرح اپنے جذبات اور اپنی خواہشات سے محروم کردیے جانے کے بعد کیا ایک مسلمان عورت اپنے وجود کے ساتھ کھڑی رہ سکتی ہے۔ یہ ہے اس سوال کا مجمل جواب کہ مسلم خواتین میں قرآن فہمی کا ذوق پیدا کرنا کیوں ضروری ہے ۔

اس اجمال کی تفصیل میں جائیں تو اندازہ ہوگا کہ جس قرآن نے بچیوں کی ولادت کو باعث عار سمجھنے کے تصور کو ختم کردیا تھا، بچیوں کو زندہ درگور کرنے کو گناہ عظیم بتایا تھا اور جن کی پرورش اور تربیت کو باعث اجروثواب قرار دیا تھا، آج مختلف وجوہات کی بنا پر یہ سارے تصورات دھندلے پڑتے جارہے ہیں۔ بیٹی کی ولادت پر وہ خوشی نہیں منائی جاتی جو بیٹے کی ولادت پر دیکھنے کو ملتی ہے،مسلسل تین چار بیٹیوں کی ولادت ہوجائے تو ان کی ماں افراد خانہ کی نظروں سے گرجاتی ہے، حمل، دردزہ اور رضاعت کے صبر آزما مراحل ہنسی خوشی گزاردینے والی ایک بیوی اور ایک بہو اپنے گھر والوں کے چہروں پر مایوسی دیکھ کر سہم جاتی ہے اور کئی ایک اندیشے اس کی راتوں کی نیند اڑادیتے ہیں، اسے ایک ایسے جرم کے احساس میں مبتلا ہونا پڑتا ہے جو اس نے کیا ہی نہیں ہے۔ مسلم معاشرے میں ایسے واقعات کی بھی کمی نہیں کہ بعض خواتین کو ان کے شوہروں نے اس لیے طلاق دے دی کہ وہ ان کے لیے بیٹے پیدا نہیں کرپارہی تھیں۔ اگر اس کے بس میں ہوتا تو ایک نہیں اپنی سسرال کو خوش کرنے اور ان کی آنکھوں کا تارا بنے رہنے کے لیے وہ کئی بیٹے پیدا کردیتی لیکن یہ اس کے اختیار میں نہیں۔ آپ ہمارے معاشرے کی یہ تصویر دیکھیے اور قرآن مجید کی ان آیات کا مطالعہ کیجیے :

{وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُم بِالْأُنثَیٰ ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَہُوَ کَظِیمٌ ۔ یَتَوَارَیٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوئِ مَا بُشِّرَ بِہِ أَیُمْسِکُہُ عَلَیٰ ہُونٍ أَمْ یَدُسُّہُ فِی التُّرَابِ أَلَا سَائََ مَا یَحْکُمُونَ}(النحل:۵۸)

’’ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے۔ اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لیے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آہ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں؟‘‘

{وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَہُوَ کَظِیمٌ}(الزخرف:۱۷)

’’ان میں سے کسی کو جب اس چیز کی خبر دی جائے جس کی مثال اس نے (اللہ) رحمٰن کے لیے بیان کی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غمگین ہو جاتا ہے۔‘‘

وَإِذَا الْمَوْئُودَۃُ سُئِلَت۔ بِأَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ }(التکویر:۸،۹)

’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی؟‘‘

بیٹے اور بیٹی پیدا کرنا کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، ہماری چاہت اور خواہش کا اس میں کوئی بھی دخل نہیں ہے ۔ قرآن مجید کی اس سلسلے میں رہنما آیت ملاحظہ فرمائیں:

{یَہَبُ لِمَن یَشَائُ إِنَاثًا وَیَہَبُ لِمَن یَشَائَُ الذُّکُورَ۔أَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَإِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَن یَشَائَُ عَقِیمًا إِنَّہُ عَلِیمٌ قَدِیرٌ}(الشوری:۴۹-۵۰)

’’اللہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے، بلاشبہ وہ جانے والا قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘

کیا ہمارا مسلم معاشرہ قرآن مجید کی ان آیات میں زمانہ جاہلیت کے جس ظلم کا تذکرہ کیا گیا، اس کو سمجھتا ہے ۔ظاہر ہے کہ جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ ان آیات کو سمجھتے بھی ہیں اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں کرتے لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو یہ جانتے بھی نہیں کہ اس سلسلے میں قرآن مجید میں ہمیں کچھ ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ بچیوں کی ولادت کو پریشانی کا موجب سمجھنا اور بیٹیوں کی پیدائش پر بیوی کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر جاہلیت ہے اور اللہ کے بنائے ہوئے نظام سے کھلی بغاوت۔ ہم مسلم معاشرے کو قرآن کی ان تعلیمات سے کیوں روشناس نہیں کراپائے اور جاہلیت کا اتنا بڑا مظہر ہمارے سامنے موجود ہے اور ہم اس کی آنچ اور تپش سے مسلم خواتین کو بچانے میں ناکام ہیں۔ معاشرے کا جبر دیکھیے کہ اگر کوئی خاتون قرآن مجید کی ان باتوں کو اپنے شوہر اور دیگر افراد خانہ کے سامنے رکھتی بھی ہے تو اس پر ’’ملانی‘‘ کی پھبتی کسی جاتی ہے اور اس کے اس صحیح دینی سوچ کو مذاق میں اڑادیا جاتا ہے ۔

شادی کی غیر شرعی رسومات نے بھی اس تصور کو پختہ کیا ہے، کیا آج ان رسومات کو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کہیں دکھائی دیتی ہے۔ کوئی مسلم برادری یا پنچایت اس تعلق سے کوئی قدم اٹھاتی بھی ہے تو اصحاب ثروت چور دروازے سے وہ سارے کام کرلیتے ہیں جن پر پابندی عائد کی گئی ہوتی ہے۔ کوئی نوجوان اگر جہیز کے بغیر شادی کرنا چاہتا ہے تو ماں سامنے آجاتی ہے اور اپنے ارمانوں کی دہائی دے کر اسے جہیز لینے پر مجبور کردیتی ہے ۔ یہی وجوہات ہیں کہ جہیز کی بدترین رسم مسلم معاشرے کی عام روایت بن گئی ہے اور ہمارے علمائے کرام بھی اس کے سامنے سربسجود ہوچکے ہیں بلکہ بڑے اصحاب جبہ ودستار بہو کے گھر سے ملنے والے جہیز پر اظہار فخر ومسرت کرتے ہیں اور ان کو ذرا بھی غیرت نہیں آتی۔ جہیز کے معاملے میں بے شرمی کی انتہا ہوچکی ہے۔ بعض حضرات یہاں وراثت میں بیٹی کی حصہ داری کا مسئلہ چھیڑدیتے ہیں، ایسے جاہلوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ باپ کی وراثت بیٹی کو باپ کی وفات کے بعد ملتی ہے، اس کی زندگی میں نہیں۔

ایک مسلم خاتون بیوی کی حیثیت سے جب ہمارے سامنے آتی ہے اور اس کی ازدواجی زندگی کے مختلف پہلووں پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قدرت کے بنائے ہوئے فطری نظام اور اپنے جسم وروح کے تقاضوں کے پیش نظر وہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو چھوڑ کر ایک اجنبی شخص کا ہاتھ اس امید پر تھام لیتی ہے کہ وہ اسے پیار ومحبت دے گا، اس کا جیون ساتھی بنے گا اور آنے والی زندگی کے مسائل ومشکلات کو دور کرنے میں اس کا ایک سچا اور مخلص ہم سفر بنے گا۔ زندگی کے نشیب وفراز میں وہ ایک دوسرے کا لباس بنیں گے اور وہ اس طرح کہ وہ لباس کی طرح ایک دوسرے کی زینت میں اضافہ کریں گے اور ایک دوسرے کو لباس کی طرح سرد وگرم حالات سے تحفظ فراہم کریں گے۔ ایک دوسرے کے ہم راز بھی ہوں گے اور ایک دوسرے کی کمزوریوں اور کمیوں کی رعایت کرتے ہوئے ایک پُرمسرت زندگی گزاریں گے۔ ازدواجی زندگی شروع ہوتے ہی مرد کو نگراں اور محافظ ہونے کا منصب جلیل عطا کردیا جاتا ہے اور ایک شوہربیوی کے نان نفقہ کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ تمام باتیں مختلف مقامات پر کہیں مجملاً اور کہیں مفصلا بیان ہوئی ہیں، اس سلسلے کی مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:

{ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ}(البقرۃ:۱۸۷)

’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘

{وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً إِنَّ فِی ذَٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ}(الروم:۲۱)

’’یہ اللہ کی ایک بڑی نشانی ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اسی نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی ہے، بلاشبہ اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘

قرآن مجید کی ان آیات کی روشنی میں مسلم معاشرے کا جائزہ لیجیے تو نظر آئے گا کہ اپنی سسرال میں ایک مسلم خاتون کے ساتھ شوہر اور اس کے متعلقین کا برتاؤ غیر منصفانہ ہوجاتا ہے۔ ساس اپنی بہو سے ایسی امیدیں باندھ لیتی ہے جس کا تصور وہ اپنی بیٹی سے نہیں کرتی، اس کی جسمانی حالت جیسی بھی ہو، اسے شوہر کی خدمت بھی کرنی ہے، اس کی خواہشات کی تکمیل بھی کرنی ہے اور گھر کے سارے کام بھی کرنے ہیں۔ وہ اپنی طبیعت کی ناہمواری کی شکایت کرے تو ساس اس کو جی چرانے کا الزام دیتی ہے، تھکا ماندہ شوہر گھر واپس آتا ہے تو ماں شکایتوں کے دفتر کھول کر بیٹھ جاتی ہے اور غصے سے پاگل ہوکر بیٹا اپنی بیوی کو برا بھلا کہے یا دوچار تھپڑ رسید کردے تو ماں کے کلیجے کو ٹھنڈک مل جاتی ہے۔ اگر شوہر اپنی بیوی کی فرمائش پوری کرنے کے لیے اسے بازار لے کر چلا جائے یا تھیلے میں رکھ کر اس کے لیے کوئی سامان لے آئے تو ساس اور نند آسمان سر پر اٹھالیتی ہیں اور اپنے بیٹے اور بھائی کو کچھ کہنے کی بجائے معصوم بہو اور بھابھی کو کوستی اور طعنے دیتی ہیں کہ اس نے ان سے ان کا بیٹا اور بھائی چھین لیا۔ اس طرح ایک گھر میں کشمکش شروع ہوجاتی ہے جو آگے چل کر کئی ایک خرابیوں کا سبب بنتی ہے۔ ایک مسلمان بیوی اپنی ازدواجی زندگی میں کئی سالوں تک اس محبت، شفقت، ہمدردی اور دل جوئی سے محروم رہتی ہے جو قرآن نے بیوی کی حیثیت سے اسے عطا کیے ہیں۔

نکاح کے وقت قرآن مجید ایک شوہر کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنی ہونے والی بیوی کو مہر ادا کرے۔ مہر ایک لازمی چیز ہے جس کی ادائیگی فرض ہے۔ یہ اور بات ہے کہ شوہر کی جانب سے مقررہ مہر میں بیوی تخفیف کردے اور وہ بھی اپنی مرضی سے، اس کے لیے بھی شوہر اس پر کوئی دباؤ نہیں بناسکتا، صرف اس سے درخواست کرسکتا ہے یا مہلت طلب کرسکتا ہے۔ مہر میں ملی ہوئی رقم پر مکمل مالکانہ اختیارات بیوی کو حاصل ہوتے ہیں، وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے اسے خرچ کرسکتی ہے۔ لیکن مہر کے سلسلے میں بھی مسلم سماج میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو مہر ادا ہی نہیں کرتے، کچھ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مہر معاف کرالینا دین کا کوئی اہم کام ہے اور وہ بھی بالکل جانکنی کے وقت۔ جب روح پرواز ہونے والی ہوتی ہے تو بیوی کو شوہر کی چارپائی کے پاس لایا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ مہر معاف کردے۔ مرتے ہوئے شوہر کو دیکھنا اور پھر اس مطالبے کو پورا نہ کرنا کیوں کر ممکن ہے، وہ بے چاری بھرے مجمع میں مہر معاف کرنے کا اعلان کردیتی ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مہر طلاق روکنے کا ایک ذریعہ ہے، مہر کی ادائیگی کا خیال آتے ہی شوہر طلاق دینے سے باز آجاتا ہے۔ لڑکی کے گھر والے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اگر داماد نے طلاق دی تو اس سے مہر کا مطالبہ کریں گے۔ ایک رواج مہر کے سلسلے میں یہ عام ہوچکا ہے کہ لوگ تحفے میں دیے جانے والے زیور کو مہر بتادیتے ہیں اور زیور کی شکل میں مہر مقرر کردیا جاتا ہے لیکن اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ ہمارے عرف میں عورت اپنا زیور استعمال تو کرسکتی ہے، اپنے بچوں کی شادی میں اسے بیٹی یا بہو کو دے سکتی ہے لیکن زندگی میں کسی موڑ پر اگر اسے کچھ رقم کی ضرورت پڑجائے تو وہ شوہر کی مرضی اور اجازت کے بغیر اسے فروخت نہیں کرسکتی۔ اپنے والدین یا بھائی بہنوں کی بیماری کے علاج میں زیورات سے حاصل ہونے والی رقم خرچ نہیں کرسکتی۔ اس لیے میرے اپنے خیال میں جو مالکانہ اختیارات مہر پر اسلام نے اسے عطا کیے ہیں، وہ متاثر ہوتے ہیں اور چوں کہ شریعت عرف کا اعتبار کرتی ہے، اس لیے زیور پر مہر مقرر کرنا ایک نامناسب طرز عمل ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔ مہر کے سلسلے میں قرآن مجید کی ہدایت ملاحظہ فرمائیں:

{وَآتُوا النِّسَائََ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوہُ ہَنِیئًا مَّرِیئًا}(النساء:۴)

’’عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کرو، اگر وہ اپنی مرضی سے مہر میں سے کچھ حصہ چھوڑ دیں تو تم اسے خوشی خوشی اپنے استعمال میں لاسکتے ہو۔‘‘

ایک عورت ماں، بیٹی، بیوی اور بسااوقات بہن ہونے کی صورت میں اپنے بیٹے، اپنے باپ، اپنے شوہر اور اپنے بھائی کی جائیداد میں حصہ پاتی ہے۔ ماں، بیٹی اور بیوی کی حیثیت میں تو وہ ہر حال میں وارث بنتی ہے، اسے کسی بھی صورت میں جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ دولت کو خود اللہ نے زندگی کے قیام اور بقا کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ دولت سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، اپنوں اور غیروں کی نظر میں آدمی کا ایک وزن محسوس کیا جاتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں عورت کو صاحب جائیداد بنایا گیا ہے۔ شادی کے بعد اس کے نان نفقے کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ڈالی گئی ہے۔ اپنی دولت وہ اپنے شوہر کو دے سکتی ہے، شوہر غریب ہو تو اسے اپنی زکوۃ دے سکتی ہے لیکن شوہر کو اختیار نہیں ہے کہ وہ زبردستی اس کی دولت ہتھیالے یا اسے اپنے نام کرالے۔ اگر عورت برسرروزگار ہے تو اس کی کمائی پر مالکانہ اختیارات اسے حاصل ہیں، وہ اپنی مرضی سے شوہر کو کچھ حصہ دے دے یا پورا دے دے تو ایسا وہ کرسکتی ہے لیکن یہاں بھی شوہر اسے مجبور نہیں کرسکتا۔ قرآن مجید کی ہدایات ملاحظہ فرمائیں:

یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ فَاِنْ کُنَّ نِسَآء ً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَک وَ اِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ وَ لِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہ وَلَدٌ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ فَاِنْ کَانَ لَہٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِہَآ اَوْ دَیْنٍ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا وَ لَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہُنَّ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِہَآ اَوْ دَیْنٍ وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِہَآ اَوْ دَیْنٍ وَ اِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ وَّ لَہٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُس فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَہُمْ شُرَکَآئَُ فِی الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِہَآ اَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَآرٍّ وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ (النساء:۱۱-۱۲)

’’تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے، اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے اور تمھاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصہ تمھیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ تمھارا ہے جبکہ وصیت جو انھوں نے کی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو اُنھوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے اور وہ تمھارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں اُن کا حصہ آٹھواں ہوگا، بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے، جبکہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشر طیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے۔‘‘

قرآن مجید کے بیان کردہ وراثت کو مذکورہ بالا قوانین کو آج مسلم معاشرے کے بیشتر افراد نے فراموش کردیا ہے۔ کتاب وسنت پر عمل کرنے کا دعوی تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن ان پر عمل بہ مشکل چند فیصد لوگ ہی کرتے ہیں۔ شادی کے بعد ایک بیٹی اپنے باپ کی لاکھوں کی جائیداد سے ایک پائی نہیں پاتی، ماں اپنے شوہر کی جائیداد سے محروم ہوکر بیٹوں اور بہووں کے رحم وکرم پر ہوتی ہے، عین جوانی میں شوہر کی وفات ہوجائے اور اسے دوسری شادی کرنی پڑے تو پہلے شوہر کی جائیداد کا کوئی حصہ اسے نہیں دیا جاتا جب کہ اولاد ہونے کی صورت میں وہ اپنے مرحوم شوہر کی جائیداد کے آٹھویں حصے کی اور اولاد نہ ہونے صورت میں چوتھے حصے کی مالک ہے۔ گھر میں جائیداد کی تقسیم اگر نہیں ہوئی ہے تو جوان بیوہ اپنے جیٹھ جٹھانی، دیور اور دیورانی کے ظلم وتعدی کا شکار ہوتی ہے اور اپنے بچوں کو سمیٹے گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر سسکتی رہتی ہے۔

یوں تو مسلکوں کا جھنڈا اٹھاکر گلی کوچوں میں پھرنے والے بہت سے لوگ جو خود کو جنتی اور دوسروں کو جہنمی بتانے میں پیش پیش ہیں، ان کو اسلام کے اس قانون کی کوئی فکر نہیں ہے اور نہ اسلام کا یہ قانون ان کی مسلکی ترجیحات میں شامل ہے۔ ان کی مسلکی ترجیحات پر اگر کوئی بندہ عمل کرتا ہے تو وہ ان کا ہم مسلک ہے لیکن اسلام کے دوسرے بہت سے مسائل اور قوانین پر وہ عمل نہیں کرتا تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مغضوب علیہم اور ضالین کی یہی تو بدعات اور گمراہیاں تھیں جن سے اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں مسلمانوں کو دور رہنے کی تاکید فرمائی تھی اور ہر نماز کی ہر رکعت میں بطور دعا اس کا اعادہ کرنے کا حکم دیا تھا مگر افسوس آج کل حزب بما لدیہم فرحون کا منظر ہمارے چاروں طرف دکھائی دیتا ہے۔

قرآن مجید ایک شوہر کو حکم دیتا ہے کہ اگر اسے اپنی بیوی سے کوئی شکایت ہے تو اسے دور کرنے کے مرحلہ وار چار طریقے اپنائے۔ بیوی کو سمجھائے تاکہ وہ اپنی غلطی سدھار لے۔ اس کے لیے قرآن مجید وعظ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ وعظ میں جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں شفقت، محبت اور اپنائیت کا لہجہ پایا جاتا ہے۔ ایک شوہر کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی محبت، حسن سلوک اور گزاری ہوئی ازدواجی زندگی کی خوش گوار یادوں کے حوالے سے عورت سے گفتگو کرے اور اسے نصیحت کرے۔ وعظ میں ڈانٹ پھٹکار، لعن طعن اور سخت کلامی نہیں ہوتی۔ عورت کی اصلاح اگر اس اقدام سے نہ ہو تو اسے خواب گاہ سے الگ کردیا جائے۔ بغل میں یا کمرے میں شوہر موجود ہو اور اس کی طرف توجہ نہ دے تو عورت کی غیرت کو بڑی ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ اپنا محاسبہ کرکے شوہر کی اطاعت کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو قرآن نے عورت کو مارنے کا حکم دیا ہے۔ یہاں مارنے کا مطلب ہلکی چپت لگانا ہے، یہ نہیں کہ لاٹھی ڈنڈے اور لات گھونسے سے اسے مارا جائے اور اس کا چہرہ بگاڑ دیا جائے یا ہڈی توڑ دی جائے۔ ہلکی سرزنش کی جائے تاکہ وہ اپنی سرکشی سے باز آجائے۔ اگر پھر بھی بات نہ بنے تو دونوں گھرانوں سے حکم مقرر کیے جائیں اور وہ دونوں کی شکایات سن کر ان کا ازالہ کردیں اور ازدواجی زندگی اپنی پہلی حالت پر لوٹ آئے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی اصولی ہدایت ملاحظہ فرمائیں:

{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَ اہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْہُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلًا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًاوَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہَا اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا}(النساء:۳۴-۳۵)

’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر تم وہ تمھاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔‘‘

اگر ایک مسلمان شوہر قرآن کے ان احکامات پر عمل کرے تو طلاق کو روکا جاسکتا ہے اور گھروں کو اجڑنے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ اگر طلاق کی نوبت آ ہی جائے تو قرآن کی ہدایت یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک ہی طلاق دی جائے۔ تینوں طلاقیں ایک ساتھ نہ دی جائیں۔ لیکن ایک مجلس کی تین طلاق تین یا ایک رجعی طلاق؟ اس مسئلے نے بڑی پیچیدگی اختیار کرلی ہے۔ ائمہ اربعہ کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک ساتھ دی گئی تین طلاقیں تین ہوتی ہیں، پھر رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی الا یہ کہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور وہ بھی اگر اتفاق سے اسے طلاق دے دے تو وہ پہلے شوہر کے نکاح میں دوبارہ آسکتی ہے۔ لیکن اس مسئلے میں کسی طرح کی سازباز اور حیلہ قطعی طور پر حرام ہے اور ایک لعنتی کام ہے۔

احادیث میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ ایک ساتھ دی گئی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہوتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس طرح طلاق دینے کو شریعت کے ساتھ مذاق قرار دیا ہے اور رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے بعض تلامذہ کا یہی موقف ہے۔ برصغیر کی جماعت اہل حدیث اس مسئلے میں امام ابن تیمیہ کی ہم نوا ہے۔ بریلوی مسلک کے ایک بڑے عالم پیر محمد کرم شاہ ازہری کا بھی یہی موقف تھا کہ ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کو ایک شمار کیا جائے۔ کئی ایک دیوبندی علماء بھی یہی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جس مسئلے میں اللہ نے میاں بیوی کو تین مہینے تک غوروفکر کرنے کا موقع فراہم کیا، بندے کو یہ حق کس نے دے دیا کہ وہ ان سے یہ موقع چھین لے۔ تین طلاق دینے کی جو صورتیں بتائی جاتی ہیں، وہ بھی لغو اور مہمل معلوم ہوتی ہیں کیوں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے: میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی، تو پہلے ہی جملے سے بیوی پر طلاق واقع ہوگئی۔ جب بیوی مطلقہ ہوگئی تو رجوع کرنے سے پہلے دوسرے اور تیسرے جملے کا اطلاق کس پر ہوگا۔ اسی طرح اگر وہ کہتا ہے کہ میں نے تجھے تین طلاق دی تو یہ بھی ایک لغو جملہ ہے۔ اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سجدے میں تین مرتبہ سبحان ربی الاعلی کہنے کا حکم دیا ہے، اب اگر کوئی نمازی سبحان ربی الاعلی ثلاث مرات، کہے تو اس کا صرف ایک بار کہنا شمار ہوگا تین مرتبہ نہیں بلکہ اسے الگ الگ تین مرتبہ اس کلمے کو دہرانا ہوگا۔

طلاق کے تعلق سے قرآن کے ایک اور اہم حکم کی نافرمانی کی جاتی ہے اور اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ اللہ نے سورہ طلاق میں حکم دیا ہے کہ طلاق دینے کے بعد بیویوں کو اپنے گھروں سے نہ نکالو اور وہ بھی طلاق پانے کے بعد اپنے گھروں سے نہ نکلیں۔ اسی حکم میں آگے بتایا گیا ہے کہ شاید اللہ صورت حال کو بہتر بنادے۔ یہ ایک بڑا نفسیاتی مسئلہ ہے جس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ جو میاں بیوی ایک عرصے تک خوش گوار ازدواجی زندگی گزار چکے ہوں، بہت سی حسین یادیں جن کے ساتھ ہوں، وہ ایک ہی کمرے میں مسلسل تین ماہ تک علیحدہ نہیں رہ سکتے۔ دونوں کے جذبات دونوں کو ایک دوسرے سے قریب لے آئیں گے لیکن ہمارے کسی فقہی مسلک نے اس مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، فقہی کتابوں میں یہ مسئلہ زیر بحث ہی نہیں آیا۔ ایک حنفی دوست سے جب میں نے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ کوئی قانون نہیں ہے۔ میں نے ؑعرض کیا کہ جناب! کیا اللہ تعالیٰ نے یہ کوئی استحبابی حکم دیا ہے کہ آپ چاہیں تو اس پر عمل کریں اور چاہیں تو نظر انداز کردیں۔ آج مسلم معاشرے میں اس قانون کا کوئی تصور ہی نہیں رہ گیا ہے۔

خلع کے مسئلے کو بھی پیچیدہ کردیا گیا ہے۔ ہمارے بعض فقہی مسالک نے اسے مرد کی طرف سے دی جانے والی طلاق سے جوڑ کر اس کی روح کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ قرآن مجید نے اس تعلق سے بڑی واضح اور دوٹوک بات کہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کی فطری حاجات پوری کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اس کو کھلانے پلانے کی حیثیت نہیں رکھتا، اسے مارتا پیٹتا اور ظلم کرتا ہے تو اسلام ایسی عورت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ قاضی کے پاس شکایت درج کرائے اور قاضی فریقین کی باتیں ثبوت اور گواہوں کے ساتھ سن کر اگر عورت حق بہ جانب نظر آئے تو اس کا نکاح فسخ کردے گا۔ کئی مسالک کے فقہاء نے خلع کے سیدھے سادے مسئلے کو جس قدر پیچیدہ بنایا ہے، اس کی وجہ سے ایک عورت کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔

طلاق اور خلع کے سلسلے میں میری ناقص رائے یہ ہے کہ قدیم فقہاء کی چھیڑی گئی بحثوں کو نظر انداز کرکے اسلام کے قانون طلاق اور خلع کو صرف کتاب وسنت اور اس کی روح کو مدنظر رکھ کرسمجھا جائے اور جہاں یہ نظر آئے کہ قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے، اس میں اجتہاد کے ذریعے کئی ایک دفعات کا اضافہ کیا جائے تاکہ مسلم معاشرے میں عورتوں کے خلاف جو ظلم ہورہا ہے، اس کو روکا جائے۔ ہم اپنی داعیانہ حیثیت کھودیں گے اگر ہم نے اپنے معاشرے میں اصلاح کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ نے تین طلاقوں کو تین بتاکر یہی راستہ دکھایا تھا کیوں کہ معاشرے میں اس وقت یہ صورت حال پیدا ہوگئی تھی کہ لوگ ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کو رجعی مان کر دو مہینے انتیس دن تک اپنی بیویوں کو تنگ کرتے تھے اور ایک دن پہلے رجوع کرکے ان کو بیوی بنالیتے تھے۔ اس ظلم کے خلاف سیدنا فاروق نے قانون سازی کی اور وقتی طور پر عورتوں پر ہونے والے اس ظلم کا سد باب کیا۔ صورت حال بدل جانے سے مسئلے کی صورت تبدیل ہوجاتی ہے۔

خواتین میں قرآن فہمی کو کیسے فروغ دیا جائے؟

صورت حال کی جو تصویر گزشتہ صفحات میں پیش کی گئی ہے اور اپنی مختلف حیثیتوں میں ایک مسلم خاتون جن اذیتوں اور الجھنوں سے دوچار ہے، اسے کیسے دور کیا جائے، مسلم معاشرے میں ان قدار کو کیسے فروغ دیا جائے جو قرآن میں ہمیں دکھائی دیتی ہیں، خواتین کو ذہنی طور پر کیسے مضبوط کیا جائے کہ وہ اپنا مقدمہ خود لڑسکیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ مسلم معاشرے کو کیسے تیار کیا جائے کہ وہ دل کی آمادگی کے ساتھ ان حقوق کو ادا کرسکے۔ اس کے لیے میری چند تجاویز اور سفارشات ہیں، امید ہے کہ ان پر غور کیا جائے گا اور اس کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔

(۱)فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم ملت کو ملت واحدہ بنانے کی کوشش کی جائے۔ قرآن اور حدیث امت کی ہدایت کے لیے کافی ہیں۔ اجماع اور قیاس سے انکار نہیں، وہ بھی شریعت کے مآخذ ہیں لیکن ان کی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں کتاب وسنت خاموش ہیں۔ نصوص کتاب وسنت کی موجودگی میں نہ کوئی اجماع معتبر ہے اور نہ کسی قیاس کی گنجائش ہے۔ ملت کا فقہی سرمایہ یقیناً قابل احترام ہے لیکن جہاں فقہی جزئیات اور فروعات براہ راست نصوص کتاب وسنت سے متعارض ہیں، ان کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ قابل رد ہیں۔ یہی فکر وعقیدہ اس دلدل سے ہمیں باہر نکال سکتا ہے جس میں ہم دھنستے چلے جارہے ہیں۔

(۲)نصوص کتاب وسنت سے جو مسائل سامنے آئیں، ان کو بغیر کسی فقہی مسلک اور مشرب کی عینک لگائے عملی زندگی میں اتارا جائے۔ دینی مدارس میں مسلکی امتیازات اور فقہی ترجیحات پر پورا زور صرف کرنے کی بجائے قرآن وحدیث کی جملہ تعلیمات کی تفہیم کرائی جائے اور مسلم معاشرے کی خرابیوں اور کمزوریوں کو سامنے لاکر طلبہ کو ذہنی طور پر آمادہ کیا جائے کہ وہ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد ان خرابیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی جد وجہد کریں گے۔ اپنے مسلکی امتیازات اور فقہی ترجیحات کو کل اسلام سمجھنے کی غلطی کا اعادہ وہ اپنی کسی تحریر وتقریر میں نہیں کریں گے۔

(۳)طلاق اور خلع کے مسائل کو جس قدر پیچیدہ اور لاینحل بنادیا گیا ہے، پوری ہمدردی سے ان پر خالص نصوص کتاب وسنت کی روشنی میں غور کیا جائے۔ اپنے مسلک ومشرب کی کمزوری کا اعتراف کیا جائے اور اپنی اجتہادی غلطیوں کو اسلام کی طرف منسوب کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ تمام تر تقدس وعظمت قرآن وحدیث کو حاصل ہے، کسی فقہی کتاب یا کسی فقہی مسلک کو نہیں۔ یہی تعلیم امت کے تمام ائمہ، فقہاء اور مجتہدین نے دی ہے کہ ان کے اقوال وفرمودات کو قرآن وحدیث پر پیش کیا جائے، اگر کہیں غلطی نظر آئے تو اس سے کنارہ کشی اختیار کی جائے اور کسی فقیہ کی اجتہادی غلطی یا بھول کو اسلام کا قانون بناکر پیش نہ کیا جائے۔ حلالہ ایک لعنتی فعل ہے، اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اگر دوسرا نکاح کسی سازش کے ساتھ کیا جارہا ہے خواہ زبان سے اس کا اظہار کیا جائے یا بعض فقہاء کے بہ قول دل میں نیت رکھی جائے کہ کسی مسلمان بھائی کی بیوی کو اس کے لیے حلال کرنا ہے تو اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں ہے۔ جن فقہاء نے اس سلسلے میں نرمی دکھائی ہے، اللہ ان کی اس اجتہادی غلطی کو معاف فرمائے، یہ غلطی اسلام کی بدنامی کا سبب بن چکی ہے اور دنیا میں وہ دین رسوا ہورہا ہے جو اللہ نے تمام انسانیت کی فلاح ونجات کے لیے نازل فرمایا ہے۔

(۴)مسلم خواتین ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کی حیثیت سے جن حقوق سے سرفراز ہیں، ان کی تفہیم کے لیے تمام جائز وسائل وذرائع استعمال کیے جائیں۔ اعلی درجے کی کتابیں اور چھوٹے چھوٹے کتابچے اور فولڈر تمام زندہ زبانوں میں تیار کیا جائے اور ایک مشن کے طور پر اس کام کو ہاتھ میں لیا جائے۔ پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کا استعمال ایک نظم کے ساتھ کیا جائے اور اس کو محفوظ رکھنے اور اس کے دائرے کو وسیع کرنے کے جتن کیے جائیں۔

(۵)عصری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والی مسلم طالبات کے لیے بھی پروگرام آرگنائز کیے جائیں اور ان کو خطاب کرنے کے لیے عصری تعلیمی اداروں کے فیض یافتہ معلمین اور معلمات کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ وہ جدید تعلیم یافتہ خواتین کو انھی کی زبان میں مسائل واحکام کی تفہیم کراسکیں۔

تفسیر وحدیث کے تمام شیوخ کا احترام اپنی جگہ ہے، ہم ان کی دل سے عزت بھی کرتے ہیں اور ان کی دینی وعلمی بصیرت کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن وہ جس زبان میں گفتگو کرنے کے عادی ہیں اور جس طرح کی تعبیرات واصطلاحات پیش کرنا ان کا معمول ہے، وہ جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے قطعی مفید نہیں بلکہ بسااوقات ان کی تقریریں کئی طرح کی غلط فہمیاں بھی پیدا کرسکتی ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان کی ملت اسلامیہ کے وہ طلبہ وطالبات جو ایک خاص ماحول میں زندگی گزارتے ہیں، ان کے مسائل ومشکلات کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے ان کی طرح کے ماحول کا سامنا کیا ہو۔ جو مسلم طالبہ اپنی ایک غیر مسلم سہیلی طالبہ کے ساتھ ہاسٹل کی زندگی گزاررہی ہو، ساتھ ساتھ ایک ہی کلاس میں پڑھتی ہو، ایک ہی ساتھ اسٹڈی روم جاتی اور ایک ہی ساتھ سوتی جاگتی اور کھاتی پیتی ہو، عید اور بقرعید کے مختلف پکوان ہنسی خوشی دونوں ایک ساتھ شیئر کرتی ہوں، ایسی مسلم طالبہ آپ کا یہ فتوی تسلیم نہیں کرسکتی کہ ہولی اور دیوالی کے تہوار میں غیر مسلم طالبہ کے گھر سے آئی ہوئی مٹھائیاں کھا نہیں سکتی کیوں کہ اس میں اندیشہ ہے کہ کہیں وہ پوجا پاٹھ کی مٹھائی نہ ہو۔ جن اخلاقی قدروں اور تہذیبی مظاہر کو اس نے ایک خاص ماحول میں رہ کر سمجھا ہے، یہ فتوی نہ صرف دقیانوسی خیال کیا جائے گا بلکہ عصری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے ہمارے طلبہ وطالبات دین اسلام اور داعیان اسلام سے دور اور متنفر ہوجائیں گے۔ غیر مسلم کے ہاتھ کی بنی ہوئی یا اس کی طرف سے پیش کی جانے والی اشیائے خورد ونوش کے استعمال کا مسئلہ مختلف فیہ ضرور ہے لیکن اسلام کی وسعت نظری اور رواداری کا تقاضا ہے کہ ان کو جائز سمجھا جائے ۔

(۶)قرآن فہمی کا صحیح اور حقیقی ذوق اپنی طالبات کے اندر مدارس نسواں پیدا کرسکتے ہیں اور تفہیم قرآن کے لیے عربی زبان وادب اور دیگر علوم شرعیہ کی جو ضرورت ہے، وہ انھی کے نصاب تعلیم اور نظام تربیت سے پوری ہوسکتی ہے۔ نسواں مدارس کو ابھی تک کئی ایک مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایسی معلمات کمیاب ہیں جو سارے ہی مضامین کی تدریس کے فرائض انجام دے سکیں۔ بعض ذہین طالبات اگر اس قابل بن بھی جاتی ہیں تو شادی کے بعد وہ اپنی خانگی ذمہ داریوں سے وابستہ ہوجاتی ہیں اور درس وتدریس کا مشغلہ جاری نہیں رکھ پاتیں۔ ابھی یہ ابتدائی مراحل میں ہیں، ہمیں امید ہے کہ جلد ہی وہ اپنی کمیوں پر قابو پالیں گے اور معلمات کی کمی دور ہوجائے گی۔ مرد اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، کئی ایک نسواں مدارس میں مرد اساتذہ کرام تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ مدارس نسواں سے وابستہ حضرات اس بات کی کوشش کریں کہ وہاں کی سند یافتہ طالبات تقریر وتحریر میں ممتاز ہوں، اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا خصوصی ملکہ ان کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔

(۷)مسلم خواتین کو دینی پروگراموں، دروس قرآن وحدیث، خطبات جمعہ وغیرہ میں نہ صرف شریک کیا جائے بلکہ ہر محلہ کی سطح پر یہ دیکھا جائے کہ اس محلے کی خواتین کی دینی تعلیم وتربیت کا کیا نظم ہے۔ صاحب علم خواتین اپنے طور پر دینی پروگرام آرگنائز کریں اور ناخواندہ مسلم خواتین تک قرآن وحدیث کی تعلیمات پہنچانے کی کوشش کریں۔ اگر کسی محلے میں ایسی عالمہ خواتین نہیں ہیں تو دوسری جگہوں سے ان کو بلایا جائے اور آہستہ آہستہ کوشش کی جائے کہ محلے میں ایسی بیٹیاں اور بہویں تیار ہوں جو دعوت وتربیت کی یہ خدمت انجام دے سکیں۔ مساجد میں خواتین کی حاضری یا موجودگی کے تعلق سے بعض فقہی مسالک میں جو تحفظات ہیں، ان کی نہ کوئی شرعی بنیاد ہے، نہ عقلی لحاظ سے اسے جائز اور درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ عہد رسالت میں خواتین پنجوقتہ نمازوں میں شرکت کرتی تھیں، یہ دلیل ہمارے لیے کافی ہے، اس میں قیل وقال کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہے۔

آپ کے تبصرے

3000